ایک معروف شاعر اور دانشور دوست سے ملاقات کو عرصہ ہو چلا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان کے گھر کے قریب سے گزرا تو بلا ارادہ پیشگی اطلاع کے بغیر رک گیا۔ دروازے پر گھنٹی بجائی تو ملازم کو اطلاع دی۔ ملازم پلٹا: تشریف لائیے، صاحب بلا رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد ہم حسب معمول ڈرائنگ روم کی طرف بڑھنے لگے لیکن ملازم نے بتایا: جی نہیں، صاحب بیڈ روم میں ہیں، کہہ رہے تھے آپ وہیں آ جائیں۔ بیڈروم میں داخل ہوئے تو عجیب نظارہ تھا، ہمارے دوست بیڈ پر نیم دراز کتابوں کو علیحدہ علیحدہ ڈھیروں میں تقسیم کر رہے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ایک پیشگی اجازت لیے بغیر آ دھمکے۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے: ارے نہیں، اچھا ہوا کہ آپ آگئے، میں دراصل بیڈ روم کی کتابوں کو اوپر لائبریری میں شفٹ کر رہا ہوں۔
ہم نے لقمہ دیتے ہوئے کہا: کمال ہے، آج آپ کو سفر کی تیاری کرنی چاہیے لیکن آپ کتابوں کی محفل سجائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا رخ اس تلخ حقیقت کی طرف مڑ گیا کہ معروف شاعر، ادیب اور پڑھے لکھے دوست عمر بھر اپنی پسند کی کتابیں جمع کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور انھیں حرزجاں بنا کر رکھتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کتابوں کے ذخیرے کے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست افتخار مجاز کے پاس کئی ایسے قصے تھے کہ انتہائی معروف مصنفین اور ادیبوں کی اگلی نسلوں میں سے بیشتر بزرگوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی سب سے پہلے ان کی کتابوں سے چھٹکارے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے نزدیک انھوں نے بارہا یہ مناظر دیکھے کہ معروف کتاب دوست کی تدفین کے بعد ان کی کتابیں ردی فروش گدھا گاڑی پر لادے رواں دواں تھا۔
ٹیکنالوجی کے ہمہ گیر تصرف سے قبل کتابیں پڑھے لکھے گھروں کی پہچان اور شان ہوتی تھیں۔ کتابیں صرف پڑھی نہیں جاتیں تھیں، برتی جاتی تھیں۔ زیرِ زبان آتی تھیں، زیرِ بحث آتی تھیں۔ گاہے گاہے دوستوں میں بانٹی جاتیں، نشان لگے صفحے، اقتباسات کے ساتھ یاد رکھے جاتے۔
اب یہ سب بیتے دنوں کی باتیں ہیں۔ آج کے گھروں میں جگہ مہنگی اور وقت ناپید ہے۔ گھر کی دیواروں کو تزئین کے لیے ’’وال پیپر‘‘ چاہئیں، کتابیں نہیں۔ آجکل بیشتر صورتوں میں بزرگ کی رخصتی کے ساتھ ہی گھر کے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں: ’’یہ ڈھیر ساری کتابیں کہاں رکھیں؟ کس کو دیں؟ کون پڑھے گا؟‘‘ اگر اولاد کسی حد تک کتابوں کے حق میں ہمدرد ہو تو کسی قریبی لائبریری کو دان کر آتے ہیں ورنہ، وہی ہوتا ہے جس کا ذکر مرحوم افتخار مجاز اکثر کرتے تھے۔
لائبریریوں کو کتابیں عطیہ کرنے والے اپنے تئیں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق بہ حق داران رسید لیکن خود لائبریریوں پر بھی یہی افتاد گزر رہی ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے بجٹ میں مسلسل کمی اور محکمانہ لاتعلقی پروان چڑھی ہے۔ کچھ یہی حال نجی اداروں کی لائبریریوں کا بھی ہے۔ اس پر مستزاد پڑھنے والے نایاب ہو رہے ہیں۔ لائبریری میں گھنٹوں بیٹھ کر پڑھنے والے اور کتابیں ایشو کروانے والے تیزی سے کم ہوئے ہیں۔ یوں لائبریریوں میں بھی کتابیں اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں الماریوں سے جھانکتی رہتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ کتاب کلچر میں کمی سے علم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ نہیں، علم تو اب بھی موجود اور فروغ پذیر ہے تاہم علم کی ترسیل اور دستیابی کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ اب لوگ پوڈکاسٹ سنتے ہیں، یوٹیوب پر لیکچر دیکھتے ہیں، آرٹیکل شیئر کرتے ہیں۔ کتاب کی جگہ ’’پی ڈی ایف‘‘ فائل نے لے لی ہے۔ گوگل پر سرچ کرنے والا خود کو ’’محقق‘‘ سمجھنے لگا ہے۔ ’’ریڈنگ‘‘ کا رواج ’’سکرولنگ‘‘ میں بدل گیا ہے تاہم ان بدلتے رجحانات میں نئی نسل کی کوئی خطا ہے، نہ پرانی کی کوئی غلطی۔ زمانہ بدلا ہے، رفتار بڑھ گئی ہے۔ جو کچھ اسکرین پر لمحوں میں مل جائے، اس کے لیے کون ہفتوں کتاب کی ورق گردانی کرے؟ شاید کتاب کی روایتی کہانی میں موڑ آیا ہے، کہانی بدلی ہے لیکن یقیناً ختم نہیں ہوئی۔
معروف شاعر گلزار کی ایک مشہور نظم ہے… ’’کتابیں جھانکتی ہیں۔‘‘ یہ نظم معدوم ہوتے کتاب کلچر کے ملال، باہمی دوری اور انجانی یافت کھو جانے کے دکھ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
………
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
اخبارات اور سوشل میڈیا
وسیع و عریض سر سبز و شاداب رقبے پر پھیلے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزارکے عقب میں صدرکی جانب جانیوالی کشادہ سڑک کے کنارے علی الصبح بیٹھے ہوئے ایک بزرگ مایوسی کے عالم میں اپنی بہت پرانی سائیکل کے کیریئر پرکچھ اخبارات فروخت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
کچھ ماہ قبل یہ بزرگ سبک رفتاری کے ساتھ مزار سے صدر تک جایا کرتے تھے، قوت جسمانی کی کمی نے ان کو بجائے سائیکلنگ کرنے کے فٹ پاتھ پر بیٹھنے پر مجبورکردیا اور نہ جانے شہر میں اور بھی ایسے کتنے لوگ موجود ہوں۔ ان کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عرصہ دراز سے اخبارات کی ترسیل و تقسیم کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان کی خود داری کی کیفیت یہ ہے کہ اخبارکی قیمت سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہیں مانگتے اور نہ ہی اپنی غریبی کا رونا روتے ہیں۔
یہ ہیں وہ سفید پوش لوگ جو لوگوں کی امداد کے صحیح معنوں میں مستحق ہیں۔ ان کی امداد کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے جس سے ان کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ کوئی خیرات وصول کر رہے ہیں۔ ہاں اگر کوئی اخبار کی قیمت سے زیادہ پیسے دے جائے تو وہ اسے خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ پرنٹ میڈیا اور اخباری صحافت کی شان ہیں۔ راقم کا روزانہ وہاں سے گزر ہوتا ہے تو رک کر ان سے اخبار خرید لیتا ہے۔
راقم نہ صرف اخبار اضافی قیمت پر خریدتا ہے بلکہ کچھ دیر وہیں کھڑا ہو کر اخبار کی شہ سرخیوں کا مطالعہ کرتا ہے تاکہ آنے جانے والوں کو ماضی کی یاد آسکے۔ کہتے ہیں جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ راقم نے محسوس کیا کہ کسی حد تک کچھ راہگیر رک کر ان سے اخبار بھی خریدنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔
حقیقت ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے کسی نہ کسی انداز سے اس کاغذی صنعت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر اخبارات قومی زبان اردو میں اشاعت پذیر ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کی کثیر تعداد اردو شناس ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے لوگوں میں اخبارات کا مطالعہ معدوم ہو چکا ہے یہی وجہ کہ لوگ رفتہ رفتہ اردو شناخت اور اردو نویسی سے ناواقف ہو تے جا رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی علی الصبح بستر چھوڑ دینے کی عادت تھی ۔ وضو کر کے فجر کی نماز کی ادائیگی کی اورگھر میں آئے ہوئے اخبار کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یعنی اخبار کا مطالعہ ان کے ناشتے میں شامل ہوا کرتا تھا۔
ان میں بہت سے ایسے نوجوان ہاکرز بھی شامل تھے جو اس کام کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی درجے میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہوتے تھے اور اب یہی نوجوان فوڈ انڈسٹری میں بطور آن لائن رائیڈرکام کرنے پر مجبور ہیں۔ حالات اس قدر تیزی سے بدل چکی ہیں کہ موجودہ نسل اپنی قومی زبان اردو سے نا آشنا ہو کر انگریزی نواز بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے ہمارے بزرگوں کی روش کو ترک کردیا اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اب اردو دانوں کا قحط پڑ چکا ہے۔
انسان معاشرتی حیوان ہے، وقت کے بدلنے کے ساتھ اس کے رہن سہن کی روایات میں تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ یہاں ہمارا تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ انسانی طرز عمل کی یہی روش تبدیلی کی متقاضی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی انسان کی معاشرتی ہیت میں انقلاب لائی ہے۔ جدید دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جس نے انسانوں کے روزمرہ استعمال کی آلات کو انٹرنیٹ میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے باوجود پرنٹ میڈیا،کتب خانے اورکتابوں کا مطالعہ ایسی حقیقت ہے جس کو کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں انٹرنیٹ اور موبائل نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثرکیا ہے وہاں اخباری صنعت سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہوئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس صنعت میں کام کرنے والے ورکرز بے روز گار ہو چکے ہیں۔ شہر میں اخبارات فروشی کے اسٹال اور ہاکرز ناپید ہو چکے ہیں۔
اخبارات و رسائل کے ختم ہونے کے علاوہ لوگوں میں کتب بینی کے فقدان کا گراف بھی زوال پذیری کی طرف گامزن ہوا ہے جب کہ کتاب انسان کی بہترین دوست اور تنہائی کی ساتھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کیسا ہی غمگین ہو، کیسا ہی افسردہ ہو، اگر وہ کتاب ہاتھ میں اٹھا لے اور اس کا بغور مطالعہ کرنے لگے تو یقین جانیے تو اس کا سارا غم ، افسردگی اور پریشانی دور ہو جاتی ہے۔ ادھر جان ملٹن بھی کتاب کے مطالعے کے بارے میں دقیق دلیل دے گیا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ اچھی کتاب انسان کے لیے زندگی کا بہترین سرمایہ ہے ۔‘‘ اسی لیے کسی شاعر نے بھی خوب کہا ہے ۔
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
اس لیے کوئی اچھی اور دلچسپ اور معلوماتی کتاب آپ کی دیدنی کی نظر ہو اس کی قیمت دیکھے بغیر اسے خرید لیں۔ اسی لیے رسکن بھی کہہ گیا کہ ’’ اگرکوئی کتا ب پڑھنے کے لائق ہے تو وہ خریدنے کے بھی لائق ہے۔‘‘ بقول البیرونی ’’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیارکا کا م دیتی ہیں۔‘‘ اچھے مطالعے کے لیے کتب خانوں جس کو ہم فرنگیانہ زبان میں ’’ لائبریری‘‘ کہتے ہیں، جب بھی موقع ملے ضرور رخ کرنا چاہیے کیونکہ کتب خانے ہمارے معاشرے میں ایک نعمت ہیں اور ان کی تعلیمی اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہوتی ہے مگر نہایت افسردگی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثرکتب خانوں میں ویرانی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے.
مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اشتہارات میں کمی کی وجہ سے بھی کچھ اخبارات کی اشاعت بند ہو چکی ہے اور جو ہیں ان میں صفحات کی تعداد اور سائز میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ اشتہارات کے حصول میں کمی کی دوسری وجہ ملک میں نئی پیداواری صنعتی یونٹس کے قیام کا فقدان ہے۔ بہرحال دستاویزی اہمیت اپنی جگہ مسلم ضرور ہے۔ ملک کے اردو بازاروں میں وہ رش دیکھنے کو نہیں ملتا جو کسی زمانہ میں ملا کرتا تھا۔ پرنٹنگ کی اس دنیا سے وابستہ پبلشرز نے اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب اس خلا کو پرکرنے کچھ کتاب شناس لوگ کتب میلوں کا انعقاد کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ لوگوں میں کتاب خریدنے کا شوق دوبارہ بحال ہو سکے۔ ہمارے لوگوں کی نفسیات ہے کہ کتابوں ، رسائل و جرائد اور اخبارات خریدنے سے گریزکریں گے اور کھانے پینے پر پیسہ بے دریغ خرچ کریں گے۔ اسی لیے ملک میں سب سے زیادہ منافع بخش فوڈ انڈسٹری کا رواج ہو چکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم صرف کھانے کے لیے زندہ ہے۔
انٹرنیٹ کی ایجاد نے انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو یکسر بد ل کر رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر اینڈرائیڈ موبائل نے پوری کردی جس سے ہر شخص کے ہاتھ میں پوری دنیا آگئی ہے۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں اینڈرائیڈ موبائل کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ہر چیز آن لائن ہو چکی ہے۔ فیس بک، واٹس اپ اور گوگل کی ایجاد حیرت انگیز ہے۔ ادھر سوشل میڈیا نے دنیاکو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی گوشت خور قوم میں کھانے پینے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے ۔ نت نئے انگلش، چائنئز، فاسٹ فوڈ ، بار بی کیو، بار بی کیو نائٹ اور پیزا وغیرہ کا کاروبار مختلف رعایتی ڈیل کے ساتھ اپنے عروج پر ہے۔
اسی کاروباری اور بازاری بسیار خوری کا رجحان کے اضافے سے خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں علمی مواد پر مبنی اردو بازار فوڈ اسٹریٹ میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ ہمارے لوگوں کی بسیار خوری کا واضح مثال اسلام آباد میں ریستورانوں پرگدھے کے گوشت لوگوں کو کھلا ئے جا رہے ہیں۔ بقول سابقہ چیئرمین ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو سید شبر زیدی کے ہر انسان کو بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد کم از کم تین گھنٹے تفریح کے لیے چاہیے۔ پاکستان میں تفریح صرف یہ ہے کہ ہوٹل یا کسی بار بی کیو جائیں اور بہت سارا گوشت یا چکن کھا کر گھر آ جائیں۔
انھوں نے خاتون میزبان سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ کھانے کے علاوہ کوئی تفریح ہے۔ اس شہر کراچی میں لوگوں کے لیے کیا تفریح ہے، کوئی ڈرامہ ، سنیما ، کوئی ریکریشن پارک، کوئی آرٹ، کوئی نمائش ہوتی ہے۔ اس شہر میں سوائے کھانے کے۔ اسپورٹس اور اسپورٹس اسٹیڈیم آپ نے ختم کر دیے۔ آپ نے ہر وہ چیز ختم کردی جس میں تھوڑی بہت انسان کو صحت افزا تفریح میسر آ جایا کرتی تھی۔
ہمیں یاد ہے کہ ضرورت مند علم کے متلاشی طلبا علی الصبح گھروں میں اخبارات و رسائل ڈال کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر لیے کرتے تھے، مگر اب شاید ان طلبہ کا واحد سہارا بطور فوڈ رائیڈرکی ملازمت ہو جس میں تھوڑا بہت کمیشن ملنے کا آسرا بھی ہو۔ ہم اس دورکے لو گ ہیں جب نہ 4G نہ 3G ہوتے تھے، استاد Gاور ابا G ہوتے تھے ایک ہی تھپڑمیں نیٹ ورک آ جایا کرتا تھا۔