ٹرمپ کے مشیر کا بھارت پر روسی تیل خرید کر یوکرین جنگ میں معاونت فراہم کرنے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بااثر مشیر اور وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق اسٹیفن ملر نے اتوار کو فاکس نیوز کے پروگرام "سنڈے مارننگ فیوچرز" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ بھارت روسی تیل خرید کر اس جنگ کو جاری رکھنے میں مدد دے رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "لوگ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ روسی تیل کی خریداری میں بھارت عملی طور پر چین کے برابر ہے، جو کہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔"
ماہرین کے مطابق اسٹیفن ملر کی یہ تنقید ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت جیسے اہم اتحادی پر اب تک کی سب سے سخت تنقید سمجھی جا رہی ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے نے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ تاہم، بھارتی حکومتی ذرائع نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ نئی دہلی امریکی دباؤ کے باوجود روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر روس سے توانائی اور عسکری سازوسامان خریدنے کی بنا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے مزید انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ نہ کیا تو روسی تیل خریدنے والے ممالک سے امریکی درآمدات پر 100 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کار اس پیشرفت کو امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ممکنہ کشیدگی کی علامت قرار دے رہے ہیں، جو خطے میں جغرافیائی توازن پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روسی تیل
پڑھیں:
زیلنسکی نے روس میں حکومت تبدیل اور اثاثے ضبط کرنے اپیل کردی
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس میں حکومت (ریجیم) کی تبدیلی ضروری ہے تاکہ یوکرین اور اس کے ہمسایہ ممالک کو مبینہ روسی جارحیت سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے 10 سے 12 دن کی مہلت دی
انہوں نے فن لینڈ میں ہیلسنکی+50 کانفرنس میں ورچوئل خطاب کے دوران کہا کہ دنیا روس کو جنگ روکنے پر مجبور کر سکتی ہے، لیکن اگر روس میں حکومت نہ بدلی گئی تو وہ جنگ کے بعد بھی ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرتا رہے گا۔
زیلنسکی نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ روسی اثاثے صرف منجمد کرنے کے بجائے مکمل طور پر ضبط کیے جائیں اور ان اثاثوں کو یوکرین کے دفاع کے لیے استعمال کیا جائے۔
روس کا ردعملروسی حکومت نے زیلنسکی کے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ یورپی یونین روس مخالف جذبات اور عسکری جنون میں مبتلا ہو چکی ہے، اور مغرب کی پالیسیاں ہی یوکرین جنگ کا سبب بنیں۔
روس کے مطابق وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے اور حالیہ مہینوں میں یوکرین کے ساتھ کئی دور کی بات چیت بھی ہو چکی ہے۔
تاہم ماسکو کا مؤقف ہے کہ یوکرین اور اس کے حمایتی ممالک جنگ کے اصل اسباب اور زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔
زیلنسکی کی آئینی حیثیت پر سوالروس نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ زیلنسکی کا صدارتی عہدہ قانونی طور پر ختم ہو چکا ہے کیونکہ ان کی پانچ سالہ مدت مئی 2024 میں مکمل ہو گئی تھی۔
تاہم زیلنسکی نے مارشل لا کے نفاذ کا حوالہ دیتے ہوئے نئے انتخابات نہیں کرائے۔
روسی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مستقبل میں زیلنسکی کے دستخط شدہ معاہدے قانونی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں، کیونکہ اصل اختیار اب یوکرینی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکراتی کوششیں جاری ہیں، لیکن دونوں طرف سے اعتماد کا فقدان برقرار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں