اے آئی چشمے فونز اور کمپیوٹرز کی جگہ لے لیں گے، جو لوگ نہیں پہنیں گے وہ۔۔۔زکربرگ نے بڑی پیشگوئی کردی
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے حال ہی میں کہا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کا اے آئی کے ساتھ بنیادی رابطہ موبائل فونز یا کمپیوٹرز کے ذریعے نہیں بلکہ اے آئی چشموں کے ذریعے ہوگا۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو افراد یہ چشمے استعمال نہیں کریں گے، وہ دوسروں کے مقابلے میں ذہنی لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور کمزور تصور کیے جائیں گے۔
یہ بیان انہوں نے میٹا کی Q2 2025 کی آمدنی کانفرنس کے دوران دیا، انہوں نے واضح کیاکہ میرا یقین اب بھی یہی ہے کہ چشمے ہی اے آئی کے لیے بہترین ذریعہ ہوں گے، کیونکہ یہ اے آئی کو وہ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی صلاحیت دیتے ہیں جو آپ خود دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ان چشموں میں ڈسپلے فنکشن شامل کیا جائے گا — جیسا کہ مستقبل میں لانچ کیے جانے والے Orion AR Glasses — اس سے ان کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
زکربرگ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مستقبل میں اگر آپ کے پاس ایسے چشمے یا آلات نہیں ہوں گے جو اے آئی کے ساتھ مسلسل رابطے کی سہولت دیں، تو آپ دوسروں کے مقابلے میں ذہنی برتری میں پیچھے ہوں گے۔
میٹا کی حکمت عملی اور موجودہ پیش رفت
حالیہ برسوں میں میٹا نے اپنی ریئلٹی لیبز (Reality Labs) ڈویژن میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے تاکہ اسمارٹ گلاسز اور اے آر (Augmented Reality) ڈیوائسز تیار کی جا سکیں۔
Ray-Ban Meta چشمے، جو Ray-Ban کے اشتراک سے بنائے گئے، اور اب Oakley کے ساتھ ایک نیا ماڈل بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے، اس وقت سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والی مصنوعات میں شامل ہیں۔ یہ چشمے تصاویر لینے، ویڈیوز ریکارڈ کرنے، میوزک چلانے، اور وائس اسسٹنٹ جیسے فیچرز سے لیس ہیں — صارفین میٹا اے آئی سے براہ راست پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔
عینک ساز کمپنی EssilorLuxottica کے مطابق، Ray-Ban Meta چشموں کی فروخت توقعات سے کہیں زیادہ رہی ہے، جن میں سالانہ بنیادوں پر تین گنا اضافہ ہوا ۔اسی کے ساتھ Reality Labs ڈویژن کو بھی اس سہ ماہی میں تقریباً 5 فیصدترقی حاصل ہوئی ہے۔
تاہم ریئلٹی لیبز اب بھی میٹا کے لیے سب سے بڑا مالی بوجھ ہے۔ اس سہ ماہی میں 4.
اے آئی چشمے: صرف میٹا ہی نہیں
میٹا واحد کمپنی نہیں جو اے آئی آلات کو مستقبل سمجھ رہی ہے۔ اس سال OpenAI نے مشہور ڈیزائنر جونی آئیو کے اسٹارٹ اپ کو 6.5 ارب ڈالر میں خریدا، تاکہ اے آئی کے ساتھ انٹرایکشن کے لیے نئی نسل کی کنزیومر ڈیوائس بنائی جا سکے۔
مگر زکربرگ کے مطابق اس وقت “چشمے” ہی سب سے معقول اور مؤثر ذریعہ ہیں جو ڈیجیٹل اور فزیکل دنیا کے درمیان پُل بن سکتے ہیں۔
میٹا کی تیزرفتار اے آئی جنگ میں شمولیت
اے آئی کی دوڑ میں سبقت لینے کے لیے میٹا نے حالیہ برسوں میں ٹیلنٹ ہنٹ میں بھی جارحانہ حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ مالی رپورٹس کے مطابق میٹا نے Scale AI میں15 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی، جس کے نتیجے میں اس کے سی ای او الیگزینڈر وانگ کو اپنی ٹیم میں شامل کیا اور OpenAI کے کم از کم چار اہم ملازمین کو بھی اپنی طرف راغب کیا — جن میں سے ایک ChatGPT کا شریک بانی بھی ہے۔
کیا اے آئی چشمے واقعی مستقبل کی حتمی ڈیوائس بنیں گے؟
یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر ایک بات واضح ہے کہ میٹا ایک بار پھر ٹیکنالوجی کی دنیا میں بازی لے جانے کے لیے تیار ہے — جیسے کبھی فیس بک نے سوشل میڈیا کی دنیا بدل دی تھی، ویسے ہی اب یہ کمپنی چاہتی ہے کہ لوگ ٹیکنالوجی سے جُڑنے کے طریقے کواے آئی چشموں کے ذریعے مکمل طور پر نئی شکل دے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اے ا ئی کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-3
متین فکری
ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی تو اپنے ہیروز اور محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں انہیں عزت و توقیر اور مقبولیت کے بلند ترین مقام پر بٹھاتے ہیں لیکن جو لوگ حکمران وقت ہوتے ہیں وہ اس مقبولیت سے حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں اور قوم کے محسنوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ انسانیت شرمانے لگتی ہے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ابھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے تو بھارت کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو کیے لیکن ڈاکٹر خان نے گولڈٹسٹ کے ذریعے پاکستان کو بہت پہلے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار کردیا تھا۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور حکومت تھا، پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلی ہوئی تھی بھارت اپنی فوج کا بڑا حصہ سرحدوں پر لے آیا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر خان نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں جنرل ضیا الحق کو بریفنگ دی اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو وارننگ دی کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ہم تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ وارننگ اتنی دو ٹوک اور واضح انداز میں دی گئی تھی کہ راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئے اور اس نے بھارتی فوجوں کو سرحدوں سے واپس بلالیا۔
بھارت نے مئی 1998ء کے آغاز میں 4 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ بالکل بدل گیا تھا۔ وہ پاکستان کو مسلسل ڈرانے اور دبانے کی کوشش کررہا تھا۔ چنانچہ پاکستان پر بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس وقت میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ ان کی کابینہ کے اکثر ارکان ایٹمی دھماکا کرنے کے مخالف تھے، امریکا کا بھی میاں نواز شریف پر دبائو تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں صدر کلنٹن نے انہیں اربوں ڈالر کی پیش کش کی تھی لیکن بزرگ صحافی مجید نظامی کی وارننگ کام کر گئی انہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکا کردے گی‘‘۔ چنانچہ میاں صاحب نے نہ چاہتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کی جگہ کوئی بھی وزیراعظم ہوتا تو اسے یہ کام کرنا پڑتا کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ انہوں نے صرف حکم دیا تھا۔ دھماکے تو اس ٹیکنیکل ٹیم نے کیے تھے جو اس مقصد کے لیے چاغی (بلوچستان) گئی تھی، البتہ میاں نواز شریف کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایٹمی صلاحیت کا کریڈٹ ڈاکٹر خان سے چھیننے کی کوشش کی تھی اور ان کے مقابلے میں ایک اور سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو آگے لایا گیا تھا اور ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ کوشش بُری طرح ناکام رہی اور عوام نے ڈاکٹر خان کو ہی سر آنکھوں پہ بٹھایا اور انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق اور ہیرو قرار دیا۔
نائن الیون کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا تو امریکا کی حریصانہ نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی پڑنے لگیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر فوج کی تحویل میں تھا۔ ڈاکٹر خان اس پروگرام کے بانی اور معمار ضرور تھے لیکن انہیں من مانی کرنے کی آزاد نہ تھی سب کچھ فوج کے کنٹرول میں تھا لیکن امریکا نے نہایت بددیانتی کے ساتھ ڈاکٹر خان کے خلاف ایٹمی پھیلائو کی مہم شروع کردی، ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایران، شمالی کوریا اور دیگر ملکوں کو غیر قانونی طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرکے دنیا میں خطرناک ایٹمی پھیلائو کے مرتکب ہورہے ہیں جس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میں ڈاکٹر خان کے خلاف یہ مہم اتنی بڑھی کہ امریکا نے اس کی آڑ میں ڈاکٹر خان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف سے کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کردیں۔ جنرل پرویز مشرف پہلے ہی امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے وہ امریکا کے اس دبائو کا سامنا نہ کرسکے اور آمادہ ہوگئے، چنانچہ امریکی طیارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لینے کے لیے آگیا اور نور خان ائر بیس پر کھڑا ہوگیا لیکن ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری ضروری تھی۔ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کی قومی غیرت آڑے آگئی انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اصرار کے باوجود کابینہ کا اجلاس بلانے اور ڈاکٹر خان کی امریکا منتقلی کے حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اس طرح امریکی طیارہ کئی دن تک ائر بیس پر کھڑا رہنے کے بعد خالی واپس چلا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا ڈاکٹر خان کو اپنی تحویل میں لے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بیان دلوانا چاہتا تھا اور اس بیان کی روشنی میں وہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرکے اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم کردیتا لیکن ظفر اللہ جمالی کی مخالفت نے اس کا یہ منصوبہ ناکام بنادیا۔ اگرچہ جمالی کو اس کی قیمت وزارت عظمیٰ سے برطرفی کی صورت میں ادا کرنا پڑی لیکن وہ پاکستان پر احسان کرگئے۔
ڈاکٹر خان کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان سے ٹیلی فون پر باقاعدہ معافی منگوائی اور انہیں ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے اعترافی بیان دینے پر مجبور کیا۔ انہیں ان کے قائم کردہ ادارے کے آر ایل کہوٹا کی سربراہی سے محروم کردیا گیا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی گئی اور انہیں عملاً نظر بند کردیا گیا۔ انہوں نے باقی زندگی اسی حال میں گزاری۔ ان کا انتقال ہوا تو حکمرانوں میں سے کوئی بھی ان کے جنازے میں نہیں گیا۔ البتہ عوام نے بڑی تعداد میں ان کے سفر آخرت میں شرکت کی۔ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں جس شخص کا چرچا کیا جارہا ہے اور یوم تکبیر کے موقع پر سرکاری اشتہارات میں جس کی تصویر لگائی جارہی ہے وہ مر گیا تو کوئی اس کا نام لیوا بھی نہ ہوگا۔