اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاورمیں گزشتہ تین برس سے زائد عرصے سے یورپ اور امریکہ جانے کے منتظرہیں۔ امریکہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے لیے کام کرنے والوں کو امریکہ میں آباد کیا جائے گا لیکن امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس وعدے پرعمل درآمد روک دیاگیا۔

امریکی پالیسی تبدیل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان نے بھیافغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گیا۔ اب یہ افغان گرفتاری اورڈی پورٹ ہونے کے خوف سے گھروں تک محدود رہتے ہیں۔

امریکی پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی ممالک کا بھی افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا عمل انتہائیسست روی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ان افراد کومختلف ممالک میں آباد کرنے کی کوشیش کر رہا ہے۔

جنوری 2025 میں افغان مہاجرین کی امریکہ میں آبادکاری کا سلسلہ روکا گیا، تواسی ماہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا مہم کا آغاز کر دیا، جس کی وجہ سے ماضی میں افغانستان میں امریکہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے لیےکام کرنے والوں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان کسی اور ملک میں پناہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ گئے تھے تاہم اب ان کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ جانے کے منتظر ایک افغان شہری رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''2021میں امریکہ، جرمنی اور یورپی ممالک نے ان افغانوں سے وعدہ کیا کہ ہم انہیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے لیکن چارسال ہوچکے ہیں اور اب بھیہزاروں افراد کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کے منتظر ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ طویل انتظارنے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے اورکئی افراد نے اسی تناظر میں خودکشی تک کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیڑہ سال سے کئی افراد کے انٹرویوز بھی ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک وہ فیصلے کے منتظر ہیں۔ رحیمی کی قیادت میں دو سو ستر ایسے افراد اب اپنے مسئلے کے حل کی اجتماعی کوشش کر رہے ہیں۔

رحیمی نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 24 ہزار افغان موجود ہیں جو کسی تیسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افغانوں نےامریکہ، جرمنی اورکینیڈاکے لیے درخواستیں دے رکھیہیں۔

ان لوگوں کا افغانستان لوٹنا موت کودعوت دینے کے برابر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے دو دن قبل کچھ لوگوں کوجرمنی بھیجا ہے۔ '' طالبان کی آمد کے بعد چار لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان پہنچے تھے۔ ان میں غیرملکی اداروں کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے بھی شامل تھے۔

یواین ایچ سی آر ان میں زیادہ تر کے کیسز پراسسس کر رہا ہے لیکن یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔

کسی تیسرے ملک پہنچنے کے منتظر افغانوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جن کے شوہر افغانستان میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ خواتین خود کو اور اپنے بچوں کو افغانستان میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔

ایسی ہی ایک افغان خاتون ظریفہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اپنے خاندان کے چار افراد ہیں، جوجرمنی جانے کے لیے درخواست دیے ہوئے ہیں لیکن چارسال گزر جانے کے باوجود یہ عمل سست روی کا شکار ہے اور ہماری مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔

‘‘ ویزہ ختم ہونے پر مشکل کا سامنا

پاکستان میں مقیم افغان باشدوں کی ایک بڑی تعداد اس وقتہنگامی بنیادوں پرافغانستان چھوڑنا پڑا، جب طالبان نے سن دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کر لیا۔‍ ایسے میں ان میں کئی افراد بغیرکسی ضروری دستاویز یا ویزےکے پاکستان پہنچ گئے تھے لیکن کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے کا وقت آیا توانہیں ان سے مطلوبہ دستاویزات طلب کیں گئیں جو اکثر کے پاس نہیں تھیں۔

انہیں افغانستان جانے اور وہاں سے پاکستان کاویزہ لینے میں بہت بڑے خطرے کا سامنا تھا۔ طالبان کےخوف سے پاکستان آنے والوں میں زیادہ ترامریکی،جرمن اوردیگر مغربی ممالک کی افواج اور غیرسرکاری تنظیموں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افراد شامل ہیں اور انہیں افغانستان واپسی پر گرفتاری اورطالبان کے ہاتھوں تشدد کا خوف لاحق ہے۔

پاکستانی ویزہ لینے میں مشکلات

اگرچہ عموماﹰ خیبر پختونخوا میں مقیم زیادہ تر افغان باشندوں کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں لیکن کچھ عرصے سے بغیردستاویزات کے پاکستان آمد پرپابندی کی وجہ سے افغان باقاعدہ ویزہ لیکرپاکستان آتے ہیں لیکن ویزہ کے حصول کے لیے انہیں بھاری فیس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں روزمرہ اخراجات کیسے نمٹائے جاتے ہیں

امریکہ،جرمنی اوردیگرممالک میں آباد کاری کےمنتظر افغان باشندوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں جبکہ ان کے بچے تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں اسلام آباد ایک انتہائی مہنگا شہر ہے لیکن کسی اور ملک میں آبادکاری کےمنتظر افغانوں کومتعلقہ سفارتخانوں کے ساتھ رابطوں کے لیے مجبوراﹰ اسلام آباد میں رہنا پڑتا ہے۔

ان میں کئی افغان ایسے ہیں جن کے مغربی ممالک میں رہائش پذیر قریبی رشتہ دار انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے رقم ارسال کرتے ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کے حوالے سے سخت ترین پالیسیویوں پر عمل درآمد شروع کیا تھا۔ تازہ پالیسی کے تحت اسلام آباد سمیت دیگرصوبوں اورپاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم افغان باشندوں کوگرفتارکرکے افغانستان ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے وسط تک 5 لاکھ 71ہزارافغانوں کوخیبرپختونخوا کےسرحدی راستوں سے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ قانونی تقاضے کیا ہیں

جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے معروف قانون دان نعمان محب کاکا خیل بتا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''اگر انسانی حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو جو لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں، انہیں یہاں کی نیشنلٹی دی جانا چاہیے لیکن اس کے لیے انہیں افغانستان کی شہریت ختم کرنا پڑے گی۔

اگر حکومت انہیں زبردستی واپس افغانستان بیجھتی ہے تو انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے۔ وہاں روزگار نہیں ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان جنیوا ریفیوجی کنوینشن کا دستخط کنندہ ملک نہیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ موجودہ معاہدے کی معیاد 31جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔

یکم اگست کے بعد یو این ایچ سی آر اسلسلے میں باقاعدہ تعاون نہیں کر پائے گا۔ لیکن افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر ایک طرح سے بوجھ بھی ہیں اور پاکستان نے انہیں اپنے ملک جانے کے لیے ڈیڈلائن دے رکھی ہے۔‘‘

امریکہ نے پاکستان کوان امریکہ جانےوالے درخواست کنندگان کےخلاف کاروائی نہ کرنے کا کہا ہے پشاور میں امریکہ جانے کے درخواست کنندگان کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ ایسے افغانوں کی تعداد 24ہزار سے زیادہ ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کام کرنے والوں افغان مہاجرین افغانستان میں افغان باشندوں کسی تیسرے ملک امریکہ جانے منتظر افغان پاکستان نے اسلام آباد میں افغان جرمنی اور کا سامنا کے منتظر کہنا تھا کے ساتھ ہیں اور جانے کے ملک میں رہا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • ترسیلات زر پاکستان کی لائف لائن، پالیسی تسلسل یقینی بنائیں گے: وزیر خزانہ
  • پاکستان سے نفرت کا دکھاوا بھی کام نہ آیا! یوسف پٹھان کو عدالت نے زمین خالی کرنے کا حکم کیوں دیا؟
  • ایران جانے والے زائرین کو اغواء کرنے والے نیٹ ورک کا کارندہ گرفتار
  • 31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف