پاک بھارت جنگ میں کامیابی اور بہترین سفارتکاری سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر!!
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
پاکستان نے بدلتی ہوئی عالمی سیاسی تبدیلیوں میں اپنی سفارتکاری سے خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ عسکری، اقتصادی اور پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ بلکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
’’ بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارتکاری اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور کارجہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ریئر ایڈمرل (ر)سید فیصل علی شاہ
( دفاعی تجزیہ نگار)
پاکستان کہ لیے یہ اہم اور موزوں وقت ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے اور ملکی کی عالمی ساکھ کو مزید بہتر کیا جائے۔ روس، یوکرین جنگ ، غزہ تنازعہ، ایران، اسرائیل جنگ اور اب پاک بھارت جنگ، ان سب میں ایک چیز واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ طاقت کے بلبوتے پر من مانی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔
اسی سوچ کے ساتھ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسے منہ توڑ جواب ملا جس سے اس کا طاقت کا نشہ ہرن ہوگیا اور پاکستان عالمی افق پر ایک بار بھر طاقتور ملک کے طور پر سامنے آیا۔ اس کامیابی کے بعد اب دنیا نہ صرف ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے بلکہ تجارت بھی چاہتی ہے۔ مختلف ممالک اب ملٹری ڈپلومیسی میں بھی ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور ہماری اہم شخصیات سے مل رہے ہیں۔ بدلتی دنیا میں مجموعی طور پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہوئی ہے اور یہ سفارتکاری اور سفارتکاروں کیلئے نادر موقع ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں دنیا سے وہ سب حاصل کرنا چاہیے جس سے پاکستان اور پاکستانی عوام، دونوں کو فائدہ پہنچے۔
جمیل احمد خان
(سینئر سفارتکار)
دور حاضر کے سیاسی منظر نامے ہر روز نئے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ہی خارجہ پالیسی کو استوار کیا جاتا ہے، اس میں تبدیلی لائی جاتی ہے یا نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ن ے گزشتہ دنوں انتہائی موثر، کامیاب اور متحرک سفارتکاری کی ہے جس میں سول ملٹری قیادت کی سفارتکاری کا کردار قابل تعریف ہے۔ یہ اسی سفارتکاری کا ثمر ہے کہ ہمارے امریکا کے ساتھ دوبارہ سے تعلقات استوار ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی چین بھی ہماری سفارتی کاوشوں سے مطمئن نظر آتا ہے ۔
اس وقت ہماری عالمی ساکھ کی وجہ سے سفارتکاری کے لیے سازگار ماحول ہے لہٰذا اس سے دیرپا کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سول ملٹری سفارتکاری اور رابطوں میں ٹریڈ ڈپلومیسی کو بھی شامل کیا جائے۔ ہر سفارتخانے اور سفیر کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ اپنے میزبان ممالک میں ارباب اختیار، بزنس کمیونٹی و دیگر اہم حلقوں اور عوام کو انگیج کریں۔ وہاں خصوصی سمینارز اور سمپوزیمز کا انعقاد کیا جائے جن میں پاکستان کا موقف ان تک پہنچایا جائے، اس سے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر ہوگی اور اگر آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا کسی بھی کونسل میں پاکستان متعلق کوئی قرار دادآتی ہے تو اس میں زیادہ حمایت مل سکے گی۔
ڈاکٹر سلمی ملک
(ایسوسی ایٹ پروفیسر،ڈیفنس اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)
بدلتی دنیا میں جب ہم پاکستان کی سفارتکاری کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی مختلف جہتیں ہیں۔ ایک پہلے سے باضابطہ ٹریک ون ڈپلومیسی ہے جو ابھی تک موثر ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پھر پبلک ڈپلومیسی سمیت مختلف ٹریکس ہیں،فوڈ سکیورٹی و دیگر چیزیں اس کا حصہ بنتی ہیں اور کسی بھی ملک کی سافٹ پاور کو پروجیکٹ کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھاکہ چین نے دنیا میں اپنا سافٹ امیج بنایا اور ایک طاقت کے طور پر ابھرا لیکن اب چین ایک فوجی طاقت کے طور پر بھی سامنے آیا ہے حالانکہ یہ طاقت اس کے پاس پہلے سے موجود ہے۔
پاک بھارت جنگ 2025ء کے بعد چین کا ملٹری امیج کھل کر سامنے آیا ہے کہ اس کے پاس جدید انفراسٹرکچر موجود ہے۔ پاکستان نے اس جنگ میں جو کمال مہارت دکھائی اور چینی ٹیکنالوجی کا جو بہترین استعمال کیا ہے، اس سے دنیا میں چین کی دھوم مچ گئی ہے۔ میرے نزدیک سافٹ پاور پروجیکشن، سفارتکاری کی ایک مضبوط جہت ہے، اس کے بغیر دنیا میں لوہا نہیں منوایا جاسکتا لہٰذا بدلتی دنیا میں پاکستان کو ہارڈ اینڈ سافٹ پاور پر مبنی ایک بہترین امتزاج کی ضرورت ہے جو سٹیٹک نہیں بلکہ ڈائنامک ہو۔ موقع کی مناسبت سے سفارتکاری میں اتاڑ چڑھاؤ آتے رہیں گے لیکن اہم یہ ہے کہ دور سمارٹ پاور کا ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
اس کے لیے ملک کے اندرونی حالات اور بہترین معاشی پروفائل ناگزیر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے اداروں کی مضبوطی بھی انتہائی اہم ہے۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پاکستان نے یہ سیکھا ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل ورلڈ مین ڈیجیٹل ڈپلومیسی کو استعمال کرنا ہے اور اپنا موقف دنیا تک پہنچانا ہے۔ یہ سبق ہم نے اپنے مخالف ملک سے سیکھا ہے جس نے ہمیشہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہم درست انفارمیشن کے ذریعے اپنا اور کشمیریوں کا موقف دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں اس وقت ایک جارحانہ پالیسی کی ضرورت ہے لہٰذااس پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں مستقبل کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کے رہنما اصول تیار کرنا ہوں گے۔ ہمیں اس وقت ڈپلومیٹک فرنٹ پر جہاں فوجی برتری حاصل ہوئی ہے ہواں ہمیں اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی، داخلی معاملات اور اندرونی اتحاد سمیت میڈیا کی طاقت کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ تمام چیزیں ایک دوسرے کو سپورٹ کریں لہٰذا ہمیں ایک بہترین امتزاج بنانا ہے اور سمارٹ ڈپلومیسی کے ذریعے سمارٹ پاور کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔
ڈاکٹر خرم عباس
(ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد)
بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارت کاری اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل کیسے رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت ٹرینڈز تبدیل ہورہے ہیں جن میں سب سے بڑا ٹرینڈ سپر پاور کا نظریہ اور unipolartity ہے۔ امریکا کی طاقت آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے اور نئے پاور ہاؤسز ابھر رہے ہیں جن میں روس اہم ہے۔ چین نے بھی خود کو دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر منوایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزید طاقتیں ہیں جو علاقائی سطح پر ہیں، ان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے اب گلوبل آرڈر تبدیل ہو رہا ہے جس میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کا چیمپئن کون ہے تاہم نئے گلوبل آرڈر کے تناظر میں عالمی سطح پر امریکا اور چین کا شدید مقابلہ ہوگا۔ گلوبل آرڈر کی تبدیلی میں بڑے چیلنجز بھی سامنے آتے ہیں۔ جب کسی طاقت کی رٹ کم ہوتی ہے، نئی طاقتیں ابھر رہی ہوتی ہیں تو پھر دنیا میں تنازعات جنم لیتے ہیں۔
اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال ہے، ممالک کی پالیسی جارحانہ ہو گئی ہے اور ہر طرف تنازعات نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے غزہ، فلسطین، شام، لبنان اور ایران پر حملے کیے۔ اسی طرح بھارت نے میانمار میں ڈرون سٹرائک کی اور پھر پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ روس اور یوکرین کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسی صورتحال میں ممالک کیلئے سفارتکاری بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا معاشی ماحول بھی بدل گیا ہے، اب عالمی اداروں کے قوانین اور ضوابط بھی چیلنج کیے جا رہے ہیں، اب ممالک اپنے قوانین دنیا پر عائد کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں جس کی واضح مثال امریکا ہے۔ ان چیلنجز میں سب سے ضروری اپنے ملکی مفادات کا تحفظ ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی، معاشی، سکیورٹی اور سٹرٹیجک معاملات کو بائی لیٹریل اور ملٹی لیٹرل فورمز، سب پر لے کر چلنا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان کیلئے امریکا اور چین کا ٹکراؤ بڑا چیلنج ہوگا جس کے براہ راست اثرات ہم پر پڑیں گے۔ تاریخی اعتبار سے سکیورٹی اور معاشی حوالے سے پاکستان کا انحصار امریکہ پر رہا ہے لیکن گزشتہ تین، چار دہائیوں میں اس میںشفٹ آیا ہے جس کے بعد ہمارا انحصار اب چین پر بھی ہے۔ پاک چین تعلقات معاشی بھی ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی۔ پاکستان کیلئے امریکا اور چین دونوں ممالک اہم ہیں لہٰذا پاکستان یہ کوشش کر رہا ہے کہ دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرے۔ پاکستان کو سفارتی حوالے سے ایک اور بڑے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کے امریکا، چین، روس، عرب و دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس کے باوجود پاکستان کیلئے ان ممالک کے ساتھ اسرائیل اور بھارت کے تناظر میں سفارتی تعلقات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا دوٹوک اور واضح موقف ہے۔
پاکستان فلسطین کا حمایتی ہے لہٰذا جب مشرق وسطیٰ میں جب کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا نہ صرف معاشی بوجھ پڑتا ہے بلکہ ہمیں سفارتی محاذ پر بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عالمی سطح سے بھی پریشر آتا ہے۔ ان تمام چیلنجز میں ہمیں پاکستان کی سفارتکاری کو بہترین آنداز میں آگے لے کر جانا ہے۔ بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارتکاری اور اس کے اثرات کا موضوع عالمی سیاست میں تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات، طاقت کے مراکز کی ازسرنو ترتیب اور ابھرتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کی سفارتکاری کو نئی حکمت عملی، وژن اور فعالیت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا پڑا ہے۔ جہاں سرد جنگ کے بعد یک قطبی دنیا کا تصور غالب رہا، وہیں آج دنیا ایک بار پھر کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں چین، روس، یورپی یونین اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اپنا کردار بڑھا رہی ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بڑا ستون علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ توازن قائم رکھنا رہا ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات، جو کبھی اسٹرٹیجک الائنس کی سطح پر تھے، اب ایک زیادہ پریگمیٹک اور محدود تعاون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس چین کے ساتھ تعلقات ’’آل ویدر فرینڈ شپ‘‘ سے بڑھ کر اکنامک، ٹیکنالوجیکل، اور اسٹرٹیجک تعاون میں گہرائی اختیار کر چکے ہیں، جس کی بڑی مثال چین،پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔
پاکستان نے مسلم دنیا میں اتحاد و ہم آہنگی کے لیے بھی کوششیں کیں، چاہے وہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا ہو یا افغانستان کے استحکام کے لیے سفارتی کوششیں ۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں پاکستان کی سفارتکاری کی کامیابیوں میں شامل ہیں۔ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو جارحانہ انداز میں اٹھایا جس سے اقوام متحدہ، یورپی پارلیمنٹ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں اس معاملے پر بحث ہوئی تاہم، بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی بدستور قائم ہے، جس سے علاقائی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔
سلمان جاوید
(ڈائریکٹر، ساؤتھ ایشاء ٹائمز)
بھارت نے گزشتہ 25 برسوں میں یہ کوشش کی کہ بھارت کو ایک الگ حیثیت میں بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جائے، پاک بھارت تناظر میں نہیں لیکن حالیہ جنگ کے بعد اس کی تمام کوششیں بیکار گئی ہیں اورآپریشن معرکہ حق کے بعد پاکستان کی عالمی ساکھ سب کے سامنے ہے۔ چین اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ بہتر ہوگئے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ایک بڑے مدمقابل کے طور پر سامنے آیا ہے خاص طور پر دفاعی لحاظ سے ہم نے بھارت کو شکست دی ہے جو ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ خود بھارت کے اپنے لوگ، چینی، روسی اور یورپی مبصرین بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان عالم اسلام میں ایک مرتبہ پھر طاقتور مسلم ملک کے طور پر ابھرا ہے۔
اس کے بعد سے غزہ کے مسلمانوں جو بدترین مظالم کا شکار ہیں اور مایوس ہوچکے تھے، ان میں امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی صورت میں ایک ایسا ملک موجود ہے جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کو زبردست جواب دینے اور اس کے مزموم عزائم خاک میں ملانے کے بعد ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے اوریہاں سرمایہ کاری بھی آنا شروع ہوگئی ہے۔دنیا میں ہمارا سفارتی امیج بہتر ہوا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ، وزراء اور دیگر اہم شخصیات بیرون ممالک کے دورے کر رہی ہیں۔
یہ ایک سرپرائزنگ فیکٹر ہے کہ اہم شخصیات اور سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں جس کا بہت فائدہ ہوا ہے، سابق ادوار میں اس طرح کی سفارتکاتی نہیں ہوسکی، اب اسے مزید فروغ دینا چاہیے۔ ہمارا پبلک ڈپلومیسی کا شعبہ ابھی کمزور ہے۔ پاکستان کو ٹریک ٹو اور تھری کے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں عالمی سطح پر عوامی رائے سازی پر کام کرنا ہے اور جو پاکستانی دنیا میں رہتے ہیں، ان کے ذریعے سفارتکاری کرنا ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت کے خلاف جنگ میں ہمارے میڈیا نے بہترین کردار ادا کیا، بلاول بھٹو زرداری
فائل فوٹو۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کے خلاف جنگ میں ہمارے میڈیا نے بہترین کردار ادا کیا، شہید بےنظیر بھٹو صحافیوں کی تحریک میں ساتھ کھڑی رہیں، آج بھی آزادی صحافت کے حوالے سے چیلینجز ہیں۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ایف یو جے نے آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کی، ڈس اور مس انفارمیشن ایک ہتھیار بن چکا ہے، وزیراعلیٰ سے اتفاق کرتا ہوں کہ پی ایف یو جے ایک تحریک ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایم آر ڈی میں صحافی جمہوریت پسند کارکنوں کے ساتھ کھڑے رہے، اخبارات پر پابندیوں کیخلاف صحافیوں کی قربانیاں بھی قابل قدر ہیں، اے آر ڈی کے دوران بھی صحافی پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔
انھوں نے کہا شہید محترمہ بینظیر بھٹو صحافیوں کے پاس جا کر اظہار یکجہتی کرتی رہیں، جس طرح پاک فضائیہ نے بھارت کو ہرایا، اسی طرح پاکستانی صحافت نے بھی بھارتی میڈیا کو شکست دی۔
بلاول بھٹو نے کہا پاکستانی صحافیوں نے اپنی ساکھ، سچ اور تصدیق پر مبنی خبروں کو ترجیح دی، ڈیجیٹل میڈیا پر پابندیاں ہٹانا بھی مثبت ثابت ہوا، جنگ کے دوران ہمیں اندازہ ہوا ڈیجیٹل میڈیا ہمارا اثاثہ ہے، امید ہے وفاقی حکومت صحافی برادری کی قدر کرے گی اور اپنی کچھ پالیسیوں پر نظرثانی کرے گی۔
انھوں نے کہا صحافیوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قانون کے نفاذ کی پوری کوشش کریں گے، صحافی بھی ہماری مدد کریں، دہشتگرد اور ہمارا دشمن مل کر ڈس انفارمیشن پھیلا رہے ہیں، بلوچستان، سندھ اور کشمیر کے حوالے سے ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے، پی ایف یو جے کی مدد سے اس ڈس انفارمیشن کیخلاف قانون سازی کی کوشش کریں گے۔