دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ آنے والے ہر دور میں ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بوسنیا کی نسل کشی اور آج کا غزہ۔ یہ دونوں سانحات وقت اور جغرافیہ کے فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے آئینے ہیں۔ دونوں میں بے بس مظلوم، طاقت کے نشے میں چور جارح، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مغربی دنیا کی منافقت، اور مسلم دنیا کی خوابیدہ خاموشی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل، جس کی بنیاد ہی فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضے پر رکھی گئی، گزشتہ پونے دو سال سے غزہ کے محصور عوام کو نہ صرف بمباری، بھوک اور بیماری کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب کھلے عام اس کی بقاء اور آزادی کو مکمل طور پر مٹانے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔
اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اُس منصوبے کو منظور کیا ہے جس کے مطابق غزہ شہر کا مکمل عسکری کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ محض "سلامتی" کا ڈھونگ نہیں بلکہ قبضے کو دائمی شکل دینے کا اعلان ہے۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ یہ قبضہ نہیں بلکہ عسکری کنٹرول ہے، ایک ایسا لغوی فریب ہے جو حقیقت کی لاش کو الفاظ کے کفن میں لپیٹنے کے مترادف ہے۔ مغربی دنیا کے اخلاقی معیار کی دوغلی حقیقت اس وقت ننگی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ساحل پر بھٹکی ہوئی وہیل یا کسی سرکس میں ہاتھی پر ظلم پوری دنیا میں احتجاج اور آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے، مگر جب غزہ میں معصوم بچوں کے جسم بارود سے بکھر جاتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کے کٹے پھٹے اعضا گود میں اٹھائے بین کرتی ہیں، اور پورے شہر ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں، تو یہ نام نہاد مہذب معاشرے اور انسانی حقوق کے علمبردار اچانک گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔
یہ چنیدہ ہمدردی اب کسی فرد کا ذاتی نقص نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ بوسنیا کی سرزمین پر 1992ء سے 1995ء تک برپا ہونے والا قیامت خیز دور آج بھی یورپ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ سریبرینیتسا میں 8,000 سے زائد مسلمان مرد اور لڑکے اُس وقت ذبح کر دیے گئے جب وہ اقوامِ متحدہ کی ’’تحفظ یافتہ‘‘ پناہ گاہ میں موجود تھے۔ پچاس ہزار سے زائد خواتین کو ریپ اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی طاقتیں بیان بازی تک محدود رہیں، قراردادیں محض کاغذی ثابت ہوئیں، اور بالآخر ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کیا گیا جس نے قاتل کو انعام اور مقتول کو مستقل زخم دے دیا۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بمباری نے اب تک 38,000 سے زیادہ فلسطینی جانیں نگل لی ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔
اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، اسکول اور مساجد خاکستر ہوئیں، رفح کراسنگ پر امدادی قافلے روک دیے گئے یا بمباری میں تباہ کر دیئے گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔
بوسنیا میں قاتلوں کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے نام پر وقتی امن کا تحفہ دیا گیا۔ غزہ میں بھی خطرہ یہی ہے کہ تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر آئیں گے مگر اس کے بدلے میں فلسطینی عوام کی سیاسی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ دنیا اپنے راستے پر چل دے گی، یتیم بچے کھنڈرات میں کھیلیں گے، اور قاتل کسی خفیہ معاہدے کے سائے میں محفوظ رہیں گے۔ یہ المیے صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی مہر ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کب رکے گا، بلکہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟ جب آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ بوسنیا اور غزہ میں انسانیت کو ذبح کیا گیا اور ہم خاموش تماشائی تھے، تو کیا ہم اس شرمندگی اور تاریخی ندامت کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے اسرائیل نہیں بلکہ کچھ نے
پڑھیں:
23 ستمبر کو چُھٹی ؟ حقیقت سامنے آگئی
ویب ڈیسک : گزشتہ چند روز سے 23 ستمبر کی چھٹی سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خبریں گردش کررہی ہیں، تاہم عام تعطیل کے حوالے سے اہم خبر سامنے آگئی ہے۔
23 ستمبر 2025 کو ملک بھر میں عام تعطیل "حکومتی نوٹیفکیشن” کے نام سے جعلی دستاویزات شیئر کی جارہی تھیں، ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اس طرح کی خبریں زیرِ گردش تھیں، جس کے بعد عوام، بالخصوص طلبہ اور سرکاری ملازمین میں چینی پائی جا رہی ہے۔
گھروں اورگلیوں سے موٹر سائیکلیں و دیگر سامان چوری کرنیوالا 2 رکنی گروہ گرفتار
حقیقت یہ ہے کہ 23 ستمبر کی تعطیل صرف سعودی عرب میں ہے، پاکستان میں کسی قسم کی کوئی چھٹی نہیں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 23 ستمبر کو کسی قسم کی تعطیل نہیں ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں بلکہ صرف سرکاری ذرائع پر انحصار کریں۔
واضح رہے کہ 23 ستمبر کو سعودی عرب اپنا 95واں قومی دن منانے جا رہا ہے، جو ہر سال 23 ستمبر کو 1932 میں مملکت کے اتحاد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
ٹام ہالینڈ نئی فلم کی شوٹنگ کے دوران زخمی