Express News:
2025-11-03@03:23:56 GMT

کتابیں جھانکتی ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

ایک معروف شاعر اور دانشور دوست سے ملاقات کو عرصہ ہو چلا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان کے گھر کے قریب سے گزرا تو بلا ارادہ پیشگی اطلاع کے بغیر رک گیا۔ دروازے پر گھنٹی بجائی تو ملازم کو اطلاع دی۔ ملازم پلٹا: تشریف لائیے، صاحب بلا رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد ہم حسب معمول ڈرائنگ روم کی طرف بڑھنے لگے لیکن ملازم نے بتایا: جی نہیں، صاحب بیڈ روم میں ہیں، کہہ رہے تھے آپ وہیں آ جائیں۔ بیڈروم میں داخل ہوئے تو عجیب نظارہ تھا، ہمارے دوست بیڈ پر نیم دراز کتابوں کو علیحدہ علیحدہ ڈھیروں میں تقسیم کر رہے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ایک پیشگی اجازت لیے بغیر آ دھمکے۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے: ارے نہیں، اچھا ہوا کہ آپ آگئے، میں دراصل بیڈ روم کی کتابوں کو اوپر لائبریری میں شفٹ کر رہا ہوں۔ 

ہم نے لقمہ دیتے ہوئے کہا: کمال ہے، آج آپ کو سفر کی تیاری کرنی چاہیے لیکن آپ کتابوں کی محفل سجائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا رخ اس تلخ حقیقت کی طرف مڑ گیا کہ معروف شاعر، ادیب اور پڑھے لکھے دوست عمر بھر اپنی پسند کی کتابیں جمع کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور انھیں حرزجاں بنا کر رکھتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کتابوں کے ذخیرے کے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست افتخار مجاز کے پاس کئی ایسے قصے تھے کہ انتہائی معروف مصنفین اور ادیبوں کی اگلی نسلوں میں سے بیشتر بزرگوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی سب سے پہلے ان کی کتابوں سے چھٹکارے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے نزدیک انھوں نے بارہا یہ مناظر دیکھے کہ معروف کتاب دوست کی تدفین کے بعد ان کی کتابیں ردی فروش گدھا گاڑی پر لادے رواں دواں تھا۔

ٹیکنالوجی کے ہمہ گیر تصرف سے قبل کتابیں پڑھے لکھے گھروں کی پہچان اور شان ہوتی تھیں۔ کتابیں صرف پڑھی نہیں جاتیں تھیں، برتی جاتی تھیں۔ زیرِ زبان آتی تھیں، زیرِ بحث آتی تھیں۔ گاہے گاہے دوستوں میں بانٹی جاتیں، نشان لگے صفحے، اقتباسات کے ساتھ یاد رکھے جاتے۔

اب یہ سب بیتے دنوں کی باتیں ہیں۔ آج کے گھروں میں جگہ مہنگی اور وقت ناپید ہے۔ گھر کی دیواروں کو تزئین کے لیے ’’وال پیپر‘‘ چاہئیں، کتابیں نہیں۔ آجکل بیشتر صورتوں میں بزرگ کی رخصتی کے ساتھ ہی گھر کے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں: ’’یہ ڈھیر ساری کتابیں کہاں رکھیں؟ کس کو دیں؟ کون پڑھے گا؟‘‘ اگر اولاد کسی حد تک کتابوں کے حق میں ہمدرد ہو تو کسی قریبی لائبریری کو دان کر آتے ہیں ورنہ، وہی ہوتا ہے جس کا ذکر مرحوم افتخار مجاز اکثر کرتے تھے۔

لائبریریوں کو کتابیں عطیہ کرنے والے اپنے تئیں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق بہ حق داران رسید لیکن خود لائبریریوں پر بھی یہی افتاد گزر رہی ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے بجٹ میں مسلسل کمی اور محکمانہ لاتعلقی پروان چڑھی ہے۔ کچھ یہی حال نجی اداروں کی لائبریریوں کا بھی ہے۔ اس پر مستزاد پڑھنے والے نایاب ہو رہے ہیں۔ لائبریری میں گھنٹوں بیٹھ کر پڑھنے والے اور کتابیں ایشو کروانے والے تیزی سے کم ہوئے ہیں۔ یوں لائبریریوں میں بھی کتابیں اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں الماریوں سے جھانکتی رہتی ہیں۔

ایسا نہیں کہ کتاب کلچر میں کمی سے علم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ نہیں، علم تو اب بھی موجود اور فروغ پذیر ہے تاہم علم کی ترسیل اور دستیابی کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ اب لوگ پوڈکاسٹ سنتے ہیں، یوٹیوب پر لیکچر دیکھتے ہیں، آرٹیکل شیئر کرتے ہیں۔ کتاب کی جگہ ’’پی ڈی ایف‘‘ فائل نے لے لی ہے۔ گوگل پر سرچ کرنے والا خود کو ’’محقق‘‘ سمجھنے لگا ہے۔ ’’ریڈنگ‘‘ کا رواج ’’سکرولنگ‘‘ میں بدل گیا ہے تاہم ان بدلتے رجحانات میں نئی نسل کی کوئی خطا ہے، نہ پرانی کی کوئی غلطی۔ زمانہ بدلا ہے، رفتار بڑھ گئی ہے۔ جو کچھ اسکرین پر لمحوں میں مل جائے، اس کے لیے کون ہفتوں کتاب کی ورق گردانی کرے؟ شاید کتاب کی روایتی کہانی میں موڑ آیا ہے، کہانی بدلی ہے لیکن یقیناً ختم نہیں ہوئی۔
معروف شاعر گلزار کی ایک مشہور نظم ہے… ’’کتابیں جھانکتی ہیں۔‘‘ یہ نظم معدوم ہوتے کتاب کلچر کے ملال، باہمی دوری اور انجانی یافت کھو جانے کے دکھ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے:

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
………
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا!
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ

پڑھیں:

آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی

پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔

حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔

انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔

عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بُک شیلف
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • ڈہرکی،پولیس کی کامیاب کارروائی، شراب کا اسٹاک برآمد
  • ایف آئی اے نے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ واپس لے لیا
  • متھیرا نے راکھی کو ’منحوس عورت‘ کیوں کہا؟ ویڈیو وائرل