اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: نیب ملک ریاض کی جائیدادیں 7 اگست کو نیلام کرے گا
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کی جائیدادوں کی نیلامی کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے نیب کو 7 اگست کو مقررہ نیلامی کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کیس میں پبلک فنڈز کی واپسی کے لیے کی جانے والی نیب کی کارروائی قانونی اور درست ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے 4 اگست کو کیس کی سماعت کی، جہاں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے، جبکہ نیب کی نمائندگی اسپیشل پراسیکیوٹر محمد رافع مقصود نے کی۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا، جو بعد ازاں سناتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی چاروں درخواستیں خارج کر دیں۔
مزید پڑھیں: ملک ریاض کو عدالتوں میں سنگین مقدمات کا سامنا، اشتہاری قرار، ریڈ وارنٹ جاری
نیب راولپنڈی نے 7 اگست 2025 کو اپنے دفتر، جی-6/1، اسلام آباد میں بحریہ ٹاؤن کی درج ذیل قیمتی جائیدادوں کی نیلامی کا اعلان کر رکھا ہے:
بحریہ ٹاؤن کارپوریٹ آفس II، پلاٹ نمبر 7-D، پارک روڈ، فیزII، راولپنڈی
دوسرا کارپوریٹ آفس، پلاٹ نمبر 7-E، پارک روڈ، فیزII، راولپنڈی
روبیش مارکی اینڈ لان، بحریہ گارڈن سٹی، اسلام آباد (نزد گالف کورس)
ایرینا سینما، پلاٹ نمبر 984-براڈ-اے، بحریہ ٹاؤن، فیزIV، راولپنڈی
بحریہ ٹاؤن انٹرنیشنل اکیڈمی (اسکول بلڈنگ)، جیسمین اسٹریٹ، سلور اوکس روڈ، صفر ولازI، راولپنڈی
سفاری کلب، پلاٹ نمبر 27، فیز سفاری ولاز، بحریہ ٹاؤن، راولپنڈی
نیب کا مؤقف ہے کہ یہ جائیدادیں قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی ریکوری کے لیے نیلام کی جا رہی ہیں۔ نیلامی میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو نیب سے پیشگی رجسٹریشن کی ہدایت کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ ملک ریاض نیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ ملک ریاض بحریہ ٹاؤن اسلام آباد پلاٹ نمبر ملک ریاض
پڑھیں:
راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) راولپنڈی میں حالیہ برساتی تباہی اور سیلابی صورتحال کے جائزے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گو کہ راولپنڈی کے مقامی سقم تو اپنی جگہ وفاقی دارلحکومت میں سیورج کا تباہ حال نظام بھی راولپنڈی کی تباہی میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔
شہری انتظام کے ماہرین کے مطابق، حالیہ بارشوں کے دوران راولپنڈی کے نالہ لئی کا پانی 18 فٹ کی سطح تک پہنچ گیا جس سے قریبی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی جانب سے راولپنڈی میں شہری سیلاب میں بڑا حصہ نہ ڈالا جاتا تو نالہ لئی کی سطح شاید 10 فٹ تک بھی نہ پہنچتی۔(جاری ہے)
ڈاکٹر سندھو، جو سی ڈی اے میں ڈائریکٹر جنرل سول انتظامیہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی کی انتظامیہ نالہ لئی کے پانی کے گزرنے کا راستہ محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ نالہ لئی کے کئی مقامات پر پانی کے اخراج کے راستے غیر قانونی تعمیرات اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کی وجہ سے تنگ ہو گئے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد بھی راولپنڈی میں شہری سیلاب کی صورتحال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ اسلام آباد سے بغیر صاف کیے گئے سیوریج کا پانی نالہ لئی میں چھوڑا جاتا ہے، جو جڑواں شہروں سے پانی کے نکاسی کا واحد ذریعہ ہے۔ اسلام آباد شہر کے نکاسی آب کا کیا بندوبست ہے؟یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد میں پانچ بڑے قدرتی نالے موجود ہیں جن کے نام سیدپور، بیداں، تانواں، نکی لئی اور کنات نالہ ہیں اور یہ تمام نالے آخرکار نالہ لئی سے آ کر ملتے ہیں جو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔
اسلام آباد کے تمام قدرتی نالے کبھی صرف بارش کے پانی اور آس پاس کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی کے نکاس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلام آباد نے آئی نائن کے علاقے میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا تھا، جو راولپنڈی اور نالہ لئی کے قریب واقع ہے۔ اسلام آباد شہر کا تمام گندا پانی اس پلانٹ تک پہنچایا جاتا تھا اور صفائی کے بعد اس صاف شدہ پانی کو نالہ لئی میں چھوڑا جاتا تھا۔سرور سندھو کا کہنا ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تاحال فعال ہے، تاہم وقت کے ساتھ انتظامیہ نے جہاں کہیں سیوریج لائن میں رکاوٹ آئی، وہاں لائن کو توڑ کر گندا پانی براہ راست اسلام آباد کے قدرتی نالوں میں ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں یہ نالے آلودہ ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد کا تقریباً چالیس فیصد سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کےبراہِ راست قدرتی نالوں میںڈالا جا رہا ہے، جو اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں کے نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
لیکن سرور سندھو کا کہنا تھا، ''راولپنڈی کی انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہی ہے۔ اگر دونوں شہروں میں چند سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا دیے جائیں تو یہ نالے صاف پانی سے بہہ سکتے ہیں۔
اگرچہ وہ پینے کے قابل نہیں ہوں گے، لیکن کم از کم آلودہ بھی نہیں ہوں گے جیسا کہ اب ہیں۔"
کیا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر کو قدرتی آفات کا سامنا ہے؟کچھ عرصے سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جب بھی شہر کے کسی حصے میں سیلاب آتا ہے تو انتظامیہ اسے ''کلاؤڈ برسٹ‘‘ قرار دے دیتی ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کافی عرصے سے کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا، اور انتظامیہ محض اپنی نااہلی کا ملبہ قدرتی آفات پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔واٹر مینجمنٹ کے ایک ماہر نصیر میمن کہتے ہیں، ''پاکستان میں ہم قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں یا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر میں ایسی کوئی قدرتی آفت نہیں آئی جس سے بچا نہ جا سکتا ہو، یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں۔
‘‘نصیر میمن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ میں اصلاح کی نیت کی کمی صرف راولپنڈی ہی کے لیے مسئلہ نہیں، کچھ عرصے سے اسلام آباد بھی متاثر ہو رہا ہے اور وقتاً فوقتاً بعض علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث تباہی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران سیدپور گاؤں بھی قدرتی نکاسیٔ آب کے نالوں میں پانی کے بہاؤ بڑھنے سے متاثر ہوا۔