ریڈلائن بی آر ٹی؛ شرجیل میمن کا منصوبے کی راہ میں تمام رکاوٹیں 15 ستمبر تک ہٹانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
کراچی:
سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ریڈلائن بی آر ٹی منصوبے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو 15 ستمبر تک ہٹانے کے احکامات جاری کردیے۔
ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے سے متعلق اہم اجلاس سینئر وزیر سندھ شرجیل انعام میمن کی صدارت میں ہوا، جس میں سیکرٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن، سی ای او ٹرانس کراچی فواد غفار سومرو، انجینئرز، کنسلٹنٹس اور کے الیکٹرک کے نمائندے شریک ہوئے۔
اجلاس میں حکام نے بی آر ٹی منصوبے میں پیش رفت کے حوالے سے سینئر صوبائی وزیر کو تفصیلی بریفنگ دی ۔ اس موقع پر منصوبے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے اقدامات اور کنٹریکٹرز کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا۔
سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ تمام مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے تاکہ منصوبے پر کام کی رفتار متاثر نہ ہو۔ انہوں نے ریڈ لائن بی آر ٹی کے راستے میں آنے والی کے الیکٹرک سمیت تمام یوٹیلیٹیز کی منتقلی 15 ستمبر 2025 تک مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
شرجیل میمن نے بی آر ٹی کوریڈور میں 2 اعشاریہ 7 کلومیٹر پر محیط کے فور منصوبے کی پائپ لائن جلد مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ واٹر بورڈ جلد از جلد کے فور پائپ لائن کا کام مکمل کرے تاکہ کام کی روانی متاثر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ریڈ لائن بی آر ٹی عوام کا ایک اہم منصوبہ ہے، اس میں مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز آپس میں رابطہ اور تعاون بڑھائیں اور منصوبے پر بلا تعطل کام جاری رکھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لائن بی آر ٹی
پڑھیں:
پاکستان: 2030 تک ہیضہ میں نمایاں کمی لانے کے منصوبے کا آغاز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 اگست 2025ء) پاکستان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تعاون سے ہیضے پر قابو پانے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت اس مرض سے ہونے والی اموات میں 2030 تک نمایاں کمی لائی جائے گی اور قدرتی آفات کے تناظر میں اس سے موثر تحفظ ممکن بنایا جائے گا۔
اس منصوبے کے ذریعے پاکستان میں ہیضے کی وباؤں کی بروقت نشاندہی، ان کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔
منصوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کو خاص اہمیت دی گئی ہے جن میں ہیضے سمیت دیگر امراض کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد ملک میں ہیضے کے تین لاکھ 70 ہزار سے زیادہ مشتبہ مریض سامنے آئے تھے۔(جاری ہے)
یہ کثیرالجہتی منصوبہ 2028 تک جاری رہے گا جس کے لیے پاکستان کے وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال اور ملک میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
جان لیوا مرضہیضہ شدید نوعیت کا انفیکشن ہے جو آلودہ پانی یا خوراک میں موجود وائبریو کولرائے بیکٹیریا سے پھیلتا ہے۔ یہ جراثیم انسانی جسم میں داخل ہونے سے شدید اسہال کی شکایت ہوتی ہے اور فوری طبی امداد میسر نہ آنے پر مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں ہیضہ ایک قابل اطلاع مقامی بیماری ہے اور اس کے زیادہ تر مریض گنجان آباد شہری علاقوں میں سامنے آتے ہیں جہاں ہر جگہ صاف پانی، مناسب نکاسی آب اور حفظان صحت کی سہولتیں موجود نہیں ہوتیں۔
اندازے کے مطابق، دنیا میں ہر سال 13 تا 40 لاکھ افراد ہیضے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں 21 ہزار سے لے کر ایک لاکھ 43 ہزار تک اموات ہوتی ہیں۔جنوری 2023 سے جولائی 2025 کے درمیان پاکستان میں ہیضے کے سالانہ اوسطاً 21 ہزار سے زیادہ مریضوں کی نشاندہی کی گئی جبکہ 250 افراد میں اس مرض کی تصدیق ہوئی ہے۔
ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے خطرات میں اضافہ کر رہی ہے جن سے ہیضے کی وبائیں جنم لے سکتی ہیں۔ بروقت نشاندہی اور موثر روک تھام کے بغیر ہیضہ صحت عامہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایسے کمزور طبقات اس سے خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں جنہیں صاف پانی اور صفائی کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' کو زندگیاں بچانے کی اس کوشش میں پاکستان کے ساتھ شراکت پر فخر ہے۔
پاکستان نے 'ڈبلیو ایچ او' کی 71ویں اسمبلی کی قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں جس میں ہیضے سے تاحال متاثر رہنے والے 47 رکن ممالک پر 2030 تک اس مرض سے ہونے والی اموات میں 90 فیصد کمی لانے اور 20 ممالک میں اس بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
یہ تمام کوششیں بین الاقوامی ضوابط صحت اور ہیضے پر قابو پانے سے متعلق عالمی ٹاسک فورس کے مقرر کردہ ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہیں۔منصوبے کا خاکہاس منصوبے میں بین الاقوامی، قومی اور صوبائی سطح کے شراکت داروں کی کوششوں سے ہیضے کے خلاف بنیادی طبی ڈھانچے اور صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس میں انتظام، قیادت اور ربط کاری، بیماری کی نگرانی اور تشخیص، علاج معالجہ اور انفیکشن سے بچاؤ، پانی صفائی اور حفظان صحت جیسی سہولیات کا اہتمام، خطرے سے متعلق اطلاعات کی فراہمی اور مرض کی روک تھام کے لیے مقامی سطح پر لوگوں کی مدد سے اقدامات، حفاظتی ٹیکے لگانے، عملی معاونت و انصرام اور بنیادی صحت و سماجی خدمات کا تسلسل شامل ہیں۔
سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ اور اس پر 'ڈبلیو ایچ او' کے ساتھ شراکت داری میں عملدرآمد اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال ہسپتالوں سے شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کا آغاز ہر محلے اور ہر سماجی گروہ میں بیماری کی روک تھام کے اقدامات سے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ انتہائی ضروری ہے۔