لاہور ہائیکورٹ نے 16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر بحال کردیا، جسٹس ملک اویس خالد نے قرار دیاکہ محض انکوئری کی بنیاد پر کسی کو نوکری سے برخاست نہیں کیا جاسکتا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک اویس خالد نے تسنیم کوثر کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے 16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کی نوکری سے برخاست کرنے کے خلاف اپیل منظور کرلی۔جسٹس ملک اویس خالد نے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کا حق دیئے بغیر کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جاسکا، درخواست گزار کو 2009ء میں مس کنڈکٹ کی بنیاد پر لیب اسسٹنٹ کی نوکری سے برخاست کیا گیا، درخواست گزار نے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔عدالت نے 2014ء میں درخواست گزار کو نوکری پر بحال کردیا، محکمے نے عدالتی حکم کے باوجود درخواست گزار کو بحال نہیں کیا اور غیر معینہ مدت کے معطل کردیا، فیصلہ میں کہا گیاکہ 2014ء میں درخواست گزار کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کرکے شوکاز دیا گیا۔2015ء میں درخواست گزار کو دوبارہ نوکری سے برخاست کردیا گیا، درخواست گزار نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے 2021ء میں محکمے کو بغیر کسی دباؤ کے فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپیل نمٹا دی۔محکمے نے درخواست گزار کی نوکری پر بحال کرنے کی اپیل خارج کردی، درخواست گزار پر الزام تھا کہ بھرتی کے وقت اس نے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کروائے، انکوائری کے دوران درخواست گزار کو الزامات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔محکمے کا مؤقف تھا کہ درخواست گزار کے سرٹیفکیٹ تصدیق کے لئے متعلقہ ادارے کو بھجوائے گئے، انکوائری کے دوران متعلقہ ادارے سے کسی کو سمن نہیں کیا گیا، فیصلہ میں کہا گیاکہ عدالت نے خاتون کو نوکری سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے متعلقہ اتھارٹی کو درخواست گزار پر لگائے گئے الزامات کی دوبارہ انکوائری کی ہدایت کردی، عدالت نے درخواست گزار کے واجبات کی ادائیگی کو انکوائری کے فیصلہ سے مشروط کردیا، عدالت نے درخواست گزار کو 16سال بعد نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر بحال کردیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی. سپریم کورٹ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 اگست ۔2025 )سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر یا صفائی کا موقع دیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی بڑی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ فطری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے رپورٹ کے مطابق جسٹس عقیل احمد عباسی نے اپنے تحریر کردہ 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ بڑی سزا دینے کی صورت میں فطری انصاف کے اصول تقاضا کرتے ہیں کہ باقاعدہ انکوائری کی جائے اور سرکاری ملازم کو دفاع اور ذاتی سماعت کا مکمل موقع فراہم کیا جائے.

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی فنڈز سے متعلق مقدمات میں خصوصی احتیاط اور مکمل شفافیت کے ساتھ انکوائری کی جانی چاہیے تاکہ اگر کوئی خورد برد یا بدعنوانی ہوئی ہو تو اس سے متعلقہ رقم بازیاب کی جا سکے اور ذمہ دار اہلکار کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے یہ فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی کی سربراہی میں قائم بینچ نے سنایاجس میں جسٹس عقیل احمد عباسی بھی شامل تھے بینچ نے ملک محمد رمضان کی پنجاب سروس ٹربیونل لاہور کے 24 جنوری 2022 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی.

یہ معاملہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر/ڈسٹرکٹ کلیکٹر میانوالی کی جانب سے ملک محمد رمضان کو پنجاب ایمپلائز ایفیشنسی، ڈسپلن اینڈ اکاﺅنٹیبلٹی ایکٹ 2006 (پیڈا) کے تحت فنڈز کی خورد برد اور جعل سازی کے الزامات میں ملازمت سے برخاست کیے جانے سے متعلق ہے، رمضان پر الزام تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے دستخط کروا کر چیکوں کی رقم میں جعل سازی کے ذریعے اضافہ کیا.

انہوں نے پہلے محکمانہ اپیل دائر کی جو 11 نومبر 2016 کو مسترد کر دی گئی، بعد ازاں ان کی نظرثانی کی درخواست بھی 2 مارچ 2018 کو رد کر دی گئی جس کے بعد انہوں نے ٹربیونل سے رجوع کیا ٹربیونل نے ان کی اپیل 24 جنوری 2022 کو مسترد کر دی جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا. سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چیکوں میں رقوم کی تبدیلی اور فنڈز کی مبینہ خورد برد کے الزامات کو حتمی شواہد کے ساتھ ثابت کرنا ضروری تھا اور اس سلسلے میں مخصوص تفصیلات سامنے لا کر ملزم کا سامنا کرایا جانا چاہیے تھا جسٹس عقیل کے مطابق لیکن نہ تو چیک کسی ہینڈ رائٹنگ ماہر کو تصدیق کے لیے بھیجے گئے نہ ہی انکوائری کے ایسے اقدامات نظر آتے ہیں فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ تحقیقات کرنے والے افسر اور شکایت کنندہ ایک ہی شخص، غلام مصطفیٰ شیخ تھے جو انہی چیکوں کے مصنف اور دستخط کنندہ بھی تھے جن میں تبدیلی کا الزام لگایا گیا عدالت نے نوٹ کیا کہ غلام مصطفیٰ کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے تفتیشی افسر کی جانبداری اور ملک رمضان کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کیے جانے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا.

سپریم کورٹ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاملے میں احتیاط اور شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا انکوائری کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی مضبوط یا قابل اعتماد شواہد فراہم کیے گئے اس کے علاوہ، درخواست گزار کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا جبکہ انہیں ملازمت سے برخاست کرنے جیسی بڑی سزا سنا دی گئی. سپریم کورٹ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور درخواست گزار کو دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا حکم جاری کیاساتھ ہی کیس کو متعلقہ محکمانہ اتھارٹی کو واپس بھیج دیا گیا تاکہ نئے سرے سے انکوائری کی جا سکے اور ملک رمضان کو پیڈا ایکٹ کی دفعات 9 اور 10 کے تحت صفائی کا مکمل موقع فراہم کیا جائے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسی انکوائری فیصلہ موصول ہونے کے 3 ماہ کے اندر مکمل کی جانی چاہیے.

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل کو عدالت سےبڑا ریلیف مل گیا
  • زرتاج گل کی 11 اگست تک حفاظتی ضمانت منظور
  • 16سال بعد خاتون سرکاری ملازم کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار‘اپیل منظور
  • سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی. سپریم کورٹ
  • شہری خرم شاہ کی بازیابی کا معاملہ لاپتہ افراد کمیشن میں بھیجنے کا حکم
  • بلوچستان حکومت کا سرکاری نوکری کے لیے عمر کی حد برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • حکومت بلوچستان کا سرکاری نوکری کے لیے عمر کی حد برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • کوہستان سکینڈل، پشاور ہائیکورٹ نے نیب کو ملزم مہتاب شاہ کی گرفتاری سے روک دیا
  • کوہستان اسکینڈل: پشاور ہائیکورٹ نے نیب کو سید مہتاب شاہ کی گرفتاری سے روک دیا