ماں کا دودھ: اللہ کی رحمت اور بچے کا حق
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
ماہ اگست کا پہلا ہفتہ دنیا بھر میں بریسٹ فیڈنگ کی آگاہی کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح mortality perinatal اور خوراک کی کمی یعنی malnutrition خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ ابتدائی عمر میں breastfeeding exclusive کا نہ ہونا ہے۔
ربِّ کائنات نے بچّے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اْس کی خوراک کا جو انتظام کر رکھا ہے، وہ طبّی اور غذائی اعتبار سے قدرت کا ایک شاہکار نظام ہے۔ ماں کا دودھ اللہ تعالیٰ کا انعام اور بچّے کے لیے ایک متوازن اور چھے ماہ تک کے لیے ایک مکمل غذا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت 233 میں ماؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’’اور مائیں اپنے بچّوں کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں۔‘‘
ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّدﷺ نے بھی دودھ پلانے والی ماں کے لیے بہت زیادہ اجر کی بشارت دی ہے۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ اور ’’کنزالعمال‘‘ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بچّے کی پیدائش کے بعد (ماں کی چھاتی سے) دودھ کا جو قطرہ نکلتا ہے اور جب بچّہ اْس دودھ کو پیتا ہے، تو ہر گھونٹ اور ہر قطرے پر عورت کو نیکی ملتی رہتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ میں ایسے قدرتی اجزا رکھے ہیں، جن سے بچّے کی قوّتِ مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔اور اِس کے ذریعے بچّے کا نظامِ ہضم بھی درست کام کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں موجود اینٹی باڈیز مختلف جراثیم سے بچّے کو تحفّظ فراہم کرتی ہیں خاص طور پر ابتدائی دِنوں کا دودھ،یعنی ’’colostrum ‘‘جراثیم کے خلاف مدافعت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس لیے وہ بچّے کو ضرور پلانا چاہیے۔
ماں کے دودھ کے بچے کو فوائد
ماں کا دودھ پینے والا بچّہ عموماً موٹاپے اور ذیابطیس سے محفوظ رہتا ہے۔ ماں کے دودھ میں مختلف غذائی اجزا مثلاً چکنائی، نشاستہ، لحمیات، نمکیات اور وٹامنز متناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو بچّے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں، اسی لیے یہ دودھ پینے والے بچّے، دیگر بچّوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔
نیز، ماں کا دودھ پینے سے ماں اور بچّے میں مضبوط تعلق استوار ہوتا ہے۔ طبّی ماہرین کی جانب سے خصوصی ہدایت دی جاتی ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچّے کو ماں کے ساتھ لگا دیا جائے۔پھر چوں کہ ماں کا دودھ بہت خالص، جراثیم سے پاک اور مناسب درجہ حرارت پر بچّے کو ملتا ہے۔ تو بلاشبہ یہ بچّے کے لیے دنیا میں آنے کے بعد پہلا اور اَنمول تحفہ ہے،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں کے ذریعے ودیعت کیا جاتا ہے اور یہ بچّے کا حق بھی ہے۔
ماں کے لیے فوائد
یہ بچّے کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔نیز، اپنے بچّے کو دودھ پلانے سے ماں کو بھی بے شمار طبّی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً بچّہ جب دودھ پیتا ہے، تو ماں کے جسم میں ایک ہارمون ’’oxytocin‘‘ بنتا ہے، جس سے ماں کے مختلف اعضا اور جلد، جَلد اصل حالت میں آجاتے ہیں، خون کا بہاؤ جلد رْک جاتا ہے اور پیدائش کے بعد بہت زیادہ خون بہنے سے ہونے والے hemorrhage Postpartumکے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔نیز، یہ بچّوں میں وقفے کا ایک قدرتی طریقہ بھی ہے۔اسی طرح جو مائیں بچّوں کو دودھ پلاتی ہیں، اْن میں چھاتی اور تولیدی اعضا کے سرطان(کینسر) کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، پھر یہ کہ بچّوں کو اپنا دودھ پلانے والی مائیں بار بار بوتل اْبالنے کے تردّد سے بھی بچ جاتی ہیں۔
دودھ پلانے کا صحیح طریقہ
پہلی دفعہ ماں بننے والی خواتین کو دودھ پلانے میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اکثراوقات اْس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ناتجربہ کاری کے سبب دودھ پلانے کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہوتیں۔ اردگرد کے لوگ بھی جَلد بازی میں فوراً ڈبّے کا دودھ شروع کرنے کا مشورہ دے دیتے ہیں۔ جس سے ماں مزید پریشان ہوجاتی ہے۔بچّے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ باتیں ذہن میں رکھیں:
٭آرام دہ اور پْرسکون جگہ بیٹھ کر بچّے کو دودھ پلائیں۔ گھر کے باقی افراد کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ ماں کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ کسی الگ جگہ پر سْکون ہو کر بچّے کو وقت دے سکے۔ اِس طرح دودھ کی فراہمی بہتر ہوتی ہے۔
٭ ماں کو دودھ پلانے سے پہلے خود کم ازکم ایک گلاس پانی یا کوئی اور مشروب ضرور پی لینا چاہیے تاکہ دودھ میں کمی نہ ہو۔
٭گھر والوں کو اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ اجنبی لوگوں کی موجودگی اور ماں کی ذہنی پریشانی دودھ کے بہاؤکو متاثر کرتی ہے۔
٭دودھ پلاتے ہوئے بچّے کا سر اور بدن اگر داہنی طرف ہو، تو دائیں بازو پر یوں رکھا جائے کہ سر کْہنی کے قریب بازو پر ہو اور بچّے کا بدن اور داہنا بازو ماں کی طرف پلٹا ہوا ہو۔ ماں انگلی سے بچّے کے نتھنوں کو کْھلا رکھے تاکہ اْسے سانس لینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
٭ نپل کے گرد کا سیّاہ حصّہ بھی بچّے کے منہ میں جانا چاہیے، کیوں کہ دودھ سے بَھری نالیاں اْسی حصّے میں ہوتی ہیں۔ اگر بچّہ صرف نپل منہ میں لے گا، تو اْسے دودھ نہیں ملے گا اور نپل بھی زخمی ہوجائے گا اور پھر یہ سمجھا جائے گا کہ دودھ کی کمی ہے، حالاں کہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ دودھ پلانے کا طریقہ درست نہیں ہوتا۔ عموماً اگر طریقہ درست ہو، تو ماں کے دودھ میں کمی نہیں ہوتی۔
٭پیدائش کے وقت بچّے کا وزن کم ہو، تو اْسے کم وقفے سے دودھ پلانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اْس کا وزن نارمل ہوسکے۔ ایسے بچّے کو ہر دو گھنٹے بعد تقریباً15سے 20 منٹ تک درست طریقے سے ساتھ لگائیں۔ اگر کم زوری سے بچّہ جلد تھک جائے، تو دودھ نکال کر، نکلا ہوا دودھ چمچ یا ڈراپر کے ذریعے بھی پلایا جاسکتا ہے، جب کہ بریسٹ پمپ سے بھی دودھ نکالا جاسکتا ہے،(جب تک کہ بچّہ مکمل طور پر خود دودھ پینے کے قابل نہ ہوجائے)۔
٭دودھ دونوں طرف سے باری باری پلایا جائے، جب تک ایک طرف سے دودھ خالی نہ ہوجائے، سائیڈ نہ بدلی جائے۔
کم زور بچّے کے لیے اپنی ماں کا دودھ اور بھی ضروری ہے، اِس لیے ماؤں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دودھ ضائع نہ ہو۔ ماں اپنے بچّے کے لیے جو محنت کرے گی، یقیناً اللّٰہ اْس کا اجر دے گا۔یاد رہے، جڑواں بچّوں کے لیے بھی ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے ۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ بچّے کی تربیت و پرورش ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے اور جب ماں بچّے کو دودھ پلاتی ہے، تو اْس کے جذبات، مزاج، خیالات بھی بچّے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اِسی لیے صحابیاتِ کرام اپنے بچّوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتیں اور اِس دوران مسلسل ذکر و تلاوت کرتی رہتیں اور تب ہی اْن کی تربیت، اور اْن کی گودوں میں پلنے والے بچّے انسانیت کے روشن ستارے بنے۔
آج کے والدین کو بھی اِن باتوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کو مِل جْل کر پْرسکون رکھیں۔ یوں گھرانے کے باقی افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ ماؤں کو سہولت اور وقت دیں تاکہ وہ نومولود کو پوری توجّہ دے سکیں۔ علاوہ ازیں، ماں خود بھی اور دیگر افراد بھی ماں کی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں توپوری دنیا میں ماں کے دودھ کی افادیت کے پیشِ نظر ماؤں کو سہولتیں دی جا رہی ہیں، جب کہ ہمیں تو ساڑھے 14 سوسال پہلے ہی یہ اہمیت قرآنِ پاک اور نبی کریمﷺ نے سمجھا دی تھی۔
دودھ پلانے والی ماں کی خوراک
دودھ پلانے والی ماں کو اضافی حراروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ماں اور بچّے، دونوں کو بھرپور توانائی مل سکے، خصوصاً پہلے چھے ماہ میں جب کہ بچّہ صرف ماں کے دودھ پر ہوتا ہے، ماں کو خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔اِس دوران ماں کو تقریباً500حرارے خوراک سے ملنے چاہئیں، جو اضافی لحمیات، چکنائی، دودھ سے پورے کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اضافی کیلشیئم، آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامنز کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ مائیں حمل کے دَوران ہی متوازن خوراک کا استعمال شروع کردیں، جس میں تازہ سبزیاں، پھل، گوشت/قیمہ، مچھلی(موسم کے مطابق)، دالیں، دودھ اور دودھ سے بنی اشیا شامل ہوں۔ کھانوں کے درمیان وقفہ کم ہو اور دن میں7/8مرتبہ کھانا، کھانا چاہیے۔ ایک دن کی خوراک کا شیڈول درج ذیل ہوسکتا ہے۔
٭صبح 7 بجے ناشتا: انڈا، پراٹھا/ روٹی، دودھ۔
٭ 10:30بجے: شربت یا چائے، ساتھ میں بسکٹ، پنجیری، سینڈوچ وغیرہ۔
٭ایک بجے دوپہر: دوپہر کا کھانا، گھر میں بنا ہوا کھانا پیٹ بَھر کر کھائیں (روٹی، سالن، چاول، دہی، سلاد)۔
٭4 بجے شام: دودھ یا چائے کے ساتھ حلوہ/ بسکٹ یا ہلکی غذا، پھل یا شربت بھی لے سکتی ہیں۔
٭7 بجے، رات کا کھانا :گھر میں بنی ہوئی غذا دوپہر کی طرح پیٹ بَھر کرلیں۔
٭10بجے رات: دودھ کا گلاس۔
نیز، بستر کے قریب خشک بسکٹ، پھل، کھجور یا خشک میوہ جات ضرور رکھیں کہ چھوٹا بچّہ رات کو بھی دودھ پیتا ہے اور ماں کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی خوراک کے ساتھ ہلکی پْھلکی ورزش بھی کریں تاکہ صحت مند اور چاق چوبند رہیں۔ نیز، اپنی ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں اور تجویز کردہ ادویہ باقاعدگی سے لیں۔
جو بچّے ماں کے دودھ سے محروم رہیں، وہ بیماریوں اور غذائی قلّت کا جلد شکار ہوتے ہیں، اِس لیے حتی الامکان ڈبّے کے دودھ سے بچنا ضروری ہے۔ ماں کا دودھ اللّٰہ کا انعام اور نوزائیدہ بچّے کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے، جس میں ماں، بچّے اور نتیجتاً پوری قوم کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ لہٰذا گھروں اور اداروں میں ایسے انتظامات ہونے چاہئیں کہ مائیں اپنے بچّوں کو سہولت سے دودھ پلا سکیں۔ جب کہ قومی سطح پر ایسے قوانین وضع کرنے ضروری ہیں کہ جہاں بھی خواتین ملازمت کریں، وہاں چھوٹے بچّوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز ہوں اور خواتین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے بچّوں کو آرام و سکون سے دودھ پلاسکیں۔ کیوں کہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند بچّے ہی بعدازاں ایک صحت مند قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دودھ پلانے والی ماں کے دودھ میں اپنے بچ وں کو بچ ے کو دودھ ماں کا دودھ بچ ے کے لیے دودھ پینے پیدائش کے خوراک کا کی خوراک ہوتے ہیں ے ماں کے اور بچ ے کے ساتھ ہوتی ہے کہ دودھ جاتا ہے ماؤں کو ہوتا ہے بچ ے کا بچ ے کی ماں کی ماں کو ہے اور
پڑھیں:
اسٹریٹ کرائم میں کمی ضرور آئی مگر اسے ختم ہونا چاہیے، وزیراعلیٰ سندھ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یومِ شہدائے پولیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وسائل کی کمی کے باوجود ان کی حکومت اپنی بہادر پولیس فورس کے ساتھ پوری طرح کھڑی ہے۔
اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم اپنے شہداء کو صرف خراجِ تحسین نہیں بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے عملی حمایت، عزت اور ایسی پالیسیاں دیتے ہیں جو ان کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔
انہوں نے ان تمام پولیس اہلکاروں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔
یہ تقریب پاک فضائیہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ غلام نبی میمن، سابق آئی جی حضرات، سول سوسائٹی کے اراکین اور شہداء کے اہلِ خانہ نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ 4 اگست ملک بھر میں ہر سال یومِ شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ان پولیس افسران کی عظیم قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے جنہوں نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
انہوں نے شہداء کے لواحقین کو یقین دلایا کہ سندھ حکومت اور اس کے عوام ان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس محض ایک ادارہ نہیں بلکہ جرأت، فرض شناسی اور عوام کے تحفظ کی علامت ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت پولیس فورس کو مضبوط بنانے کے لیے انتظامی اور مالی خودمختاری کے اقدامات کرتی آ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال پولیس اسٹیشنز کی عملی ضروریات کے لیے 3.74 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شفافیت اور کارکردگی میں بہتری کے لیے اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) کو ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر (ڈی ڈی او) کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے قابلِ ذکر بہتری آئی ہے جن میں گاڑی چوری کے واقعات میں 67 فیصد اور اسٹریٹ کرائم میں 54 فیصد کمی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے حکومت پر تنقید جائز ہے کیونکہ عوام حکومت سے تحفظ مانگتے ہیں، اسٹریٹ کرائم کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کامیابیاں مؤثر پولیسنگ حکمتِ عملی اور جدید نگرانی کے نظام کا نتیجہ ہیں، جن میں "سیف سٹی پروجیکٹ" کے تحت نصب شدہ 350 سے زائد مصنوعی ذہانت سے لیس کیمرے شامل ہیں جن کی تعداد رواں سال کے آخر تک 1300 تک پہنچا دی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے حاضر سروس افسران کے لیے کئی نئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا جن میں 4.96 ارب روپے کے ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اجرا شامل ہے جس سے اب تک 15,000 سے زائد پولیس اہلکار مستفید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے پولیس اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن اور جدید سازوسامان بشمول بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری پر خطیر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ خاص طور پر کچے کے علاقوں میں پولیس کی کارکردگی اور تحفظ کو بہتر بنایا جا سکے۔ بجٹ میں مشکلات کے باوجود 1,900 سے زائد نئے اہلکاروں کی بھرتی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔
شہدائے پولیس کے لیے اعزازی پیکج پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت ان کے اہلِ خانہ کی مکمل سرپرستی جاری رکھے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 1971 سے اب تک سندھ میں 2,549 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جن میں چار سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی)، ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) اور 22 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) شامل ہیں۔ ان کا خون ہمارے امن کی ضمانت ہے۔ ہمیں ان کی یاد صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے زندہ رکھنی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی سے متعلق واقعات میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو اب 2 کروڑ 35 لاکھ روپے سے لے کر 7 کروڑ روپے تک کا معاوضہ دیا جا رہا ہے جبکہ پولیس مقابلوں یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں یہ رقم 2 کروڑ 35 لاکھ روپے سے 6 کروڑ روپے تک ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہداء کے اہلِ خانہ کو ان کی ریٹائرمنٹ کی فرضی عمر (60 سال) تک تنخواہ کی ادائیگی جاری رہتی ہے، ساتھ ہی 10 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس اور رہائش کے لیے بھی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ شہید افسران کی بیواؤں کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات، تعلیمی وظائف اور تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں کی سہولت بھی حکومت فراہم کرتی ہے۔ تعلیمی کارکردگی پر مالی انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ مستقل معذوری کی صورت میں تمام رینکس کو ایک کروڑ روپے دیے جاتے ہیں جبکہ عارضی معذوری کی صورت میں 25 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
سروس کے دوران بیماری یا حادثے کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر، رینک کی بنیاد پر 6 لاکھ سے 30 لاکھ روپے تک کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
انہوں نے پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ تربیت، ٹیکنالوجی، اور انفراسٹرکچر پر مزید سرمایہ کاری جاری رکھی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے ان تمام پولیس اہلکاروں کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے فرض کی راہ میں اپنی جانیں قربان کیں۔