Express News:
2025-11-09@03:38:50 GMT

پروفیسر، ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

اُستاد کی اہمیت کا اندازہ بطلیموس کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ ’’ اُستاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعہ سے مفید ہے‘‘ کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے انسان عقل و شعور کی منازل طے کرتا ہے، اس پر علم و آگہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور دنیا سمٹ کر اس کے قدموں میں آ گرتی ہے۔

ایسے ہی بے مثال و باکمال لوگوں کی فہرست میں پروفیسر عبد الماجد حمید المشرقی کا شمار بھی ہوتا ہے۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک علمی، ادبی مذہبی اور روحانی مقام و مرتبے پر فیض کیا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک قدیم اور تاریخی شہر گوجرانوالہ سے ہے، ان کے آباء و اجداد تقریبا سات پشتوں سے اسی شہر میں مقیم ہیں۔

انھوں نے 2 مارچ1963 اسلامی مہینے کے مطابق ستائیس رمضان المبارک جمعہ کی شب عبدالحمید کے ہاں آنکھ کھولی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ’’تعلیم القرآن‘‘ اپنی والدہ بیگم اقبال حمید سے حاصل کی، دنیاوی تعلیم کے لیے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ عطا محمد اسلامیہ اسکول نمبر ایک سے تیسری پوزیشن کے ساتھ پاس کیا، فرسٹ ایئر سے بی اے تک گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے تعلیم حاصل کی اور پورے پنجاب میں بی اے میں پہلی پوزیشن پر گولڈ میڈل حاصل کیا، ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔

علم کے موتی اکٹھے کرنے کے لیے انھوں نے سعودی عرب، عدن،کشمیر، دبئی، شام، ایران اور عراق جیسے ممالک کے مطالعاتی سفر بھی کیے، اس دوران بھی نورِ علم کا حصول ہی ان کی زندگی کا مقصد رہا۔ انھیں مشرقی تہذیب اچھی لگتی ہے، اسی لیے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’مشرقی‘‘ لکھنا پسند کرتے ہیں۔

 ڈاکٹر عبدالماجد علم کا وہ چشمہ ہے جسے دیکھ کر پینے کو ہر کسی کا جی چاہتا ہے، وہ جہاں زندگی میں دوسروں کے کام آتے ہیں، وہیں اپنے بہن بھائیوں کے معاملے میں بھی بہت حساس اور ہمدرد نظر آتے ہیں، انھوں نے اپنے تمام بھائیوں کو بہتر روزگارکے لیے پہلے اسٹینڈ کیا اور پھر اپنے لیے کنگنی والا میں مدرسے اور کالج کے لیے جگہ خرید کر ’’ المشرقی تعلیم القرآن‘‘ مدرسے کی بنیاد رکھی جو تین سال تک مدرسہ رہا پھر کچھ سال بعد مدرسے کی تعلیم دینی ناظرہ حفظ کروانے کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا جب سلسلہ شروع ہُوا تو اس ادارے کا نام ’’ مشرق سائنس کالج‘‘ رکھ دیا گیا جو پرائمری سے مڈل اور پھر ہائی کلاسز تک ترقی پانے میں کامیاب ٹھہرا جو یقینا اللہ کی مدد اور ان کی انتھک محنت اور لگن کے ثمرات کا صلہ تھا۔

انھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو نہ صرف پڑھا اور سمجھا بلکہ ان احکامات پر پوری طرح سے عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کی۔ ان کی درویش طبع شخصیت پر عاجزی و انکساری کا رنگ اقبال کے اس شعر کی صورت میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

 ان کے شعبہ درس و تدریس کے سفر کو چالیس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے باوجود وہ آج بھی تعلیمی ادارے کے ذریعے تعلیم کو عام کرنے اور ہماری آنے والی نسلوں کو بہتر زندگی کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ایسی تعلیم انسان کو تمیز اور ادب نہ سیکھا سکے، ایسی تعلیم اساتذہ کی کارکردگی پر ایک منفی سوالیہ نشان چھوڑ دیتی ہے اسی لیے ڈاکٹر عبدالماجد کا مقصد نہ صرف اسٹوڈنٹس کو تعلیم دینا بلکہ ان کی بہتر سے بہتر اصلاح اور تربیت کرنا بھی ہے۔

ڈاکٹر عبدالماجد نے اپنی فکری اصلاحی و علمی خدمات کو نہ صرف پاکستان تک محدود رکھا بلکہ انھوں نے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنی علمی اور فکری خدمات کو سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے ایم اے انگلش بھی کیا ہے اور انگلینڈ سے انگلش میں پی ایچ ڈی کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔

انھوں نے قرآن مجید کا انگلش میں آسان ترجمہ بھی کیا جو ان کا دینی خدمات میں ایک بڑا کام ہے، یورپی ممالک اور برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا تحفہ ہے جو لوگ اردو نہیں پڑھ سکتے وہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کی آیات کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ماجد حمید المشرقی ایک درد مند انسان، عظیم اسکالر، مبلغ اسلام اور ممتاز دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعر بھی ہے۔ ان کی شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی کتاب ’’ فریگرینس آف مدینہ‘‘ ہے، یہ دنیائے اسلام میں نعتوں پر لکھی جانے ولی انگلش زبان میں پہلی کتاب ہے، جو بہت آسان لفظوں میں لکھی گئی اور ساتھ اُردو زبان میں ترجمہ اور مشکل الفاظ کے معنی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’ فریگرینس آف مدینہ‘‘ کی ایک کتاب ہدیہ کرنے عبدالماجد خود تشریف لائے، میں نے چند اوراق پڑھے، دل سے نکلے ہوئے احساسات دل میں اُتر گئے، میں نے کھڑے ہو کر عبد الماجد کا ماتھا چوم لیا کہ انھوں نے گوجرانوالہ کے ایک گوہرِ نایاب، درویش عالم اور عشاق رسولؐ، مبلغ محبت کے بارے میں ایک کتاب تصنیف کرتے وقت میری رائے شامل کرنا بھی ضروری سمجھا اللہ کریم انھیں نیک لوگوں کی سنگت نصیب فرمائے اور دائمی عزت سے نوازے۔‘‘

اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کے اب تک درجن سے زائد ایڈیشنز چھپ چکے ہیں، یہ گوجرانوالہ شہر کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ اس شہر کے مصنف عبد الماجد کی کتاب کا نام ’’ گینز بُک آف ورلڈ‘‘ میں بھی لکھا گیا ہے۔ انگلش زبان کے علاوہ انھوں نے اُردو زبان میں بھی نعتیں لکھی ہیں۔

ان کی نثری کتب میں ’’ دل سے دل تک‘‘ و دیگر شامل ہیں۔ ان کی تعلیمی، علمی، ادبی کارکردگی پر لاتعداد میڈلز، ایوارڈز مل چکے ہیں، حال ہی میں انھیں ان کی تعلیمی اور علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے ’’سرسید‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا اور ’’سرسید‘‘ کا خطاب ملنے پر ان کے چاہنے والوں نے ان کے اعزاز میں ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام بھی کیا جہاں ان کی گل پاشی کے ساتھ تاج پوشی بھی کی گئی۔

میرے خیال میں انھیں ’’سرسید‘‘ کا خطاب دینے کے بجائے جس طرح علامہ اقبال کو ’’ شاعرِ مشرق‘‘ کا خطاب دیا گیا اُسی طرح انھیں بھی تعلیمی اور علمی خدمات پر ’’اُستادِ مشرق‘‘ کے خطاب سے نوازا جانا چاہیے۔ چکبست برج نرائن کا خیال دیکھیے:

ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا

وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ اُستاد کرتے ہیں

ڈاکٹر عبدالماجد سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیاست میں اگر حصہ لیا یا اگر کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دیا تو وہ بھی عوام کی خدمت اور ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے دیا انھوں نے ہمیشہ اُس سیاسی جماعت سے اختلاف رکھا جو عوام کی اور ملکی حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون موجود تو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا، یہاں قانون غریبوں کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبدالماجد ایک صاحبِ علم، عمل اور صاحبِ شریعت آدمی ہے۔ اسی لیے موجودہ صدی میں انھیں جدید عصری دینی علوم کے عظیم اُستاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

میں ان کے فن کا میں ذاتی طور پر مدح ہوں۔ کیوں کہ ان میں غرور نام کی کوئی چیز نہیں ، وہ ہر کسی سے عاجزی کے ساتھ ملنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’’ عاجزی والا عزت پاتا ہے اور غرور والا ذلیل ہوتا ہے۔ پھل والا درخت جھک جاتا ہے تو پھل پاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اپنی ذات میں ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔

ان کی شخصیت اور ان کے تعلیمی خدمات کو سمجھنے کے لیے فوزیہ حنیف مشرقی کی کتاب’’ مشرقی خزینہ گدائے مدینہ‘‘ کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی عظمتِ علم و فن کے ضمن میں ایک بات کی وضاحت ضروری خیال کرتا چلوں کہ ڈاکٹر عبد الماجد پاکستان کے وہ واحد آدمی ہے جن کی تعلیمی، علمی، ادبی اور فلاحی خدمات کا اعتراف دنیا بھر میں کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالماجد عبد الماجد انھوں نے ا ڈاکٹر عبد کرتے ہیں کی تعلیم خدمات کو کے ساتھ میں ایک میں بھی کو بہتر بھی کی کے لیے ا ستاد اور ان

پڑھیں:

حصول علم میں اصل رکاوٹ

عوامی حلقوں میں یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ والدین حصول علم کے لیے اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے اور اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کے بجائے چند ہزار روپے کی اضافی آمدنی کے لیے نئی نسل کو تعلیم سے محروم رکھ رہے ہیں۔ حکومتی اور سیاسی حلقے والدین کو تو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں اور ساری ذمے داری والدین پر ڈال دیتے ہیں جس میں کچھ حقیقت بھی ہے مگر اس کی وجوہات پر حکومت کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں بچوں کو حصول علم سے روکنے میں اصل رکاوٹ سے والدین بری الذمہ نہیں مگر اصل رکاوٹ ملک میں پھیلی ہوئی مہنگائی ہے جس نے بچوں کو اسکولوں سے دور کر رکھا ہے۔

ملک میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے پرائمری اسکول ہیں جہاں برائے نام فیس پر بچوں کو آسانی سے داخلے مل جاتے ہیں اورکتابیں کاپیاں بھی سستی ہیں ملک میں پرائمری اسکولوں میں تختیاں لکھنے اور سلیٹوں کا رجحان تو کب کا ختم ہو چکا اور نئی نسل تختیوں اور سلیٹوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور نجی اسکول ہوں یا سرکاری پرائمری اسکول ہر جگہ الف، بے، پے یا اے بی سی بھی اب کاپیوں پر لکھوائی جاتی ہے۔

پرائمری اسکولوں میں سرکاری طور پر کتابیں بھی فراہم کی جانے کی اطلاعات ہیں مگر زیادہ شکایات ہیں کہ سرکاری طور ملنے والی یہ کتابیں بچوں کو برائے نام ملتی ہیں اور ردی میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔

جب پرائمری اسکولوں میں بچوں کو مفت کتابیں نہیں ملیں گی تو وہ کیسے پڑھیں گے، اس سوال پر محکمہ تعلیم توجہ ہی نہیں دیتا۔ مفت تعلیم کا آسرا دے کر غریب لوگوں کو ترغیب دی جاسکتی ہے کہ ان کے اخراجات نہیں بڑھیں گے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو سرکاری پرائمری اسکولوں میں ضرور داخل کرائیں تو ممکن ہے غریب لوگ مفت تعلیم کی سہولت کے باعث بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے لگیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے سالوں قبل تک سنتے تھے کہ باقاعدگی سے اسکول آنے والے بچوں کو ایک ایک ہزار روپے دیے جاتے تھے۔

یہ سلسلہ بعد میں بند ہو گیا یا کرپشن کی نذر ہو گیا، بچوں کی کچھ مالی مدد ہو جاتی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں شاید یو ایس ایڈ سے پرائمری اسکولوں میں خشک دودھ اورگھی کے ڈبے زیر تعلیم بچوں کو سرکاری طور پر دیے جاتے تھے اور بچوں کو نمک اور سرسوں کا تیل سرکاری طور پر فراہم کرکے دانت صاف کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی اور بعد میں یہ سب سہولتیں ختم ہو گئیں۔ نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا غریبوں کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔

دوسرے پرائمری اسکولوں میں اساتذہ بچوں کی حاضری پر توجہ دیتے ہیں نہ والدین دلچسپی لیتے ہیں اور یہ تاثر عام ہے کہ پرائمری اسکولوں میں تعلیم پر اساتذہ کی توجہ ہی نہیں ہوتی اور بچوں کو وہاں بھیجنا محض وقت ضایع کرنا ہے، اس لیے بچہ کچھ بڑا ہو جائے تو اسے کوئی کام سیکھنے پر لگا دیا جائے یا کہیں چند ہزار کے لیے ملازم رکھوا دیا جائے حالانکہ ملک میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے مگر اس قانون پر بھی عمل نہیں ہو رہا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اب انتہائی تشویش ناک صورت حال اختیار کر چکی ہے اور لوگ اپنے بچوں کو ملازمت پر رکھوا کر چند ہزار روپے کا حصول بھی بڑا سہارا سمجھتے ہیں۔

ایک پروگرام میں مشہور فنکار بتا رہے تھے کہ بڑے ممالک میں تعلیم مفت تو ہے مگر اسکول انتظامیہ غیر حاضر بچوں کے والدین کے پاس پولیس بھیج کر باز پرس کرتی ہے جب کہ پنجاب کے کسی علاقے میں حکومت نے اسکول تو تعمیر کرا دیا مگر پڑھنے کے لیے علاقے کا ایک بھی بچہ اسکول میں داخل نہیں اور اساتذہ مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں تو کیا یہ اسکول انتظامیہ والدین کے پاس جا کر انھیں آمادہ نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے بچوں کو کم سے کم پرائمری تعلیم ہی دلا دیں۔

فنکار کے خیال میں حکومت کو پولیو کی طرح تعلیم کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور پولیو قطرے زبردستی پلوانے کی طرح ہر جگہ والدین پر سختی کرنی ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو پرائمری اسکولوں میں داخل کرائیں اور چند ہزار روپے کے حصول کے لیے بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔ چائلڈ لیبر کے قانون پر بھی سختی سے عمل کروا کر والدین کو مجبور کیا جائے کہ وہ بچوں کو پرائمری کی تعلیم ضرور دلائیں اور بعد میں ہی کوئی ہنر انھیں سکھائیں اور کم عمر بچوں کو ملازمتوں پر مجبور نہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • یوم اقبال اور ہم
  • حیرت ہے اکشے سے میری منگنی میں ابتک لوگوں کی دلچسپی ہے، روینہ ٹنڈن
  • میرپور خاص: چانسلر ابن سینا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید رضی محمد ودیگر مقررین منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کررہے ہیں
  • جدید طبی تحقیق پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، پروفیسر ڈاکٹر سید رضی محمد
  • حصول علم میں اصل رکاوٹ
  • یونیورسکو کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی کی عالمی فورم میں نمائندگی
  • ریٹائرڈ پروفیسرز کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنےکا فیصلہ
  • مقامی حکومتوں کے تحفظ کیلئے قرارداد 27 ویں ترمیم میں شامل کی جائے: ملک احمد
  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کو منفی رنگ دے رہی ہے، عطا تارڑ
  • بنگلہ دیش: جبری گمشدگی کے جرائم پر سخت سزائیں دینے کا فیصلہ، آرڈیننس منظور