Express News:
2025-09-17@23:46:57 GMT

کتابیں جھانکتی ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

ایک معروف شاعر اور دانشور دوست سے ملاقات کو عرصہ ہو چلا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان کے گھر کے قریب سے گزرا تو بلا ارادہ پیشگی اطلاع کے بغیر رک گیا۔ دروازے پر گھنٹی بجائی تو ملازم کو اطلاع دی۔ ملازم پلٹا: تشریف لائیے، صاحب بلا رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد ہم حسب معمول ڈرائنگ روم کی طرف بڑھنے لگے لیکن ملازم نے بتایا: جی نہیں، صاحب بیڈ روم میں ہیں، کہہ رہے تھے آپ وہیں آ جائیں۔ بیڈروم میں داخل ہوئے تو عجیب نظارہ تھا، ہمارے دوست بیڈ پر نیم دراز کتابوں کو علیحدہ علیحدہ ڈھیروں میں تقسیم کر رہے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ایک پیشگی اجازت لیے بغیر آ دھمکے۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے: ارے نہیں، اچھا ہوا کہ آپ آگئے، میں دراصل بیڈ روم کی کتابوں کو اوپر لائبریری میں شفٹ کر رہا ہوں۔ 

ہم نے لقمہ دیتے ہوئے کہا: کمال ہے، آج آپ کو سفر کی تیاری کرنی چاہیے لیکن آپ کتابوں کی محفل سجائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا رخ اس تلخ حقیقت کی طرف مڑ گیا کہ معروف شاعر، ادیب اور پڑھے لکھے دوست عمر بھر اپنی پسند کی کتابیں جمع کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور انھیں حرزجاں بنا کر رکھتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کتابوں کے ذخیرے کے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست افتخار مجاز کے پاس کئی ایسے قصے تھے کہ انتہائی معروف مصنفین اور ادیبوں کی اگلی نسلوں میں سے بیشتر بزرگوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی سب سے پہلے ان کی کتابوں سے چھٹکارے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے نزدیک انھوں نے بارہا یہ مناظر دیکھے کہ معروف کتاب دوست کی تدفین کے بعد ان کی کتابیں ردی فروش گدھا گاڑی پر لادے رواں دواں تھا۔

ٹیکنالوجی کے ہمہ گیر تصرف سے قبل کتابیں پڑھے لکھے گھروں کی پہچان اور شان ہوتی تھیں۔ کتابیں صرف پڑھی نہیں جاتیں تھیں، برتی جاتی تھیں۔ زیرِ زبان آتی تھیں، زیرِ بحث آتی تھیں۔ گاہے گاہے دوستوں میں بانٹی جاتیں، نشان لگے صفحے، اقتباسات کے ساتھ یاد رکھے جاتے۔

اب یہ سب بیتے دنوں کی باتیں ہیں۔ آج کے گھروں میں جگہ مہنگی اور وقت ناپید ہے۔ گھر کی دیواروں کو تزئین کے لیے ’’وال پیپر‘‘ چاہئیں، کتابیں نہیں۔ آجکل بیشتر صورتوں میں بزرگ کی رخصتی کے ساتھ ہی گھر کے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں: ’’یہ ڈھیر ساری کتابیں کہاں رکھیں؟ کس کو دیں؟ کون پڑھے گا؟‘‘ اگر اولاد کسی حد تک کتابوں کے حق میں ہمدرد ہو تو کسی قریبی لائبریری کو دان کر آتے ہیں ورنہ، وہی ہوتا ہے جس کا ذکر مرحوم افتخار مجاز اکثر کرتے تھے۔

لائبریریوں کو کتابیں عطیہ کرنے والے اپنے تئیں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق بہ حق داران رسید لیکن خود لائبریریوں پر بھی یہی افتاد گزر رہی ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے بجٹ میں مسلسل کمی اور محکمانہ لاتعلقی پروان چڑھی ہے۔ کچھ یہی حال نجی اداروں کی لائبریریوں کا بھی ہے۔ اس پر مستزاد پڑھنے والے نایاب ہو رہے ہیں۔ لائبریری میں گھنٹوں بیٹھ کر پڑھنے والے اور کتابیں ایشو کروانے والے تیزی سے کم ہوئے ہیں۔ یوں لائبریریوں میں بھی کتابیں اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں الماریوں سے جھانکتی رہتی ہیں۔

ایسا نہیں کہ کتاب کلچر میں کمی سے علم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ نہیں، علم تو اب بھی موجود اور فروغ پذیر ہے تاہم علم کی ترسیل اور دستیابی کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ اب لوگ پوڈکاسٹ سنتے ہیں، یوٹیوب پر لیکچر دیکھتے ہیں، آرٹیکل شیئر کرتے ہیں۔ کتاب کی جگہ ’’پی ڈی ایف‘‘ فائل نے لے لی ہے۔ گوگل پر سرچ کرنے والا خود کو ’’محقق‘‘ سمجھنے لگا ہے۔ ’’ریڈنگ‘‘ کا رواج ’’سکرولنگ‘‘ میں بدل گیا ہے تاہم ان بدلتے رجحانات میں نئی نسل کی کوئی خطا ہے، نہ پرانی کی کوئی غلطی۔ زمانہ بدلا ہے، رفتار بڑھ گئی ہے۔ جو کچھ اسکرین پر لمحوں میں مل جائے، اس کے لیے کون ہفتوں کتاب کی ورق گردانی کرے؟ شاید کتاب کی روایتی کہانی میں موڑ آیا ہے، کہانی بدلی ہے لیکن یقیناً ختم نہیں ہوئی۔
معروف شاعر گلزار کی ایک مشہور نظم ہے… ’’کتابیں جھانکتی ہیں۔‘‘ یہ نظم معدوم ہوتے کتاب کلچر کے ملال، باہمی دوری اور انجانی یافت کھو جانے کے دکھ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے:

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
………
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا!
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ

پڑھیں:

رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ

کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں جمعیت کے رہنماؤں نے صوبائی رہنماء مولوی سرور کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے رہنماء کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام کوئٹہ کے رہنماؤں نے مولانا سرور موسیٰ خیل کی گرفتاری کی مذمت اور رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جے یو ائی کے مجلس عاملہ کا اہم اجلاس جے یو آئی کوئٹہ کے امیر مولانا حافظ حسین احمد شرودی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں جمعیت کے صوبائی نائب امیر سابق صوبائی وزیر مولانا محمد سرور موسیٰ خیل کی گرفتاری کی شدید الفاظ مذمت اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس سے جے یو آئی کے مولانا حافظ حسین احمد شرودی، حاجی عبدالصادق نورزئی، مولانا محمد ہاشم خیشکی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے مولانا سرور موسیٰ خیل اور ان کے بیٹوں کی گرفتاری کو ریاستی اداروں کی جانب سے عوامی حقوق کی آواز کو دبانے کی گھناؤنی سازش قرار دیا۔
 
رہنماؤں نے کہا کہ ایک سینئر بیوروکریٹ کی جانب سے جھوٹے مقدمے کا اندراج اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کرپشن کے خلاف ہماری بے باک جدوجہد نے استحصالی اور عوام دشمن عناصر کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ مولانا سرور موسیٰ خیل نے ہمیشہ غریب، مظلوم عوام کی ترجمانی کی ہے اور اسی پاداش میں انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رہنماؤں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جے یو آئی کسی بھی سازش، دباؤ یا جھوٹے مقدموں سے ڈرنے والی نہیں ہے۔ ہماری عوامی حقوق کی تحریک جاری رہے گی۔ ہم اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا اور ان کے بیٹوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ہم ہر محاذ پر اپنے قائدین اور عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • 60 کروڑ کے فراڈ کیس میں نیہا دھوپیا اور بپاشا باسو کے ملوث ہونے کا انکشاف 
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • ’’یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ رویش کمار نے ارنب گوسوامی کا پردہ چاک کر دیا
  • کتاب ہدایت
  • بھارت؛ فیس بک دوست نے شادی کے مطالبے پر خاتون کو بیدردی سے قتل کردیا
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ
  • 80 کی دہائی کی مقبول اداکارہ سلمی آغا اب کہاں ہیں؟
  • عمران خان کو کس مقدمے میں سزا سنائی جانے والی ہے؟ علیمہ خان نے بتا دیا
  • اداکارہ سارہ عمیر نے شادی کے نو سال بعد شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی