فلسطین کو تسلیم کرنا، سفارتی ڈرامہ یا انصاف کی جانب قدم؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔ تحریر: سید مہدی نورانی
یورپی یونین اور اس کے تمام رکن ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے امکان کی خبروں نے مختلف قسم کے تجزیات اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ اگر یہ خبر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے تو ہم یورپ کی سفارتی تاریخ میں اہم ترین علامتی اور ساتھ ہی ساتھ مشکوک یوٹرن کا مشاہدہ کریں گے۔ لیکن اس تسلیم کرنے کے دعوی کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا اہداف کارفرما ہیں؟ اور کیا یہ واقعی فلسطینی قوم اور مزاحمت کے حق میں ہے یا نہیں؟
ایک سفارتی فیصلے کے پوشیدہ پہلو اور پیش کردہ شرائط
اس بات کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں چند اہم نکات سے غافل نہیں ہونا چاہیے:
1۔ سماجی دھماکے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر: غاصب صیہونی رژیم میدان جنگ میں، نفسیاتی لحاظ سے اور اپنی مشروعیت کے بارے میں ناکامیوں کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ مغربی رائے عامہ، خاص طور پر یورپ میں مزید غزہ میں جاری ظلم و ستم برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ ایسے حالات میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا یورپی حکمرانوں کی سوچ میں حقیقی تبدیلی کی علامت سے زیادہ ایک احتیاطی حکمت عملی ہے جو یورپ میں سماجی دھماکے کو کنٹرول کرنے اور عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انجام پا رہی ہے۔
2۔ امریکہ پر دباو کا ذریعہ: یہ فیصلہ محض امریکہ پر دباو ڈالنے کی خاطر بھی ہو سکتا ہے تاکہ ٹیکسوں کی جنگ میں واشنگٹن سے ایک طرح کا سفارتی بھتہ وصول کیا جا سکے۔ یورپ کی کوشش ہے کہ وہ اس ہتھکنڈے کو بروئے کار لا کر امریکہ کے مقابلے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔
3۔ خطے میں یورپ کا کھویا ہوا کردار دوبارہ حاصل کرنا: یورپ ایک عرصے سے خطے کے سیاسی حالات میں فعال اور موثر کردار کھو چکا ہے۔ اب اس اقدام کے ذریعے وہ "امن پسندی" کے لیبل سے خود کو جارح امریکہ سے دور کرنا چاہتا ہے اور علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنے کے درپے ہے۔
4۔ مشروط اور ناقص طور پر تسلیم کرنا (بعض ممالک کی شرائط بیان کر کے): اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بیانیہ نہ صرف اسرائیل کا وجود قبول کرنے کی شرط سے جڑا ہے بلکہ ممکنہ طور پر "فلسطینی ریاست" بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کے تحت تشکیل دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدس شریف کے بغیر، حق واپسی کے بغیر اور اسلامی مزاحمت سے عاری فلسطینی ریاست مدنظر ہے۔
فرانس جیسے بعض ممالک نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے لیے کچھ شرائط بھی پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور دو ریاستی راہ حل پر زور دیا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب 1967ء کی سرحدیں مان لینا اور قدس شریف کی تقسیم ہے۔ اس شکل میں فلسطین واضح طور پر اس سے بہت زیادہ متضاد ہے جو فلسطینی قوم کی آرزو ہے۔
5۔ عمل کے بغیر علامتی سرگرمیاں: علامتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اور عمل میں موثر اقدامات انجام نہ دینا اور اسرائیل پر دباو نہ ڈالنا صرف حقیقت سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ کیا اس طرح اسرائیل صیہونی بستیوں کی تعمیر روک دے گا؟ کیا غزہ کا محاصرہ ختم کر دے گا؟ کیا صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی رک جائے گی؟ کیا اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا؟ یقیناً نہیں۔ عملی اقدامات کے بغیر یہ کام صرف رائے عامہ کو فریب دینے کے لیے ہے۔
6۔ اسلامی مزاحمت کو کنٹرول کرنا اور شہداء کا خون ضائع کرنا: اس فیصلے کا اصل مقصد اسلامی مزاحمت کی تحریک ختم کرنا اور غزہ کے شہداء کا خون ضائع کرنا ہے۔ ایسے ہی جس طرح لبنان میں حالیہ حکومت کی تشکیل کے بعد حزب اللہ لبنان کو گوشہ نشین کرنے اور حکومت کا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کیا جا سکے۔ اس بار فلسطین میں فلسطین اتھارٹی کو مشروع ظاہر کر کے، جس کا نیتن یاہو کابینہ سے کوئی فرق نہیں ہے، اور دو ریاستی راہ حل دوبارہ زندہ کر کے غزہ میں اسلامی مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور اسے ختم کرنا مقصود ہے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اگرچہ بظاہر فلسطین کے حق میں ایک اچھا قدم ہے لیکن باطن میں ممکن ہے اسی پرانی سازش کا تسلسل ہو جس کے تحت اسلامی مزاحمت ختم کر کے مسئلہ فلسطین کو قبضے اور مزاحمت کی بجائے محض ایک سفارتی تنازعہ بنانے کی کوشش جاری ہے۔
حقیقی راہ حل: وسیع ریفرنڈم
اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کو تسلیم اسلامی مزاحمت کو تسلیم کرنا فلسطینی قوم ہو سکتا ہے کرنا اور کے بغیر کرنے کے راہ حل اور اس کیا جا کے لیے
پڑھیں:
مسجد اقصیٰ پر حملہ عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے، ابراہیم مراد
سابق صوبائی نگران وزیر نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے تحفظ اور انصاف کو فوری یقینی بنایا جائے، اسرائیلی وزیر کی قیادت میں دھاوے نے مسلم دنیا کے جذبات کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے، عالمی برادری جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کو یقینی بنائے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق نگران صوبائی وزیر ابراہیم مراد نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی دھاوے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی وزراء اور آبادکاروں کا اقدام اشتعال انگیزی اور عالمی امن کیخلاف قرار دیا۔ ابراہیم مراد نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، اسلامی مقدسات کی توہین ناقابلِ برداشت اور امن کیلئے خطرناک ہے۔ سابق وزیر کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ پر حملہ عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے، فلسطینی عوام کے تحفظ اور انصاف کو فوری یقینی بنایا جائے، اسرائیلی وزیر کی قیادت میں دھاوے نے مسلم دنیا کے جذبات کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے۔ ابراہیم مراد نے کہا کہ عالمی برادری جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کو یقینی بنائے۔