شلوارقمیض پہننے پر خاتون کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
بھارت میں ایک ریسٹورنٹ کے منیجر نے خاتون کو روایتی لباس یعنی شلوار قمیض پہننے کی وجہ سے داخلے سے روک دیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جوڑا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آیا تھا، لیکن خاتون کو ملبوسات کی وجہ سے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ جوڑے نے الزام لگایا کہ منیجر نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی، جبکہ وہ گاہک جو پینٹ اور شرٹ میں ملبوس تھے، انہیں بغیر کسی روکاوٹ کے داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
ریسٹورنٹ کے مالک نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جوڑے نے اپنی ٹیبل بک نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے انہیں داخلے سے روکا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ کی کوئی ڈریس کوڈ پالیسی نہیں ہے اور وہ تمام گاہکوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد بھارتی وزیر کپل مشرا نے میڈیا کو بتایا کہ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے آئندہ کے لیے کسی کو بھی لباس کی بنیاد پر پابندی نہ لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے رکشا بندھن کے موقع پر بھارتی روایتی لباس پہن کر آنے والی خواتین کو خصوصی رعایت دینے کا اعلان بھی کیا۔
Post Views: 6.
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’آپ سے ایک گھریلو خاتون بازیاب نہیں ہورہی‘، چیف جسٹس عالیہ نیلم کی آئی جی پنجاب پولیس کی سرزنش
کاہنہ کی رہائشی مغوی خاتون فوزیہ کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بروقت تفتیش کی جاتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹرعثمان انور عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور کیس کی پیش رفت پر عدالت کو آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس اس مقدمے کو انسانی اسمگلنگ کے زاویے سے بھی دیکھ رہی ہے، کیونکہ پنجاب پولیس اب تک 100 سے زائد بچیوں کو ہیومن ٹریفکنگ کے کیسز میں بازیاب کرا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 214 افسران کی سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر، لاہور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کر لیا
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام صوبوں کے آئی جیز کو بھی خطوط لکھے گئے ہیں تاکہ اگر کسی کے علم میں کوئی معلومات ہوں تو فراہم کی جا سکیں۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مغوی فوزیہ کا کوئی فنگر پرنٹ ریکارڈ موجود نہیں ہے،
تاہم پولیس نے اس مقام کی مکمل چھان بین کی ہے جہاں وہ رہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خاتون کا ایک بچہ بھی تھا جو شادی کے 5 برس بعد ہوا۔
مزید پڑھیں: پنجاب آگاہی اور معلومات کی ترسیل ایکٹ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
پولیس رپورٹ کے مطابق جب فوزیہ گھر سے گئی تو اس وقت بچہ صرف 3 ماہ کا تھا، جسے وہ پیچھے چھوڑ گئی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ابتدا میں یہ کہا گیا کہ خاتون کو اغوا کر کے لے جایا گیا، لیکن اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ وہ اپنا سارا سامان سمیٹ کر خود ہی گئی تھیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا لڑکی کی ساس کا پولی گراف ٹیسٹ کرایا گیا؟
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں جنات کے خلاف خاتون کے اغوا کا مقدمہ زیرسماعت، تحقیقاتی کمیٹی سرگرم
جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ مغوی خاتون کی ساس سمیت تمام اہلِ خانہ کے پولی گرافک ٹیسٹ کرائے گئے ہیں، ساس کے فون سے 109 کالز کا بھی فورینزک تجزیہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں سے ایک گھریلو خاتون بازیاب نہیں ہو رہی، اگر بروقت تفتیش کی جاتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خاتون زندہ ہے یا نہیں، اس حوالے سے مثبت پیش رفت اور واضح جواب درکار ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
عدالت نے آئی جی پنجاب کو 10 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو بھی ہدایت کی کہ اگر ان کے علم میں کوئی نئی بات آئے تو فوراً پولیس کو آگاہ کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی جی پولیس پنجاب جسٹس عالیہ نیلم چیف جسٹس عثمان انور فوزیہ کاہنہ گھریلو خاتون ہیومن ٹریفکنگ