پیوٹن کا بڑا قدم: روس نے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی ختم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
روس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب زمین سے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر کسی پابندی کا پابند نہیں ہے۔
یہ فیصلہ انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (INF) معاہدے کے تحت عائد خودساختہ پابندیوں سے مکمل دستبرداری کی علامت ہے۔
روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکا کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد ماسکو کے پاس اب اس معاہدے کی پاسداری کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔
وزارت کے مطابق واشنگٹن کو بارہا خبردار کیا گیا مگر امریکی اقدامات سے واضح ہو گیا کہ وہ ایسے میزائل یورپ، ایشیا اور بحرالکاہل میں تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ INF معاہدے پر سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونالڈ ریگن نے 1987 میں دستخط کیے تھے، جس کے تحت 500 سے 5,500 کلومیٹر تک مار کرنے والے زمین سے داغے جانے والے میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔
روس نے الزام لگایا ہے کہ امریکا نے نہ صرف 2019 میں اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری اختیار کی بلکہ اس کے بعد مذکورہ میزائلوں کی تیاری جاری رکھی اور مشقوں کے لیے انہیں ڈنمارک اور فلپائن جیسے علاقوں میں منتقل بھی کیا۔
روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اب روسی قیادت جوابی اقدامات کا فیصلہ کرے گی، جو مغربی ممالک کی سرگرمیوں، میزائلوں کی تعیناتی کی تعداد اور عالمی اسٹریٹیجک استحکام کی مجموعی صورت حال پر منحصر ہوگا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میزائلوں کی کی تیاری
پڑھیں:
حکومت کا ترسیلات زر پر سبسڈی دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد:وفاقی حکومت نے ترسیلاتِ زر پر سبسڈی اسکیم کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ابتدائی طور پر 30 ارب روپے کی اضافی گرانٹ دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق وزارتِ خزانہ نے اسٹیٹ بینک کے مطالبے کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر تسلیم کیا ہے، جس کے بعد پاکستان ریمیٹینس انیشی ایٹو (PRI) کو دوبارہ فنڈنگ دی جائے گی۔
وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ اسکیم کیلیے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی، اس لیے 30 ارب روپے کی رقم ہنگامی فنڈ سے فراہم کی جائے گی۔
ایک بار یہ رقم خرچ ہو جائے تو مالی سال کے دوران مزید فنڈزکی منظوری دی جا سکتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں حکومت نے ترسیلاتِ زر اسکیم کیلیے 87 ارب روپے مختص کیے تھے تاہم اسٹیٹ بینک نے وزارتِ خزانہ سے 200 ارب روپے کا بل جمع کروایا تھا، جس میں سے 85 فیصد رقم ٹی ٹی چارجز اسکیم کے تحت تھی۔
بڑھتے مالی بوجھ کی وجہ سے وزارتِ خزانہ نے بجٹ میں اسکیم کیلیے رقم مختص نہیں کی اور اسٹیٹ بینک سے کہاکہ وہ اپنی ذمہ داری کے تحت فنڈز فراہم کرے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت اسٹیٹ بینک کسی بھی قسم کی سبسڈی فراہم نہیں کر سکتا۔
اس دوران ترسیلاتِ زر میں کمی دیکھی گئی اور اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے حکومت کو خبردار کیا کہ اسکیم کی بندش سے ترسیلات میں دوہرے ہندسے کی کمی واقع ہوئی ہے تاہم وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ کمی موسمی عوامل کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ترسیلاتِ زر 38.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو کہ گزشتہ سال کے 30.25 ارب ڈالرکے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ ہے، برآمدات اب بھی 32 ارب ڈالر کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکیں، جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
حکومت نے ترسیلاتِ زر کی ترغیبی اسکیموں میں کٹوتی کر دی اور نئی اسکیم کے تحت 1 جولائی 2025 سے اہل ترسیل کیلیے کم از کم رقم 200 ڈالر مقررکر دی گئی ہے، فی ٹرانزیکشن اب 20 سعودی ریال کی یکساں سبسڈی دی جائے گی، جو پہلے 20 سے 35 ریال کے درمیان تھی۔
ٹی ٹی چارجز اسکیم کے تحت بھی سابقہ مراعات کو محدودکیاگیا جبکہ حکومت نے اسکیم کو مرحلہ وار ختم کرنے کیلیے اسٹیٹ بینک سے شواہد پر مبنی منصوبہ طلب کر لیا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کی محنت سے کمائی گئی ترسیلاتِ زر پاکستان کی ترقی میں اہم کردار اداکرتی ہیں، اس لیے اسکیم کی بحالی ضروری ہے۔