زمین کی کوکھ سے اُٹھنے والی کراہیں، برفانی چوٹیاں جو تیزی سے پگھل رہی ہیں، جنگلات کی آگ جو انسان کے گناہوں کا دھواں آسمان تک پہنچا رہی ہے، اور سمندر جو اپنی حدیں پار کر رہے ہیں یہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مستقبل کا اندیشہ نہیں بلکہ موجودہ عہد کا سنگین بحران بن چکا ہے۔

2025 میں دنیا ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف تحقیقاتی مقالوں یا ماحولیاتی کانفرنسوں کا موضوع بننے کے بجائے انسانی بقا کے بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس سال کے پہلے چھے ماہ میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت میں 1.

5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے، جو اقوام متحدہ کی بین الحکومتی رپورٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کے خطرناک حد سمجھے جانے والے ہدف کو چھو رہا ہے۔

یورپ، امریکا، بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی خطے اس سال 50 سے 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی شدید گرمی کی لپیٹ میں آئے۔ صرف بھارت میں مئی 2025 کے دوران ہیٹ ویو کے باعث 1,200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کینیڈا اور یونان کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا، جب کہ امریکا کی کیلیفورنیا ریاست میں 2025 کی گرمی کے موسم کو تاریخ کا سب سے خشک اور گرم قرار دیا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے بڑا بوجھ ترقی پذیر ممالک اٹھا رہے ہیں، جو عالمی آلودگی میں کم حصہ رکھنے کے باوجود شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان کی مثال اس کی زندہ دلیل ہے۔ ہم دنیا کی کل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 0.8 فی صد کے شریک ہیں، مگر ماحولیاتی آفات سے متاثرہ اولین دس ممالک میں شامل ہیں۔ جرمن واچ (Germanwatch) کی گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ دہائی میں 150 سے زائد ماحولیاتی سانحات کا سامنا کر چکا ہے۔

سال 2025 کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کے جنوبی علاقے، خصوصاً سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان، شدید گرمی اور خشک سالی کا شکار رہے۔ دریائے سندھ اور چناب کی سطح آب میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح نازک حد تک نیچے جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے بلکہ شہروں کو بھی پانی اور بجلی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

زرعی شعبہ، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنے جیسی بنیادی فصلیں یا تو وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھپھوندی، گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ماحولیاتی بحران صرف درجہ حرارت یا پانی کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ صحت عامہ پر بھی اس کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک، ملیریا، ڈینگی اور سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خصوصاً شہری علاقوں میں جہاں درختوں کی کمی، ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی اور آبادی کا دباؤ ان مسائل کو مزید گھمبیر بناتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ افراد صرف آلودہ ہوا کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔

حکومتی سطح پر کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے گئے ہیں۔ ’’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ‘‘، کلین اینڈ گرین پاکستان مہم، اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی جیسے پروگرامز ماحول دوست وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو گرین ٹرانسپورٹ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وفاقی حکومت نے ’’کلائمیٹ ایکشن بل 2025 ‘‘ پر بحث کا آغاز بھی کیا ہے، جس میں کاربن ایمیشن کی حد بندی، صنعتی آلودگی پر سخت ضوابط، اور گرین انرجی کے فروغ جیسے نکات شامل ہیں۔

تاہم ان منصوبوں پر عمل درآمد میں سنجیدگی، رفتار اور شفافیت کا فقدان ہے۔ بہت سے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہیں یا ان پر عمل اتنا سست ہے کہ نتائج حاصل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال، صنعتی فضلہ، اور شہری فضائی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑے شہر، خصوصاً لاہور، سال کے بیشتر حصے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عوامی شعور کی کمی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ عام شہری نہ تو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، اور نہ ہی اپنی روزمرہ زندگی میں ماحول دوست عادات اپنانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تعلیم کو ابھی تک سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا، اور میڈیا پر بھی اس حوالے سے مسلسل آگاہی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔

مگر تمام تر مایوسی کے باوجود، امید کے کچھ دیے اب بھی روشن ہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے درمیان ماحولیاتی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ مختلف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ’’گرین کلب‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماحول دوست مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور نجی ادارے کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی، جیسے سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز، کی تنصیب میں اضافہ ہورہا ہے، اور ماحول دوست طرزِزندگی کو فروغ دینے کے رجحان میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر یہ سب کچھ اُس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم بحیثیت قوم اس مسئلے کو اپنی اجتماعی ذمے داری تسلیم نہ کریں۔ جب تک شہری بجلی، پانی، پلاسٹک اور قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط نہیں کریں گے، جب تک تعلیمی ادارے ماحول دوست نسل تیار نہیں کریں گے اور جب تک حکمران طبقہ محض اعلانات کی بجائے عمل کو ترجیح نہیں دے گا، اُس وقت تک کلائمٹ چینج صرف رپورٹوں کا موضوع رہے گا، حل کا نہیں۔

اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو صرف ’’چیلینج‘‘ نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی قومی، اخلاقی اور انسانی ذمے داری مانتے ہوئے فوری، دیرپا اور جامع اقدامات کریں۔ ورنہ یہ زمین، جو کبھی ہمارے خوابوں کی جنت تھی، کل ہماری غفلت کی دوزخ بن جائے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی ماحول دوست رہی ہیں رہے ہیں ا لودگی رہا ہے کی کمی

پڑھیں:

 پنجاب  میں آلودگی پھیلانے والوں کیلئے سخت قانون نافذ

سٹی42:  پنجاب حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ’پے پولوٹرز رولز‘ کو باضابطہ طور پر ماحولیاتی قانون کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب جو کوئی بھی فضا، پانی یا زمین کو آلودہ کرے گا، اُسے بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

پنجاب ملک کا پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اور عملی قانون سازی کی ہے۔ عوام کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

پنجاب حکومت کاصحت کےمنصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹرکوشراکت داربنانےکافیصلہ

پنجاب کے 10 زونز میں آلودگی کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل اسمارٹ سسٹم نافذ کر دیا گیا ہے۔ہر زون میں "خبردار" نامی خودکار الرٹ سسٹم آلودگی کی اطلاع دے گا،اطلاع ملتے ہی ای پی اے فورس فوری کارروائی کرے گی۔

ہر زون کے لیے الگ انچارج، انسپکٹرز اور مانیٹرنگ اسکواڈز فیلڈ میں کام شروع کر چکے ہیں جبکہ ڈرون کیمرے، خصوصی گاڑیاں اور فوری رسپانس ٹیکنالوجی فراہم کر دی گئی ہے۔
صنعتوں کی چمنیوں، بھٹوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کی نگرانی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مقدار اور معیار سے زائد آلودگی کی فوری شناخت، ڈیجیٹل سسٹم الرٹ کرے گا اور فورس متعلقہ شعبے میں فوری کارروائی کرے گی۔
 آلودگی کے دیگر ذرائع پر بھی کارروائی ہوگی، زہریلا صنعتی مواد پانی میں بہانے کوڑے کو آگ لگانے، پلاسٹک جلانے جیسے اقدامات پر سخت کارروائی ہوگی۔
 25 کروڑ روپے سے ای پی اے فورس کا ہیڈکوارٹر قائم، ماحولیاتی انفراسٹرکچر کی تیاری کی بھی منظوری اور گرین کریڈٹ پروگرام میں ای بائیکس، ای رکشے اور سپر سیڈرز شامل ہیں۔
پنجاب کی پہلی ڈیجیٹل کلائمیٹ موومنٹ کا آغاز کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کی نئی سوچ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ گرین اسکول پروگرام، صاف و سرسبز علاقے اور ماحولیاتی تعلیم کو عوامی مہم کا حصہ بنایا جائے گا۔

 ساف انڈر 17 چیمپئن شپ 2025 کا شیڈول جاری

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد سمیت کئی مقامات پر بارش سے موسم خوشگوار، آج مزید بارش کی توقع
  • ہماری کسی سے لڑائی نہیں، ملک آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے، محمود اچکزئی
  • ایس ای سی پی کا عوام کو میگ وینچرزکی سرمایہ کاری سکیم بارے انتباہ
  • لاہور میں نئے امریکی قونصل جنرل سٹیٹسن سینڈرز نے ذمہ داریاں سنبھال لیں
  •  پنجاب  میں آلودگی پھیلانے والوں کیلئے سخت قانون نافذ
  • وفاقی کابینہ کا منظور کردہ پاکستان کا پہلا گرین بلڈنگ کوڈ کیا ہے؟
  • پاکستان میں جرمنی کی سابقہ اولمپک چیمپئن کھلاڑی کے ریسکیو کی کوششیں جاری
  • ہماری حکومت گرانے کی ان کی اوقات ہے، نہ حیثیت(علی امین گنڈاپور)
  • ویٹ لینڈ شہر’’ سے‘‘بے ترتیب لان‘‘تک:شہروں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کہانیاں