اسلام ٹائمز: ولایت فقیہ کا تصور اکثر موضوع بحث رہتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس تصور کو فقہی اصطلاحات میں الجھا دیا گیا ہے اور اس سادہ سے مسئلے کو بحث برائے بحث اور ذہنی مشق کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق بھی ایسی ”اجتماعیت“ سے ہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ ”ولایت فقیہ“ بنیادی طور پر ”لیڈرشپ“ یا ”رہبری“ ہے۔ تسبیح کے دانوں کے امام سے لے کر شہد کی مکھیوں کی ملکہ تک، سب کا وجود اجتماعیت کے اسی تصور کی پیداوار ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
بنی نوع انسان میں اجتماعت کا تصور ازل سے اپنا وجود رکھتا ہے۔ جو انسان کا فطری تقاضا بھی ہے۔ اجتماعیت کسی بھی قوم و ملت کی بقا کے لیے لازم ہے۔ جس طرح ایک موج کا مقام بہتے دریا میں ہے اسی طرح ایک فرد کا مقام اس کا اپنی ملت سے جڑے رہنے میں ہے۔ کسی بھی اجتماع کو مجتمع رکھنے اور اس کی سمت درست رکھنے کے لیے کسی ایسی قیادت کا ہونا ضروری ہے جو اس کے لیے قطب نما کا کام کرے۔ کسی خانہ بدوش قبیلے کا بھی کوئی سردار ہوتا ہے۔ قیادت کا یہ تصور حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ خدا نے انہیں فکر کی دولت سے مالامال کیا ہے جسے بروئے کار لا کر وہ اجتماعیت کے فوائد سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد آمدم برسرمطلب یہ کہ شیعان حیدر کرار جو دنیا کے ہر خطہء ارضی میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان کے حوالے سے ”ولایت فقیہ“ کا تصور اکثر موضوع بحث رہتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس تصور کو فقہی اصطلاحات میں الجھا دیا گیا ہے اور اس سادہ سے مسئلے کو بحث برائے بحث اور ذہنی مشق کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق بھی ایسی ”اجتماعیت“ سے ہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ ”ولایت فقیہ“ بنیادی طور پر ”لیڈرشپ“ یا ”رہبری“ ہے۔ تسبیح کے دانوں کے امام سے لے کر شہد کی مکھیوں کی ملکہ تک، سب کا وجود اجتماعیت کے اسی تصور کی پیداوار ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس مکتب کا دائرہ تمام عالم تک پھیلا ہوا ہے، کیا اسے کسی ایسی لیڈر شپ کی ضرورت نہیں ہے جو اس مسلک سے منسلک افراد کے مختلف النوع قسم کے مسائل میں ان کی رہنمائی کرے؟ اسلام کے علاوہ دنیا میں اس وقت ایسے کئی قسم کے نظام ہائے زندگی پائے جاتے ہیں جو دنیا میں اپنا ایک وجود رکھتے ہیں۔ مثلاً کمیونزم، کنفیوشس ازم اور سوشلزم وغیرہ۔ یہ نظام اپنی کسی نہ کسی قیادت کے طفیل ہی وجود میں آئے اور پھر دنیا میں اپنے اجتمائی وجود کے ساتھ آج بھی کسی حد تک زندہ ہیں۔
ہر دور میں ان نظریات کے بانیوں نے اپنے زندہ وجود کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا میں اپنی طرز کے انقلابات برپا کئے۔ مثلاً لینن نے جس نظریے کی بنیاد رکھی وہ پوری دنیا میں پھلا پھولا۔ اس کے ماننے والے ایک زمانے تک پوری دنیا میں اپنی اہمیت رکھتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کوئی بھی نظریہ یا کوئی بھی قیادت جغرافیائی حدود سے باہر بھی تسلیم کی جا سکتی ہے اور اپنا اثرورسوخ دکھا سکتی ہے۔ اگر آج اسلامی جمہوری ایران میں ”ولایت فقیہ“ کا نظام رائج ہے تو اس نظام کو ایران سے باہر بھی اپنایا جا سکتا ہے اور اس کی قیادت کی پیروی ایران کی سرحدوں سے باہر بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی جیسے کمیونزم یا اس کے بانی کے افکار کو ایک وقت میں دنیا کے ہر گوش و کنار میں اپنایا جاتا تھا۔
پاکستان میں بھی ایک زمانے میں کمیونسٹ نظریے کے حامل افراد ادب سے لے کر سیاست تک، ہر شعبہء زندگی میں پائے جاتے تھے۔ آج اگر لوگوں کے دلوں میں امام خمینی کی شخصیت یا ان کا نظریہ ولایت فقیہ، جو در واقع اسلامی قیادت یا اسلام کے نظریہءاجتماعیت کا پرتو ہے، زندہ ہے تو یہ کہنا کہ کیونکہ امام خمینی یا ان کے نظریے کا تعلق سرحد پار کسی ملک سے ہے، لہذٰا اہل پاکستان کو اس سے بالکل سروکار نہیں ہونا چاہیئے، زمینی حقائق سے فرار ہے۔ آغاز گفتگو میں جس طرح عرض کیا گیا تھا کہ ولایت فقیہ کا نظریہ قوم کو مجتمع کرکے، اسے ایک ایسی قیادت اور ایک ایسی لیڈرشپ دینا ہے جو قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اگر پھر بھی کسی کے متخیلہ میں یہ نظریہ سما نہیں سکتا تو وہ ”چئرمین ماؤ“ کے نظریہءقیادت اور نظریہء اجتماعیت کا ہی مطالعہ کر لے اور اس پر عمل کر کے کوئی انقلاب لے آئے لیکن ہمارے لیے اس قسم کا انقلاب اس لیے موزوں نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کا انقلاب ”لادینیت“ کی کوکھ سے نکلے گا اور بقول امام خمینی (رح) اس طرح کا نظام بالآخر تاریخ کے عجائب گھروں کی زینت بن جاتا ہے۔ اس گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ ”تشیع ایک ایسا ”انقلابی انداز فکر“ ہے جو عصر حاضر میں ”نظریہء ولایت فقیہ“ کی روشنی میں کسی بھی ملت کو ”جمود“ کی صورت حالت سے باہر نکال سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دیا گیا ہے دنیا میں کے ساتھ سکتا ہے سے باہر ہے اور اور اس کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے طاقتور محرک ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی Artificial Intelligence ہے۔ اب یہ ٹیکنالوجی مستقبل کا کوئی فیکشن نہیں ہے بلکہ حال کی حقیقت بن چکی ہے۔
میڈیا، جو ہمیشہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے متاثر ہوتا رہا ہے، اس وقت ایک نئی انقلابی لہر کے دہانے پر کھڑا ہے، یہ ایک ایسی لہر جو خبر کے تصور، اس کے ماخذ اور اس کی سچائی کو نئے معنی دے رہی ہے۔
چند سال پہلے تک خبری ادارے خبر اکٹھی کرنے، تصدیق کرنے اور شایع کرنے کے لیے انسانی مہارت پر انحصار کرتے تھے۔ آج ChatGPT، Google Gemini اور دیگر AI ٹولز نے یہ عمل خودکار (Automated) بنا دیا ہے۔
AI اب نیوز اسکرپٹس لکھتا ہے، وڈیوز ایڈٹ کرتا ہے اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی بنیاد پر خبری موضوعات تجویز کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے ادارے جیسے BBC، Reuters اور CNN اپنے نیوز رومز میں Artificial Intelligence کو ایک خاموش مگر مستقل ساتھی بنا چکے ہیں۔
میڈیا کی صنعت میں اس انقلاب کے ساتھ خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، Deepfake وڈیوز، جعلی تصاویر اور Chatbots کے ذریعے پھیلائی جانے والی ’’مصنوعی خبریں‘‘ عوامی رائے کو گمراہ کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں میڈیا لٹریسی کی سطح محدود ہے، یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔ عام قاری اور ناظر کے لیے حقیقت اور جعل سازی میں فرق کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب صحافت کو محض خبر دینے سے آگے بڑھ کر ’’سچائی کی حفاظت‘‘ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت نے صحافت کے پیشہ ورانہ اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خبر ایک مشین تیار کرے تو ’’ادارتی ذمے داری‘‘ کس پر عائد ہوتی ہے؟ انسانی ضمیر یا الگورتھم؟ یہ اخلاقی بحث اب عالمی سطح پر شروع ہو چکی ہے۔
یونیسکو اور دیگر ادارے AI Ethics کے ضابطے وضع کر رہے ہیں تاکہ ٹیکنالوجی انسانی اقدار کو نقصان نہ پہنچائے۔
پاکستانی میڈیا کو اس دور میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں Artificial Intelligence کو دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھنا ہوگا۔ اے ای ایک ایسا ٹول جو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو خبروں کی درستگی، تحقیق، اور فیکٹ چیکنگ کے عمل کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار نہ کی تو چند سالوں میں ہمارے نیوز رومز محض ’’ری پبلشنگ ڈیسک‘‘ بن کر رہ جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، میڈیا تنظیمیں، اور پالیسی ساز ادارے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ صحافت کے نصاب میں AI لٹریسی، ڈیٹا جرنلزم، اور میڈیا ایتھکس کو فوری طور پر شامل کیا جائے۔
اسی طرح میڈیا ہاؤسز اپنے عملے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کریں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔
مصنوعی ذہانت ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی میڈیا کو بدل دے گی یا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس تبدیلی کو کیسے سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے دانش مندی سے کام لیا تو یہ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ ہماری ’’حقیقی صحافت‘‘ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔