غزہ سے لندن تک؛ بیشترین برطانوی بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹس پر شہید کمانڈر کا نام
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
معروف برطانوی یہودی اشاعت نے اطلاع دی ہے کہ سال 2024 کے دوران برطانیہ میں پیدا ہونیوالے بچوں کے ناموں میں سے، انتہائی معنی خیز انداز میں، "یحیی" نے ریکارڈ اضافہ کیا ہے! اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے معروف یہودی مجلے جیوش کرانیکل نے اطلاع دی ہے کہ ایک اہم اور انتہائی معنی خبر یہ ہے کہ "یحیی" نام نے سال 2024 کے دوران برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹس میں ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے نومولود بچوں میں نام "یحیی"، سال 2024 کے دوران 33 گنا پیشرفت کرتے ہوئے سرفہرست 100 ناموں کے درمیان جا پہنچا ہے۔ شائع شدہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں گذشتہ سال 583 بچوں کا نام "یحیی" رکھا گیا تھا، ایک ایسا نام کہ جو آج نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں بھی فلسطینی مزاحمت کے شہید کمانڈر یحیی السنوار کی یاد تازہ کرتا ہے۔
یحیی السنوار، غزہ کی مزاحمت میں ایک نمایاں شخصیت ہیں جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے روز شروع ہونے والے فلسطینی مزاحمتی آپریشن طوفان الاقصی کے معماروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک ایسا آپریشن کہ جس نے نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے طاقت کے گھمنڈ کو خاک میں ملا ڈالا بلکہ خطے بھر کی مظلوم قوموں کے دلوں میں بھی نئی امیدیں جگائیں۔ ناجائز قبضے کے خلاف برسوں کی جدوجہد اور مسلح مزاحمت کے بعد یحیی السنوار بالآخر 16 اکتوبر 2024 کے روز غزہ کی پٹی میں قابض صیہونی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
واضح رہے کہ فلسطینی تحریک آزادی کے اس عظیم شہید کا چہرہ مسخ کر دینے کی صہیونی کوششوں کے باوجود بھی مغرب کے قلب میں "یحیی" کے نام کا وسیع استقبال ایک واضح پیغام کا حامل ہے جو یہ ہے کہ مزاحمت کا راستہ دلوں اور نسلوں کو متاثر کرتا ہے، یہانتک کہ ان معاشروں کے دلوں میں بھی اتر کر ثمر بخش قرار پاتا ہے کہ جو برسوں سے یکطرفہ پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔
اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نومولود بچوں کو "یحیی" نام دینے کا یہ عمل ٹھیک جنوری 2024 میں، شہید یحیی السنوار کی شہادت سے بھی قبل شروع ہوا تھا، یعنی 7 اکتوبر 2023 کے روز طوفان الاقصی مزاحمتی آپریشن کے آغاز کے چند ماہ بعد!
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیشرفت صرف اعداد و شمار ہی نہیں بلکہ سرحدوں کے اس پار موجود رائے عامہ پر بھی مزاحمتی گفتگو کے گہرے و براہ راست اثرات کی غمازی ہے، لہذا برطانیہ میں آج "یحیی" کے نام سے پروان چڑھنے والی نسل؛ کل جبر و ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمتی پیغام کی علمبردار قرار پا سکتی ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یحیی السنوار برطانیہ میں
پڑھیں:
ٹرمپ تاریخی دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، شاہانہ استقبال، احتجاجی مظاہرے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن:۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے تاریخی سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، جہاں ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا، برطانوی وزیراعظم کو دورے سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہونے کی امید ہے، ٹرمپ کے خلاف ونڈسر میں مظاہرے بھی کیے گئے، پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر اپنی اہلیہ کے ہمراہ تاریخی سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، لندن کے ایئرپورٹ سے ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا برطانوی شاہی خاندان کی رہائش گاہ وِنڈسر کیسل پہنچے، جہاں بادشاہ چارلس، ان کی اہلیہ کوئن کمیلا، ولی عہد شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیتھرین نے ان کا استقبال کیا، اس کے بعد قلعے کے احاطے میں ایک بگھی کی سواری ہوئی۔سب سے پہلے ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا کا استقبال بادشاہ کے بڑے بیٹے شہزادہ ولیم اور کیتھرین نے کیا، جنہیں صدر نے بہت خوبصورت کہا۔بعد میں بادشاہ چارلس اور کوئن کمیلا ٹرمپ جوڑے کے ساتھ بگھی کی سواری میں شامل ہوئے، جہاں راستے کے دونوں جانب 1,300 برطانوی فوجی اہلکار کھڑے تھے۔
صدر نے بادشاہ سے بات چیت اور مسکراہٹ کے تبادلے کے بعد سرخ یونیفارم اور بئیرسکن ہیٹس پہنے فوجیوں کا معائنہ کیا۔ ٹرمپ سینٹ جارج چیپل بھی جائیں گے جہاں ملکہ الزبتھ کی آخری آرام گاہ ہے، وہی ملکہ جنہوں نے 2019 میں ان کے پہلے سرکاری دورے پر ان کی میزبانی کی تھی، ٹرمپ وہاں ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے۔ ایک فضائی پریڈ بھی ہوگی جس میں برطانوی اور امریکی ایف35 فوجی طیارے شامل ہوں گے، جو امریکا-برطانیہ دفاعی تعاون کی علامت ہیں، اس کے بعد ایک شاندار ضیافت ہوگی جس میں بادشاہ اور صدر دونوں خطاب کریں گے۔
لندن میں برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کے مرکزی لندن ہیڈکوارٹر کے باہر مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے دورے کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر No to Trump اور Stop arming Israel کے نعرے درج تھے۔خیال رہے کہ لندن میں اسٹاپ دی ٹرمپ کولیشن کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے 1600 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔دارالحکومت میں عام لوگ اس دورے کے بارے میں ملے جلے خیالات رکھتے ہیں، کچھ دعوت پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں تو کچھ اسے ہوشیار سیاست اور برطانیہ کی نرم طاقت کا اچھا استعمال سمجھ رہے ہیں۔