آم، سنہری سفارت کار جو تعلقات میں مٹھاس گھولتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
برصغیر میں جب ہر سال شدید گرمی اور حبس کا موسم آتا ہے تو باغات میں ایک ایسا پھل پکنے لگتا ہے جو صرف ذائقے اور خوشبو کا تحفہ نہیں بلکہ تعلقات میں مٹھاس بھرنے کا پیغام بھی لاتا ہے۔ آم کو ’پھلوں کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے، مگر اس کا کردار ایک خاموش سفارتکار کا بھی ہے جو سیاست کی زبان بند ہونے پر بھی بات جاری رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھمبر آزاد کشمیر کے مشہور کھٹے میٹھے آم، پیداوار میں کمی کیوں؟
ساون کے آغاز کے ساتھ ہی آم کے ٹوکرے اور پیٹیاں خاموشی سے نہ صرف بازاروں بلکہ سفارتخانوں، وزارتِ خارجہ، ایوانِ صدر اور وزرائے اعظم کی رہائش گاہوں تک پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف تحفے نہیں بلکہ روایتی پیکنگ میں لپٹے خوشبودار امن کے پیغام ہوتے ہیں۔
آم کی سفارتکاری کوئی نئی روایت نہیں بلکہ دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور دنیا میں نرم قوت کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ 1955 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سرد جنگ کے دوران سوویت رہنماؤں کو الفانسو آم بھیجے تاکہ ماسکو سے تعلقات مضبوط کیے جا سکیں۔
1968 میں پاکستان کے وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے چین کے چیئرمین ماؤ زے تنگ کو سندھڑی آم پیش کیے، جنہوں نے ملک میں مشہور ’مینگو کلٹ‘ کو جنم دیا اور یہ پھل ثقافتی انقلاب میں مزدور طبقے کی محبت کی علامت بنا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی رس بھری چیری دنیا بھر میں مشہور، برآمد کرنے کے لیے جدید اقدامات
1981 میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران صدر ضیاالحق نے انور رتول آم بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھجوائے، جسے سفارتی برف پگھلانے کی ایک نرم کوشش سمجھا گیا۔
2022 میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ایک میٹرک ٹن امرپالی آم بھارتی صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دیگر رہنماؤں کو تحفے میں بھیجے، جس سے خطے میں دوستی کا پیغام مضبوط ہوا۔
ماہرین کے مطابق آم کی کاشت برصغیر میں 4 ہزار سال سے جاری ہے۔ بدھ بھکشوؤں نے 4ویں صدی قبل مسیح میں آم کے باغات لگائے، جبکہ مغل بادشاہوں نے شاہی باغات میں نایاب اقسام کی افزائش کی۔ یہ آج بھی ایسا مشترکہ ورثہ ہے جو ان ممالک کو جوڑتا ہے جن کے درمیان اکثر سیاسی اختلافات رہتے ہیں۔
آم صرف ایک پھل نہیں بلکہ ایک موسم اور ایک یاد ہے۔ یہ گرمیوں کی دوپہریں، چھٹیاں، آم کا رس ٹپکانا اور ساون کی بارش میں خاندانی میل جول کا استعارہ ہے۔ آم دینا گویا اپنی خوشی، اپنی شناخت اور اپنی زمین کی فراوانی بانٹنا ہے۔
آم کے طبی فائدےآم وٹامن سی، وٹامن اے، فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہے، جو مدافعتی نظام کو مضبوط، آنکھوں اور جلد کو تندرست اور ہاضمے کو بہتر بناتے ہیں۔ ایک کپ آم تقریباً 70 فیصد روزانہ کی وٹامن سی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔
آم کی اقسامدنیا بھر میں آم کی سینکڑوں اقسام موجود ہیں، مگر چند اپنی خوشبو، ذائقے اور بناوٹ کے باعث سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔
الفانسو (بھارت) زعفرانی رنگت، ریشمی ساخت اور خوشبودار ذائقہ رکھتا ہے۔
سندھڑی (پاکستان) بڑی جسامت اور رس بھری ہونے کے باعث موسم کی پہلی مقبول قسم ہے۔
نم ڈوک مائی (تھائی لینڈ) پتلی، سنہری اور تیز خوشبو والی ہوتی ہے۔
کیٹ (مصر/امریکا) ہری چھال، کھٹا میٹھا اور بغیر ریشوں کے ہوتا ہے۔
میازاکی (جاپان) گہری سرخی، نہایت میٹھی اور نایاب قسم ہے۔ جاپانی میازاکی آم دنیا کے سب سے مہنگے مانے جاتے ہیں جن کی قیمت ایک جوڑے کی 4 ہزار امریکی ڈالر تک جا سکتی ہے اور یہ محض پھل نہیں بلکہ ایک عیش و عشرت کا نشان ہیں۔
زیادہ آم کی پیدوار والے ممالکاقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کے بڑے آم پیدا کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں، جو دنیا کی 75 فیصد سے زائد پیداوار فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب پالیسیوں میں جمود آ جائے اور سرحدیں بند ہوں، آم پھر بھی دھوپ میں پکے، تنکوں میں لپٹے اور خوشبو میں بسے پیغام کے ساتھ دلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ سفارتکار ہے جو سخت گیر سیاسی ماحول میں بھی سب سے نرم اور میٹھا رابطہ قائم کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آم بادشاہ بنگلہ دیش بھارت پاکستان پھل جاپان سفارتکاری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بادشاہ بنگلہ دیش بھارت پاکستان پھل جاپان سفارتکاری نہیں بلکہ
پڑھیں:
پاک بھارت اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا ذمے دار کون؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251107-03-7
شاہنواز فاروقی
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی اسلام، مسلمانیت اور اسلامی پاکستان سے اتنے متغیّر ہیں کہ ان کو پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کے ذمے دار مسلمان نظر آتے نہیں۔ ایاز امیر ایک سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی ہیں روزنامہ دنیا میں انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک خطہ ٔ زمین پر دو قوموں کا تشکیل پانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اور اس امر کی بنیاد پر اس خطہ ٔ زمین کا بٹوارا ہو جانا یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایسی کتنی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا پیدا ہونا‘ یہ منفرد بات ضرور ہے۔ بابائے قوم نے تو کہا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایسے دیکھتے ہیں جیسا کہ امریکا اور کینیڈا کے آپس میں۔ تقسیم ہو گئی‘ دو مختلف ممالک معرضِ وجود میں آ گئے اور بابائے قوم کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا‘ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھنے میں۔ پنجاب لہو لہان ضرور ہوا لیکن اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ تقسیم ِ ہند کا فیصلہ ہوا تو دونوں طرف سے لیڈر تقسیم ِ پنجاب کے لیے تیار نہ تھے اور حالات ایسے بنے کہ دونوں طرف سے قتل ِ عام ہونے لگا۔
وجہ عناد تو کچھ سمجھ میں آئے۔ تقسیم ہو گئی تو وجہ عناد رہنی نہیں چاہیے تھی۔ یہ کہنا کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہم نے بنگلا دیش کے قیام کو دل سے قبول کیا تھا؟ لیکن بنگلا دیش معرضِ وجود میں آگیا اور آج تک قائم ہے۔ جب اس ملک کے باسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی پر سوال اٹھتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ذکر کرنا بھی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ کشمیر دو قومی نظریے کی بنیاد نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بعد میں اٹھا‘ دو قومی نظریے کا تصور ہندوستانی تاریخ کے نشیب و فراز میں پنہاں ہے۔ پاکستان تحریک جب اپنے زوروں پر تھی کشمیر کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تو ایک تقریر میں کشمیر اور حیدرآباد دکن کے تبادلے کی بات کی تھی لیکن اس وقت کے ہمارے قائدین کی دلچسپی حیدرآباد دکن میں زیادہ تھی۔ کشمیر کا مسئلہ تو ذرا بعد میں پیدا ہوا۔
سارا مسئلہ 1965ء کی جنگ سے شروع ہوا۔ کوئی خاص وجہ نہ تھی اور دونوں ممالک آنکھوں پر پٹی باندھے برسرِپیکار ہو گئے۔ 17 دن بعد سکت ِ جنگ ٹھنڈی پڑ گئی اور روس کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی۔ لیکن نفرت کے بیج ایسے بوئے گئے کہ دشمنی اٹل ہو گئی۔ یہاں کے لیے میڈم نور جہاں کے نغمے ہی کافی تھے‘ سحر اتنا کہ یہ سوال ہی نہ اْٹھا کہ پہل کس کی تھی۔ حملے کی صورت میں ہندوستانی واردات ستمبر میں ہوئی لیکن اس سے پہلے کا بھی ایک سلسلہ تھا جس کے بارے میں پاکستان میں زیادہ سوال نہیں اٹھتے۔ بہرحال جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی پر گرفت کمزور ہوئی۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پبلک ہیرو کے طور پر ابھرے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 2 نومبر 2025ء)
ہندو ازم اور ہندوئوں کے بالادست طبقات کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید میں صاف لکھا ہوا ہے کہ کائنات کا خالق اور مالک ورا الوریٰ ہے اور اس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی مگر برہمنوں شتریوں اور ویشوں نے خدا کی مورتیاں بنا کر مورتی پوجا شروع کردی۔ ہندوئوں کی ایک اور مقدس کتاب مہا بھارت ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور ایک شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو ازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی، اخلاقی اور علمی ہے۔ جو شخص زیادہ روحانی، اخلاقی اور علمی استعداد رکھتا ہے وہ برہمن ہے۔ جو شخص جسمانی طور پر طاقت ور ہے اور ریاست کی حفاظت کرسکتا ہے وہ ’’شتریہ‘‘ ہے۔ جو شخص ’’عقل معاش‘‘ زیادہ رکھتا ہے وہ ’’ویش‘‘ ہے اور جو شخص صرف ’’جسمانی محنت‘‘ کرسکتا ہے وہ ’’شودر‘‘ ہے۔ اصل ہندو ازم کی تعلیم یہ ہے۔ لیکن برہمنوں نے ہندوازم میں انسانوں کی تقسیم کے نظام کو صرف ’’پیدائشی‘‘ بنادیا ہے۔ چنانچہ برہمن کے گھر میں پیدا ہونے والا برہمن ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا شیطان کیوں نہ ہو اور شودر کے گھر میں پیدا ہونے والا ’’اچھوت‘‘ ہے خواہ وہ پیدائشی برہمن سے ایک لاکھ گنا اچھا کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں سال سے برہمن، شتریہ اور ویش عیش کررہے ہیں اور 50 کروڑ سے زیادہ شودر اور دلت جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوازم کی تشریح اور تعبیر حق کی بنیاد پر کرنے کے بجائے اپنے مفاد کے مطابق کرتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیوں نہیں کریں گے؟ جو ہندو شودروں اور دلتوں کو جانور بنائے ہوئے ہیں وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا انصاف کریں گے؟ بدھ ازم کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بدھ ازم ہندوستان میں پیدا ہوا مگر چونکہ وہ برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا اس لیے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو یوپی اور بہار میں قدم نہ جمانے دیے۔ انہوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا چنانچہ بدھ ازم نے پاکستان میں ٹیکسلا اور افغانستان میں بامیان کو اپنا مرکز بنایا۔ سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوستان کے ’’مقامی مذہب‘‘ کو گلے نہ لگا سکے وہ ہندو مسلمان اور پاکستان کے ساتھ کیا اچھا سلوک کریں گے؟ سکھ ازم ہندو ازم سے الگ ہے مگر ہندوئوں نے سکھ ازم کو اتنا بدل دیا ہے کہ سکھ ہندوئوں کی توسیع محسوس ہوتے ہیں۔ مگر جب 1984ء میں اندرا گاندھی کے دو سکھ باڈی گارڈز نے اندرا گاندھی کو ہلاک کیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے سکھوں اور ہندوئوں کے قدیم تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دلی میں ایک دن میں تین ہزار سکھوں کو ہلاک کیا۔ اس سے قبل اندرا گاندھی سکھوں کے خانہ کعبہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پر ٹینک چڑھا چکی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے جو ہندو سکھوں کے ساتھ وفا نہ کرسکے وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا بہتر سلوک کریں گے؟
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کا خیال ہے کہ ساری خرابی مسلمانوں کے دو قومی نظریے اور اس کی بنیاد پر ہونے والی سیاست سے پیدا ہوئی لیکن یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کی پوری تاریخ پر نظر نہ ہو۔ 1930ء میں جب دو قومی نظریے کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلا کر مسلمانوں کو لالچ اور دبائو کے تحت دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک تقریر میں گاندھی کو مخاطب کرکے کہا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنارہے ہیں اور آپ خاموش ہیں۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی اردو میں ناول اور افسانے لکھے۔ وہ اسلامی تہذیب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس کا ثبوت ان کا معرکہ آرا افسانہ عید گاہ ہے۔ لیکن گاندھی کے زیر اثر آتے ہی پریم چند نے اردو میں افسانے لکھنے چھوڑ دیے اور وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے حالانکہ اردو اور ہندی جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ اردو کا 30 فی صد سے زیادہ ذخیرہ الفاظ ہندی سے آیا ہے۔ اردو نے ہندی کی ایک درجن سے زیادہ اصوات یا آوازوں کو قبول کیا ہے مگر گاندھی کی سیاست نے پریم چند کو کچھ بھی یاد نہ رہنے دیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔
گاندھی کو اس کا علم ہوا تو وہ وجے لکشمی پر بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے کہ تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملا جس سے تم شادی کرتیں۔ گاندھی نے وجے لکشمی پر اپنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مسلمان کے ساتھ اپنی شادی ختم کردی۔ یہ باتیں دو قومی نظریے کے ظہور اور تحریک پاکستان سے بہت پہلے کی ہیں۔
پاکستان ایک پرامن اور جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا۔ 1940 سے 1947ء تک کہیں مسلمانوں نے ہندوئوں سے تصادم کی کوشش نہیں کی۔ مگر ہندو قیادت نے قیام پاکستان کے بعد دلی، یوپی اور پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کراکے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کو خون آشام کردیا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاک بھارت تعلقات بڑی حد تک ’’نارمل‘‘ رہ سکتے تھے۔ ہندو قیادت نے تنگ نظری اور تھڑدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے مالی اثاثے روک لیے۔ یہ اتنی بڑی ناانصافی تھی کہ گاندھی تک کو ہضم نہ ہوئی اور گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ ہندو قیادت کو طوعاً وکرہاً پاکستان کے حصے کے اثاثے پاکستان کو دینے پڑے۔ بدقسمتی سے بھارت کی ہندو قیادت نے تقسیم کے فارمولے کی روح کی بھی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ حیدر آباد دکن نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا تھا مگر بھارت نے وہاں فوج کشی کرکے حیدر آباد کو پاکستان کے ساتھ الحاق سے روک دیا۔ کشمیر کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے مگر ہندو سامراج نے کشمیر پر بھی فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ بھارت ایسا نہ کرتا تو پاک بھارت تعلقات معمول کے تعلقات ہوسکتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1962ء کی بھارت چین جنگ کے وقت ہندوستان اپنی ساری فوجی طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر لے لیں مگر جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی اس رعایت کو کبھی رعایت نہ گردانا اور اسے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں گھس کر اسے بنگلا دیش بنانے کا موقع ملا تو بھارت نے یہ موقع ضائع نہ کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا چنانچہ اصولاً بھارت کو کشمیر کے لوگوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کرنا چاہیے تھا مگر بھارت نے آج تک ایسا نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کے حکمرانوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ’’جنگ پرست‘‘ ہیں مگر پاکستانی حکمرانوں کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیاقت علی خان نے لیاقت نہرو پیکٹ پر دستخط کیے۔ جنرل ایوب نے تاشقند میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھٹو نے بھارت کے ساتھ شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے 9 ادوار ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کارگل کے ہیرو تھے مگر اس ’’ہیرو‘‘ نے کشمیر کے حوالے سے آگرہ میں ایسے مذاکرات کیے جو کشمیر اور پاکستان کے مفاد سے غداری کے مترادف تھے مگر بھارت نے ان مذاکرات کو بھی سبوتاژ کردیا۔ میاں نواز شریف تو تھے ہی بھارت کے آدمی۔ وہ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں اس طرح شریک ہوئے جیسے وہ مودی کے غلام ہوں۔ جنرل عاصم منیر کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روز تک جنگ ہوئی مگر اس جنگ کے خاتمے پر جنرل عاصم منیر کے غلام میاں شہباز شریف نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ اس تاریخ کے باوجود بھی اگر کوئی پاکستانی سیکولر اور لبرل دانش ور یہ کہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار دو قومی نظریہ یا خود پاکستان ہے تو اس سے زیادہ جاہل اور بے ایمان کوئی نہیں ہے۔