پروفیسر، ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اُستاد کی اہمیت کا اندازہ بطلیموس کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ ’’ اُستاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعہ سے مفید ہے‘‘ کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے انسان عقل و شعور کی منازل طے کرتا ہے، اس پر علم و آگہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور دنیا سمٹ کر اس کے قدموں میں آ گرتی ہے۔
ایسے ہی بے مثال و باکمال لوگوں کی فہرست میں پروفیسر عبد الماجد حمید المشرقی کا شمار بھی ہوتا ہے۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک علمی، ادبی مذہبی اور روحانی مقام و مرتبے پر فیض کیا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک قدیم اور تاریخی شہر گوجرانوالہ سے ہے، ان کے آباء و اجداد تقریبا سات پشتوں سے اسی شہر میں مقیم ہیں۔
انھوں نے 2 مارچ1963 اسلامی مہینے کے مطابق ستائیس رمضان المبارک جمعہ کی شب عبدالحمید کے ہاں آنکھ کھولی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ’’تعلیم القرآن‘‘ اپنی والدہ بیگم اقبال حمید سے حاصل کی، دنیاوی تعلیم کے لیے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ عطا محمد اسلامیہ اسکول نمبر ایک سے تیسری پوزیشن کے ساتھ پاس کیا، فرسٹ ایئر سے بی اے تک گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے تعلیم حاصل کی اور پورے پنجاب میں بی اے میں پہلی پوزیشن پر گولڈ میڈل حاصل کیا، ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔
علم کے موتی اکٹھے کرنے کے لیے انھوں نے سعودی عرب، عدن،کشمیر، دبئی، شام، ایران اور عراق جیسے ممالک کے مطالعاتی سفر بھی کیے، اس دوران بھی نورِ علم کا حصول ہی ان کی زندگی کا مقصد رہا۔ انھیں مشرقی تہذیب اچھی لگتی ہے، اسی لیے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’مشرقی‘‘ لکھنا پسند کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالماجد علم کا وہ چشمہ ہے جسے دیکھ کر پینے کو ہر کسی کا جی چاہتا ہے، وہ جہاں زندگی میں دوسروں کے کام آتے ہیں، وہیں اپنے بہن بھائیوں کے معاملے میں بھی بہت حساس اور ہمدرد نظر آتے ہیں، انھوں نے اپنے تمام بھائیوں کو بہتر روزگارکے لیے پہلے اسٹینڈ کیا اور پھر اپنے لیے کنگنی والا میں مدرسے اور کالج کے لیے جگہ خرید کر ’’ المشرقی تعلیم القرآن‘‘ مدرسے کی بنیاد رکھی جو تین سال تک مدرسہ رہا پھر کچھ سال بعد مدرسے کی تعلیم دینی ناظرہ حفظ کروانے کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا جب سلسلہ شروع ہُوا تو اس ادارے کا نام ’’ مشرق سائنس کالج‘‘ رکھ دیا گیا جو پرائمری سے مڈل اور پھر ہائی کلاسز تک ترقی پانے میں کامیاب ٹھہرا جو یقینا اللہ کی مدد اور ان کی انتھک محنت اور لگن کے ثمرات کا صلہ تھا۔
انھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو نہ صرف پڑھا اور سمجھا بلکہ ان احکامات پر پوری طرح سے عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کی۔ ان کی درویش طبع شخصیت پر عاجزی و انکساری کا رنگ اقبال کے اس شعر کی صورت میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
ان کے شعبہ درس و تدریس کے سفر کو چالیس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے باوجود وہ آج بھی تعلیمی ادارے کے ذریعے تعلیم کو عام کرنے اور ہماری آنے والی نسلوں کو بہتر زندگی کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ایسی تعلیم انسان کو تمیز اور ادب نہ سیکھا سکے، ایسی تعلیم اساتذہ کی کارکردگی پر ایک منفی سوالیہ نشان چھوڑ دیتی ہے اسی لیے ڈاکٹر عبدالماجد کا مقصد نہ صرف اسٹوڈنٹس کو تعلیم دینا بلکہ ان کی بہتر سے بہتر اصلاح اور تربیت کرنا بھی ہے۔
ڈاکٹر عبدالماجد نے اپنی فکری اصلاحی و علمی خدمات کو نہ صرف پاکستان تک محدود رکھا بلکہ انھوں نے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنی علمی اور فکری خدمات کو سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے ایم اے انگلش بھی کیا ہے اور انگلینڈ سے انگلش میں پی ایچ ڈی کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کا انگلش میں آسان ترجمہ بھی کیا جو ان کا دینی خدمات میں ایک بڑا کام ہے، یورپی ممالک اور برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا تحفہ ہے جو لوگ اردو نہیں پڑھ سکتے وہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کی آیات کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماجد حمید المشرقی ایک درد مند انسان، عظیم اسکالر، مبلغ اسلام اور ممتاز دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعر بھی ہے۔ ان کی شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی کتاب ’’ فریگرینس آف مدینہ‘‘ ہے، یہ دنیائے اسلام میں نعتوں پر لکھی جانے ولی انگلش زبان میں پہلی کتاب ہے، جو بہت آسان لفظوں میں لکھی گئی اور ساتھ اُردو زبان میں ترجمہ اور مشکل الفاظ کے معنی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’ فریگرینس آف مدینہ‘‘ کی ایک کتاب ہدیہ کرنے عبدالماجد خود تشریف لائے، میں نے چند اوراق پڑھے، دل سے نکلے ہوئے احساسات دل میں اُتر گئے، میں نے کھڑے ہو کر عبد الماجد کا ماتھا چوم لیا کہ انھوں نے گوجرانوالہ کے ایک گوہرِ نایاب، درویش عالم اور عشاق رسولؐ، مبلغ محبت کے بارے میں ایک کتاب تصنیف کرتے وقت میری رائے شامل کرنا بھی ضروری سمجھا اللہ کریم انھیں نیک لوگوں کی سنگت نصیب فرمائے اور دائمی عزت سے نوازے۔‘‘
اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کے اب تک درجن سے زائد ایڈیشنز چھپ چکے ہیں، یہ گوجرانوالہ شہر کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ اس شہر کے مصنف عبد الماجد کی کتاب کا نام ’’ گینز بُک آف ورلڈ‘‘ میں بھی لکھا گیا ہے۔ انگلش زبان کے علاوہ انھوں نے اُردو زبان میں بھی نعتیں لکھی ہیں۔
ان کی نثری کتب میں ’’ دل سے دل تک‘‘ و دیگر شامل ہیں۔ ان کی تعلیمی، علمی، ادبی کارکردگی پر لاتعداد میڈلز، ایوارڈز مل چکے ہیں، حال ہی میں انھیں ان کی تعلیمی اور علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے ’’سرسید‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا اور ’’سرسید‘‘ کا خطاب ملنے پر ان کے چاہنے والوں نے ان کے اعزاز میں ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام بھی کیا جہاں ان کی گل پاشی کے ساتھ تاج پوشی بھی کی گئی۔
میرے خیال میں انھیں ’’سرسید‘‘ کا خطاب دینے کے بجائے جس طرح علامہ اقبال کو ’’ شاعرِ مشرق‘‘ کا خطاب دیا گیا اُسی طرح انھیں بھی تعلیمی اور علمی خدمات پر ’’اُستادِ مشرق‘‘ کے خطاب سے نوازا جانا چاہیے۔ چکبست برج نرائن کا خیال دیکھیے:
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ اُستاد کرتے ہیں
ڈاکٹر عبدالماجد سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیاست میں اگر حصہ لیا یا اگر کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دیا تو وہ بھی عوام کی خدمت اور ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے دیا انھوں نے ہمیشہ اُس سیاسی جماعت سے اختلاف رکھا جو عوام کی اور ملکی حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون موجود تو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا، یہاں قانون غریبوں کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبدالماجد ایک صاحبِ علم، عمل اور صاحبِ شریعت آدمی ہے۔ اسی لیے موجودہ صدی میں انھیں جدید عصری دینی علوم کے عظیم اُستاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
میں ان کے فن کا میں ذاتی طور پر مدح ہوں۔ کیوں کہ ان میں غرور نام کی کوئی چیز نہیں ، وہ ہر کسی سے عاجزی کے ساتھ ملنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’’ عاجزی والا عزت پاتا ہے اور غرور والا ذلیل ہوتا ہے۔ پھل والا درخت جھک جاتا ہے تو پھل پاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اپنی ذات میں ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔
ان کی شخصیت اور ان کے تعلیمی خدمات کو سمجھنے کے لیے فوزیہ حنیف مشرقی کی کتاب’’ مشرقی خزینہ گدائے مدینہ‘‘ کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی عظمتِ علم و فن کے ضمن میں ایک بات کی وضاحت ضروری خیال کرتا چلوں کہ ڈاکٹر عبد الماجد پاکستان کے وہ واحد آدمی ہے جن کی تعلیمی، علمی، ادبی اور فلاحی خدمات کا اعتراف دنیا بھر میں کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالماجد عبد الماجد انھوں نے ا ڈاکٹر عبد کرتے ہیں کی تعلیم خدمات کو کے ساتھ میں ایک میں بھی کو بہتر بھی کی کے لیے ا ستاد اور ان
پڑھیں:
پاکستان تعلیم و صحت پر اخراجات کا ہدف پورا کرنے میں ناکام
اسلام آباد:پاکستان گزشتہ مالی سال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مقررکردہ سماجی اخراجات کا ہدف معمولی فرق سے پوراکرنے میں ناکام رہا۔ وفاق اور چاروں صوبوں کو مجموعی طور پر صحت و تعلیم پر کم از کم 2.86 کھرب روپے خرچ کرنے تھے، تاہم مجموعی اخراجات 2.84 کھرب روپے رہے، جو ہدف سے 27 ارب روپے کم ہیں۔
ذرائع کے مطابق اگر حکومتوں کے باہمی معاہدوں کے مطابق طے شدہ اہداف کو دیکھا جائے تو اصل اخراجات 240 ارب روپے کم رہے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب نے طے شدہ اخراجاتی اہداف بڑے فرق سے پورے نہیں کیے جبکہ وفاقی حکومت اور بلوچستان نے اپنے اہداف سے زائد اخراجات کیے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018 کے بعد سے تعلیم اور صحت پر اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران بھی سندھ اور خیبر پختونخوا میں اخراجات کی رفتار تسلی بخش نہ رہی، جس کی بڑی وجوہات انتظامی کمزوریاں اور فنڈز کے مؤثر استعمال کی صلاحیت کا فقدان تھیں۔
پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق پنجاب نے صحت کیلیے 524.8 ارب روپے مختص کیے تھے، جن میں سے 505 ارب روپے خرچ کیے گئے، تعلیم کیلیے 664 ارب روپے کا ہدف رکھاگیا تھا جبکہ 649 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو کہ 98 فیصد ہے۔
سندھ حکومت نے 853 ارب روپے خرچ کرنے کا ہدف رکھا تھا لیکن اصل اخراجات صرف 670 ارب روپے رہے، یعنی 153 ارب روپے کی کمی رہی۔ خیبر پختونخوا نے بھی 600 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 545 ارب روپے خرچ کیے، جو کہ 55 ارب روپے کم ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان نے 181 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 206 ارب روپے خرچ کر کے 25 ارب روپے کا اضافہ کیا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم تک مساوی رسائی بھی بڑاچیلنج ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ 2022-23 کے اعداد و شمارکے مطابق ملک میں 2.61 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو کہ مجموعی اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا 38 فیصد بنتے ہیں، ان میں سے 74 فیصد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان 2030 کے صحت سے متعلق پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔