UrduPoint:
2025-09-23@08:06:53 GMT

میری کہانی: غزہ کے کھنڈروں میں آس و یاس کی داستان

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

میری کہانی: غزہ کے کھنڈروں میں آس و یاس کی داستان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اگست 2025ء) 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے حملوں سے 21 ماہ بعد غزہ کی جنگ میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے ہیں، آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں اور کسی شہری کے پاس زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے والے ایک مقامی صحافی نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ غزہ کے باسیوں کو اس جنگ کا مفہوم سمجھنے کے لیے طویل وضاحتوں کی ضرورت نہیں۔

آسمان پر ہر وقت جنگی طیاروں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے اور ان کے حملے اس خوف کے سوا ہر شے کو تباہ کر دیتے ہیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا لیکن بے گھر فلسطینیوں کی خیمہ بستیوں میں ہر جا پھیل چکا اور ان کے جسموں میں سرایت کر گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ راتوں کو مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے اور صرف بمباری کی چمک دکھائی دیتی ہے۔

(جاری ہے)

لوگ یہ سوچ کر سوتے ہیں کہ نجانے وہ زندہ جاگیں گے یا نہیں۔

غزہ میں ہر صبح جینے کی نئی کوشش اور ہر شام بقا کی نئی جدوجہد ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد وہ مسلسل بے گھری کی زندگی گزار رہے ہیں اور لوگوں کی مایوسی اور جنگی حالات کے بارے میں خبریں دیتے ہیں جبکہ ان کی اپنی زندگی بھی انہی لوگوں جیسی ہے۔

نومبر 2023 میں ان کا گھر تباہ ہو گیا تھا اور تب سے خیمہ ہی ان کی واحد پناہ گاہ ہے۔

ان کا خاندان اب اُن داستانوں کا حصہ بن چکا ہے جو وہ دنیا کو سناتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں زندگی المناک ہے۔ زمین پر سونا، لکڑی جلا کر کھانا بنانا اور روٹی کے ایک نوالے کی تلاش میں گھنٹوں خوار ہونا اس سفاکانہ جنگ کی حقیقت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 14 سالہ بیٹے کی آنکھوں میں اس جنگ کا عکس دیکھتے ہیں جو اس کا بچپن نگل گئی ہے اور اس پر عمر سے کہیں بھاری بوجھ ڈال دیے ہیں۔

اب وہ بخوبی جانتا ہے کہ پینے کا پانی کہاں ملے گا اور اسے روٹی حاصل کرنے کے لیے سودے بازی کرنا آ گیا ہے۔

وہ اس کی بہادری پر فخر کے ساتھ ایک کرب ناک سی بے بسی بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لیے اسے اُس تباہی سے بچانا ممکن نہیں جو ہر جانب چھائی ہے۔

© UNICEF/Mohammed Nateel غزہ میں حملے کا نشانہ بننے والے ایک سکول زخمی ہونے والا ایک لڑکا۔

امید کا نخلستان

وہ کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ اپنے بچوں کے لیے امید کا نخلستان بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی دو بڑی بیٹیوں کو جب کبھی انٹرنیٹ میسر ہو تو وہ آن لائن تعلیم حاصل کرتی ہیں یا جو بھی کتاب ہاتھ آئے اسے پڑھ لیتی ہیں۔

ان کی سب سے چھوٹی بیٹی پرانے گتے کے ٹکڑوں پر تصویریں بناتی ہے جب کہ چار سال عمر کے چھوٹے بیٹے کو بموں کی آوازوں کے سوا کچھ اور یاد نہیں ہوتا۔

وہ اس کے معصوم سوالات کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ غزہ میں نہ سکول باقی رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم۔ ان حالات میں وہ بچوں میں بچپن کی چمک برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غزہ میں 6 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔

اس کی وجہ سکولوں کی تباہی اور محفوظ تعلیمی ماحول کا نہ ہونا ہے۔

ان حالات میں پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ہے۔

UN News غزہ کے ایک بچے کی ڈرائنگ جس میں دکھایا گیا ہے کہ امدادی ٹرکوں تک پہنچنے کی کوشش میں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔

المیوں کی گواہی

انہوں نے بتایا کہ وہ دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور دن بھر ہسپتالوں، سڑکوں اور پناہ گاہوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا صحافتی سامان صرف واقعات کو ریکارڈ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اُن لوگوں کی آواز بننے کے لیے اٹھائے پھرتے ہیں جن کی آوازیں خاموش کر دی گئی ہیں۔

وہ ایسے بچے کی ویڈیو بناتے ہیں جو شدید غذائی قلت کا شکار ہے، ایک ایسے شخص کی کہانی سنتے ہیں جس نے سب کچھ کھو دیا اور ایک ایسی عورت کے آنسو دیکھتے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے کھانا مہیا نہیں کر سکتی۔

وہ ایک ایسا منظر ریکارڈ کرتے ہیں جو روزانہ دہرایا جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ آٹے کے ٹرک تک پہنچنے کی کوشش میں بھاگتے اور زمین پر گرنے والے اناج کے بچے کھچے دانے چنتے ہیں۔ خطرہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اب ایک روٹی مل جانا زندگی سے زیادہ اہم ہے۔

امدادی قافلوں کے راستوں میں اور خوراک کی تقسیم کے مراکز پر متواتر ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کام کرتے ہوئے ہر آواز پر چونک جاتے ہیں جیسے ہر موڑ پر موت کا سامنا ہونے والا ہو۔ اب حیرت یا غم کے لیے وقت نہیں بچا، صرف ایک مسلسل تناؤ اور بے چینی رہ گئی ہے جو اب لوگوں کی فطرت میں شامل ہو چکی ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جو کیمرے نہیں دکھاتے، مگر غزہ کے صحافی روزانہ دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

© WHO عالمی ادارہ صحت کی ایک اہلکار بمباری کا نشانہ بننے والے غزہ کے ایک ہسپتال کی تباہی کا اندازہ لگا رہی ہیں۔

ہمدردوں کے آنسو

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کی کوششوں کو بھی دستاویزی شکل میں محفوظ کرتے ہیں۔ وہ ان اداروں کے عملے کو بروقت امداد پہنچانے کے لیے گاڑیوں میں سوتا اور غزہ کے لوگوں کے لیے روتا دیکھ چکے ہیں۔

غزہ آنے والی امداد ناکافی ہے۔ سرحدی گزرگاہیں اچانک کھلتی اور بند ہوتی ہیں، اور بعض علاقوں کو کئی دنوں تک کوئی مدد نہیں ملتی۔

غزہ شہر کے مغربی علاقے بھر چکے ہیں۔ ہر گوشے میں، فٹ پاتھوں پر اور تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے درمیان خیمے دکھائی دیتے ہیں۔

خالی ہاتھ، خالی بازار

غزہ میں مقامی کرنسی کی قدر ختم ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کے اکاؤنٹس میں رقم ہے، وہ اسے نکالنے کے لیے 50 فیصد تک فیس ادا کرتے اور پھر خالی بازاروں کا سامنا کرتے ہیں۔

جو بھی شے دستیاب ہے، وہ ناقابل برداشت قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔

سبزیاں نایاب ہیں، اور اگر مل بھی جائیں تو ایک کلو کی قیمت 30 ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

پھل اور گوشت اب لوگوں کی یادوں میں ہی باقی ہیں۔

صحت کا نظام مکمل تباہی کا شکار ہے کیونکہ 85 فیصد ہسپتال غیرفعال ہیں اور ڈائیلیسز اور کینسر کے علاج کی بیشتر سہولیات بند ہو گئی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والدین ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں جن کے لیے وہ دوا کا بندوبست نہیں کر سکتے۔

ان کے بھائی ایک فضائی حملے میں زخمی ہو گئے تھے جن کی زندگی بچانے کے لیے سرجری کی کوئی امید نہیں رہی۔ © UNRWA غزہ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی ایک خیمہ بستی۔

ہر دن نیا سوال

ان کا کہنا ہے کہ کبھی انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دو شناختوں کے درمیان پھنسے ہیں۔ ان میں ایک شناخت صحافی کی ہے جو لوگوں کی تکالیف کو ریکارڈ کرتا ہے اور ایک ایسے انسان کی ہے جو خود انہی تکالیف کا شکار ہے۔

پھر وہ سوچتے ہیں کہ شاید غزہ کے صحافیوں کی قوت یہی ہے کہ اسی علاقے سے اور دیگر لوگوں جیسے المیوں کا سامنا کرتا ہوئے دنیا کو ان حالات سے آگاہ کیا جائے جن کا یہاں کے لوگ روزانہ سامنا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں:

غزہ میں ہر دن ایک نیا سوال لے کر آتا ہے کہ

آیا ہم زندہ بچیں گے؟

کیا ہمارے بچے پانی کی تلاش سے واپس لوٹیں گے؟

کیا جنگ ختم ہو گی؟

کیا سرحدی گزرگاہیں کھلیں گی تاکہ امداد پہنچ سکے؟

یہاں سے ہم آگے بڑھتے رہیں گے، کیونکہ ان کہی کہانیاں مر جاتی ہیں اور غزہ کے ہر بچے، ہر عورت اور ہر مرد کا حق ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔

میں ایک صحافی ہوں۔

میں ایک باپ ہوں۔

میں بے گھر ہوں۔

اور میں ہر واقعے کا گواہ ہوں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کا کہنا ہے کہ وہ کہتے ہیں بتایا کہ کرتے ہیں لوگوں کی ہیں اور کی کوشش بے گھر غزہ کے ہیں کہ ہیں جو ہے اور کے لیے ہیں وہ

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین سے متعلق پروپیگنڈہ کرنیوالے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء ) حکومت نے ایچ پی وی ویکسین سے متعلق پروپیگنڈہ کرنیوالے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی مہم کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈہ کے معاملے پر اہم فیصلہ کرتے ہوئے ایچ پی وی ویکسین سے متعلق پروپیگنڈہ کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بندکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے وزارت صحت نے این سی سی آئی اے کو خط لکھ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ این سی سی آئی اے کینسر ویکسین مخالف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے، کینسر ویکسین کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے جائیں۔

دوسری طرف وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کراچی میں اپنی صاحبزادی کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین لگوا دی، کراچی میں سروائیکل کینسر سے بچاؤ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ویکسین بڑی مشکل سے ہم نے حاصل کی ہے لیکن لوگ اس پر فتویٰ لگا رہے ہیں جو افسوس کی بات ہے، پاکستان دنیا کا 191واں ملک ہے جہاں یہ ویکسین لگائی جا رہی ہے، بہت سے اسلامی ممالک میں بھی یہ ویکسین لگائی جاچکی ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کے حوالے سے بہت گمراہ کن افواہیں زیر گردش ہیں، میری یہ کوشش ہے کہ میرے ملک کی ہر بیٹی کو یہ ویکسین لگائی جائے، اگر کسی ایک کی بھی جان اس گمراہ کن افواہوں کی وجہ سے جاتی ہے تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا، میں اپنی بیٹی کو لے کر آیا ہوں، یہ میری اکلوتی بیٹی ہے اور اس سے میں نے بات کی ہے کہ وہ اس ویکسین کو لگوائے، میں رب کی رضا کیلئے کام کررہا ہوں، میری فیملی سے کوئی بھی کبھی کیمرے کے سامنے نہیں آیا لیکن ان گمراہ کن افواہوں کو ختم کرنے کیلئے میری بیٹی سامنے آئی۔

مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ میری کوئی بھی بیٹی خود کو اس ویکسین سے دور نہ رکھے، میں اپنی قوم کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں موجودہ نظام کے تحت ہر پاکستانی کا علاج نہیں ہوسکتا، ہمارا نظام یہ ہے کہ ایک ایک کرکے ہسپتالوں میں آتے رہتے ہیں، اور وہیں رک جاتے ہیں، درحقیقت ہمیں بیماریوں سے بچنا ہے، بچیوں کی ویکسینیشن کے بعد امید ہے خواتین 10 سال بعد سروائیکل کینسر کی وجہ سے جانیں نہیں گنوائیں گی، اس مہم کےآغاز سے ہی گمراہ کن پروپیگنڈا سامنے آرہا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اپنی بیٹی کو یہ ویکسین لگوانے کا فیصلہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • گوجرانوالا میں جیل میں جو بیت رہی ہے ایک انتہائی دلخراش داستان ہے
  • بلاک بسٹر فلم ’دریشم‘ کے تیسرے سیکوئل کی شوٹنگ کا آغاز ہوگیا
  • ‘میری زندگی کا ساتھی، میرا بھانجا، میرا داماد ، وہ اب پوری قوم کا فخر ہے’
  • ‘اجے دیوگن میری اداکاری اور انداز کی نقل کرتے ہیں،’ سینیئر اداکار توقیر ناصر کا بڑا انکشاف
  • معرکہ حق: کمسن مجاہد ارتضیٰ عباس شہید کے عزم و ہمت کی لازوال داستان
  • بجٹ خسارے کی کہانی
  • غزہ: موت اور بھوک سے بے وسیلہ لوگوں کا پیدل فرار
  • لوگوں سے مودی مودی کے نعرے لگوانا خارجہ پالیسی نہیں ہے، کانگریس
  • پشاور جلسے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اب نکل آئے ایک کروڑ ، مگر ایسا نہیں ہو گا، علی امین گنڈا پور
  • ایچ پی وی ویکسین سے متعلق پروپیگنڈہ کرنیوالے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا فیصلہ