Islam Times:
2025-09-21@16:14:01 GMT

ولایت فقیہ کا سادہ مفہوم

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

ولایت فقیہ کا سادہ مفہوم

اسلام ٹائمز: ولایت فقیہ کا تصور اکثر موضوع بحث رہتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس تصور کو فقہی اصطلاحات میں الجھا دیا گیا ہے اور اس سادہ سے مسئلے کو بحث برائے بحث اور ذہنی مشق کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق بھی ایسی ”اجتماعیت“ سے ہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ ”ولایت فقیہ“ بنیادی طور پر ”لیڈرشپ“ یا ”رہبری“ ہے۔ تسبیح کے دانوں کے امام سے لے کر شہد کی مکھیوں کی ملکہ تک، سب کا وجود اجتماعیت کے اسی تصور کی پیداوار ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

بنی نوع انسان میں اجتماعت کا تصور ازل سے اپنا وجود رکھتا ہے۔ جو انسان کا فطری تقاضا بھی ہے۔ اجتماعیت کسی بھی قوم و ملت کی بقا کے لیے لازم ہے۔ جس طرح ایک موج کا مقام بہتے دریا میں ہے اسی طرح ایک فرد کا مقام اس کا اپنی ملت سے جڑے رہنے میں ہے۔ کسی بھی اجتماع کو مجتمع رکھنے اور اس کی سمت درست رکھنے کے لیے کسی ایسی قیادت کا ہونا ضروری ہے جو اس کے لیے قطب نما کا کام کرے۔ کسی خانہ بدوش قبیلے کا بھی کوئی سردار ہوتا ہے۔ قیادت کا یہ تصور حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ خدا نے انہیں فکر کی دولت سے مالامال کیا ہے جسے بروئے کار لا کر وہ اجتماعیت کے فوائد سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد آمدم برسرمطلب یہ کہ شیعان حیدر کرار جو دنیا کے ہر خطہء ارضی میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان کے حوالے سے ”ولایت فقیہ“ کا تصور اکثر موضوع بحث رہتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس تصور کو فقہی اصطلاحات میں الجھا دیا گیا ہے اور اس سادہ سے مسئلے کو بحث برائے بحث اور ذہنی مشق کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق بھی ایسی ”اجتماعیت“ سے ہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ ”ولایت فقیہ“ بنیادی طور پر ”لیڈرشپ“ یا ”رہبری“ ہے۔ تسبیح کے دانوں کے امام سے لے کر شہد کی مکھیوں کی ملکہ تک، سب کا وجود اجتماعیت کے اسی تصور کی پیداوار ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس مکتب کا دائرہ تمام عالم تک پھیلا ہوا ہے، کیا اسے کسی ایسی لیڈر شپ کی ضرورت نہیں ہے جو اس مسلک سے منسلک افراد کے مختلف النوع قسم کے مسائل میں ان کی رہنمائی کرے؟ اسلام کے علاوہ دنیا میں اس وقت ایسے کئی قسم کے نظام ہائے زندگی پائے جاتے ہیں جو دنیا میں اپنا ایک وجود رکھتے ہیں۔ مثلاً کمیونزم، کنفیوشس ازم اور سوشلزم وغیرہ۔ یہ نظام اپنی کسی نہ کسی قیادت کے طفیل ہی وجود میں آئے اور پھر دنیا میں اپنے اجتمائی وجود کے ساتھ آج بھی کسی حد تک زندہ ہیں۔

ہر دور میں ان نظریات کے بانیوں نے اپنے زندہ وجود کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا میں اپنی طرز کے انقلابات برپا کئے۔ مثلاً لینن نے جس نظریے کی بنیاد رکھی وہ پوری دنیا میں پھلا پھولا۔ اس کے ماننے والے ایک زمانے تک پوری دنیا میں اپنی اہمیت رکھتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کوئی بھی نظریہ یا کوئی بھی قیادت جغرافیائی حدود سے باہر بھی تسلیم کی جا سکتی ہے اور اپنا اثرورسوخ دکھا سکتی ہے۔ اگر آج اسلامی جمہوری ایران میں ”ولایت فقیہ“ کا نظام رائج ہے تو اس نظام کو ایران سے باہر بھی اپنایا جا سکتا ہے اور اس کی قیادت کی پیروی ایران کی سرحدوں سے باہر بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی جیسے کمیونزم یا اس کے بانی کے افکار کو ایک وقت میں دنیا کے ہر گوش و کنار میں اپنایا جاتا تھا۔

پاکستان میں بھی ایک زمانے میں کمیونسٹ نظریے کے حامل افراد ادب سے لے کر سیاست تک، ہر شعبہء زندگی میں پائے جاتے تھے۔ آج اگر لوگوں کے دلوں میں امام خمینی کی شخصیت یا ان کا نظریہ ولایت فقیہ، جو در واقع اسلامی قیادت یا اسلام کے نظریہءاجتماعیت کا پرتو ہے، زندہ ہے تو یہ کہنا کہ کیونکہ امام خمینی یا ان کے نظریے کا تعلق سرحد پار کسی ملک سے ہے، لہذٰا اہل پاکستان کو اس سے بالکل سروکار نہیں ہونا چاہیئے، زمینی حقائق سے فرار ہے۔ آغاز گفتگو میں جس طرح عرض کیا گیا تھا کہ ولایت فقیہ کا نظریہ قوم کو مجتمع کرکے، اسے ایک ایسی قیادت اور ایک ایسی لیڈرشپ دینا ہے جو قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

اگر پھر بھی کسی کے متخیلہ میں یہ نظریہ سما نہیں سکتا تو وہ ”چئرمین ماؤ“ کے نظریہءقیادت اور نظریہء اجتماعیت کا ہی مطالعہ کر لے اور اس پر عمل کر کے کوئی انقلاب لے آئے لیکن ہمارے لیے اس قسم کا انقلاب اس لیے موزوں نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کا انقلاب ”لادینیت“ کی کوکھ سے نکلے گا اور بقول امام خمینی (رح) اس طرح کا نظام بالآخر تاریخ کے عجائب گھروں کی زینت بن جاتا ہے۔ اس گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ ”تشیع ایک ایسا ”انقلابی انداز فکر“ ہے جو عصر حاضر میں ”نظریہء ولایت فقیہ“ کی روشنی میں کسی بھی ملت کو ”جمود“ کی صورت حالت سے باہر نکال سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دیا گیا ہے دنیا میں کے ساتھ سکتا ہے سے باہر ہے اور اور اس کے لیے

پڑھیں:

بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ تبدیلی کی رفتار وقت کے ساتھ تیز تر ہو رہی ہے، بلکہ اب تو رفتار اس قدر تیز ہے کہ انسان کو ان تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملانا اور سانس بحال رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ 70 کی دہائی میں امریکا کے ایک معروف ماہر سماجیات ایلون ٹافلر نے دو کتابوں (Third Wave & Future Shock) میں ایجادات کے حوالے سے دنیا کے بدلاؤ کی تاریخ اور نئے امکانات کا چشم کشا تجزیہ پیش کیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ ایک وقت تھا دنیا کے ایک سرے سے آخری سرے تک انسانی ایجاد کو پہنچنے میں 800 سال لگ جاتے لیکن صنعتی ترقی کے دور اور بڑے بڑے شہروں میں یونیورسٹیز، تحقیقات، لیبارٹریز اور ٹیکنالوجیز کے مراکز قائم ہونے سے تبدیلیوں کا یہ سفر صدیوں سے سکڑ کر مہینوں بلکہ ہفتوں میں سمٹ آیا ہے۔

گزشتہ تین چار صدیوں سے نئی ایجادات کے مراکز امریکا، یورپ یا دیگر ممالک میں ہیں جب کہ مسلمانوں کے ہاں کوئی ایک بھی ایسا مرکز موجود نہیں۔ اسی لیے جدید ایجادات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں کے دوران البتہ ایشیاء کے کئی ممالک نے صدیوں کا سفر دہائیوں میں طے کرکے امریکا اور یورپ کی ہمسری کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ فی زمانہ نئی ٹیکنالوجیز اور موزوں کاروباری ماحول یعنی ایکو سسٹم جدت اور ایجادات کے نئے مراکز تشکیل دے رہا ہے۔ 

صنعتی ترقی اب چوتھے دور یعنی 4.0 میں سرپٹ دوڑ رہی ہے جہاں ٹیکنالوجیز اور ایجادات کا نیا جہان تشکیل پارہا ہے۔ نئے پیٹنٹس اور نئے سائنسی خیالات پر مبنی تحقیقی پیپرز کی اشاعت اب تک عالمی ایجاد سازی ماپنے کے معروف پیمانے تھے مگر اس سال کا گلوبل انوویشن انڈکس 2025 جسے یو این او کا ادارہ WIPRO ترتیب دیتا ہے، اس میں ایک تیسرا فیصلہ ساز پہلو بھی شامل کیا گیا، یعنی وینچر انویسٹمنٹ کی فراہمی۔ تیسرے عنصر کی شمولیت سے اس سال کی گلوبل رینکنگ گزشتہ سالوں سے مختلف ہے مگر مستقبل کے ٹیکنالوجی مراکز، ممالک اور شہروں کا پتہ دیتی ہے جو آنے والے سالوں میں دنیا پر ایجادات اور جدت طرازی کے راہبر ہوں گے۔ 100 ایسے مراکز کی فہرست میں پہلے 50 میں کوئی مسلم ملک موجود نہیں۔ 51 سے 100 کی فہرست میں چار مسلم ممالک شامل ہیں، ترکی 58ویں، ایران 64 ویں، مصر 83ویں اور ملائیشیا 86ویں نمبر پر ہے…!

دنیا کا منظرنامہ بدل رہا ہے، جو کل خواب تھا، آج حقیقت ہے اور جو آج حقیقت ہے، کل فرسودہ لگے گا۔ گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کی حالیہ رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل کے قلعے تلواروں یا توپوں سے نہیں بلکہ جدت، اختراع اور ٹیکنالوجی کے ایوانوں میں تعمیر ہوں گے۔ معیشت اور معاشرت کے مراکز اب وہاں نہیں جہاں بندرگاہیں یا تیل کے کنویں ہیں بلکہ وہاں ہوں گے جہاں نئی ایجادات کو جنم دینے کے لیے دماغ، تحقیق اور سرمایہ یکجا ہوتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے ٹاپ 100 انوویشن کلسٹرز ستر فیصد عالمی پیٹنٹ فائلنگز اور وینچر کیپیٹل ڈیلز کے حامل ہیں۔ گویا دنیا کا بیشتر دماغ اور سرمایہ چند مخصوص جغرافیوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اگر نظر ٹاپ ٹین پر ڈالیں تو وہ اکیلے ہی تقریباً چالیس فیصد پیٹنٹ اور پینتیس فیصد سرمایہ کاری کے حامل ہیں۔ شینزین، ٹوکیو، سان ہوزے، بیجنگ اور سیول جیسے مراکز آنے والے کل کے عالمی ٹیکنالوجی نقشے کے خدوخال طے کر رہے ہیں۔ یہ شہر صرف جغرافیائی شناخت نہیں ہیں بلکہ یہ طاقت کے نئے مراکز ہیں یعنی نئے روم، نئے بغداد!

چین اس رینکنگ میں 24 کلسٹرز کے ساتھ ٹاپ پر ہے جس سے اس نے یہ ثابت کیا کہ تحقیق اور سرمایہ کاری کا ملاپ کس طرح عالمی طاقت کا روپ دھارتا ہے۔ امریکا کے 22 کلسٹرز سلیکان ویلی سے لے کر مشرقی ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا بھر سے ٹیلنٹ کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جرمنی نے اپنے سات یونیورسٹی شہروں کو انوویشن ہب میں بدلا ہے۔ بھارت نے چار کلسٹرز کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تعلیمی ادارے اور صنعت ایک دوسرے سے جڑ جائیں تو ترقی یافتہ دنیا کے برابر کھڑا ہونا ممکن ہے۔

پاکستان کا معاملہ اس تناظر میں افسوسناک ہے۔ ہماری مجموعی درجہ بندی 99ویں ہے، اور ہمارے کسی شہر نے ٹاپ 100 کلسٹرز میں جگہ نہیں بنائی۔ بلاشبہ ہمارے طلبہ مقالے لکھتے ہیں، تحقیقی جرائد میں نام چھپتے ہیں، آئی ٹی ایکسپورٹ کے اعدادوشمار کچھ امید دلاتے ہیں، مگر جہاں اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے… یعنی R&D کی سرمایہ کاری، وینچر کیپیٹل کا بہاؤ، اور پالیسیوں کا تسلسل… وہاں ہم غائب ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں، ایک رویہ ہے۔ ہمارے ہاں سرمایہ کار زمین اور پلازے خریدنے کو تو تیار ہے، لیکن کسی نئے آئیڈیا پر پیسہ لگانے کو حماقت سمجھتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر بجٹ مختص کرنے سے زیادہ کانفرنسوں میں تقاریر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری جامعات مقالے تو شایع کرتی ہیں مگر صنعت کے ساتھ ربط قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے بہترین دماغ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تدریس اور بیوروکریسی میں کھپ جاتے ہیں، جہاں ان کی صلاحیتیں عالمی دوڑ کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتیں۔

ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں ذہین افراد موجود نہیں۔ بے شمار انفرادی مثالیں ہیں جو حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہیں۔ ہمارے ایک دوست کنور حیدر ہیں، ٹیکسٹائل پروفیشنل ہیں اور اسی شعبے کی تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں، انھوں نے ہمیں گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی عالی دماغ سے ملوایا۔ تحصیل میلسی کے گاؤں کرم آباد سے ایک عام گھرانے کی بچی رمشا بابر نے ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور سے میتھ میں ایم فل کرنے کے بعد تھائی لینڈ کی Thammasa University سے فل اسکالر شپ پر اسی مضمون میں بلیک ہول پارٹیکلز کی رفتار کو ایک نئے خیال پر جانچنے کو موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر رمشا اسی موضوع پر اب پوسٹ ڈاکٹریٹ کی خواہشمند ہیں۔ اس سے قبل ایک عزیز کی بیٹی نے بتایا کہ وہ فزکس میں اسکالرشپ پر چین کے شہر ووہان میں پی ایچ ڈی کرنے جا رہی ہے۔ یہ نوجوان امید دلاتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کا سبق یہی ہے کہ مستقبل ان کا ہے جو اپنے نوجوانوں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں، جو تحقیقی مقالوں کو کاروباری ماڈل بناتے ہیں اور جو سرمایہ زمینوں اور پلازوں کے بجائے آئیڈیاز میں لگاتے ہیں۔ یہی راستہ ہے جس سے ہم اپنی معیشت کو دلدل سے نکال کر ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں اور یہی وہ سبق ہے جو ہمیں دنیا کے صف اول کے ٹیکنالوجیز کلسٹرز سے سیکھنا چاہیے۔ ورنہ ہم ایک بار پھر تماشائیوں کی صف میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • معاہدہ اور رومانوی دنیا!
  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • آنکھیں بند کر لو
  • بجٹ خسارے کی کہانی
  • افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا، رانا ثناء
  • افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا: رانا ثنا
  • اب پاکستان پر حملہ سعودی عرب اور سعودی عرب پرحملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا
  • پاک سعودی دفاعی معاہدے کے تحت ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہو گا؛ ترجمان دفتر خارجہ
  • آپ ﷺ کے آنے سے روشن ہوگئی یہ کائنات ۔۔۔۔ !
  • جب پاکستان اور سعودیہ عرب دونوں اکٹھے ہو گئے تو یہ ایک ورلڈ سپرپاور تصور ہوں گے، رانا ثنا اللہ