یہودی فو ج کے ہاتھوں یومیہ 28 مسلم بچے قتل
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
بمباری ، بھوک سے ہونے والی شہادتوں پر یونیسف کی رپورٹ
7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک 18 ہزار بچوں کی شہادتیں ہوئیں
غزہ میں اسرائیلی بمباری اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کے باعث بچوں کی ہلاکتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کے مطابق، ہر روز اوسطا 28 بچے شہید ہو رہے ہیں۔ یونیسف نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ بچے بمباری سے مر رہے ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں، اور بنیادی سہولیات کے فقدان سے جان دے رہے ہیں۔”یونیسف نے زور دیا کہ غزہ میں بچوں کو فوری طور پر خوراک، صاف پانی، ادویات اور تحفظ کی ضرورت ہے، مگر اس سب سے بڑھ کر انہیں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ مزید تاخیر کیے بغیر جنگ روکی جائے تاکہ بچوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جا سکے۔اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک جاری اسرائیلی حملوں میں 18,000 سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں، یعنی ہر گھنٹے ایک بچہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
فلسطینی بچوں پراسرائیلی مظالم، دل دہلادینے والی رپورٹ سامنے آگئی،
اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی بچوں کی بھاری اکثریت کو جان بوجھ کر سر یا سینے میں گولیاں مارکر قتل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، 2023 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے دوران بچوں کو گولیاں ماری گئیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے( بی بی سی)کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق میں انکشاف کیا گیاکہ نومبر 2023 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے دوران 2 کم سن بچیوں، دو سالہ لیان المجدلاوی اور 6 سالہ میرا طنبوہ، کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
دونوں واقعات ایسے علاقوں میں پیش آئے جہاں اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کارروائیوں میں مصروف تھیں۔
برطانوی اخبار نے ان دونوں واقعت کے علاوہ مجموعی طور پر 160 سے زائد ایسے بچوں کے کیسز کی تفصیل اکٹھی کی ہے جنہیں غزہ کی جنگ کے دوران گولیاں ماری گئیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 95 بچوں کو سر یا سینے پر گولیاں لگیں، جن میں سے 59 واقعات میں عینی شاہدین کی براہِ راست یا انسانی حقوق کی تنظیموں اور طبی عملے کے ذریعے گواہیاں حاصل کی گئیں۔
ان گواہیوں کے مطابق 57 بچوں پر فائرنگ کا الزام اسرائیلی فوج پر لگا جبکہ دو بچوں کو فلسطینیوں کی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، ایک خوشی میں کی گئی فائرنگ کے دوران اور دوسرا ایک مقامی گروہی تصادم میں۔
شہید بچوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ یہ بچے نہتے تھے، انکے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے، اور وہ زیادہ تر کھیل رہے ہوتے تھے یا حملوں سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہوتے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان بچوں میں سے اکثر کی عمر بارہ سال سے کم تھی۔
رپورٹ سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس معاملے پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
باقی 36 کیسز کے بارے میں کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے غیر ملکی صحافیوں کے لیے غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس سے تفصیلات تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کو ایسے جنگی رویے کو ”نارمل“ تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جس میں بڑی تعداد میں بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔