Islam Times:
2025-08-10@13:12:34 GMT

دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست

اسلام ٹائمز: سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ آنے والے ہر دور میں ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بوسنیا کی نسل کشی اور آج کا غزہ۔ یہ دونوں سانحات وقت اور جغرافیہ کے فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے آئینے ہیں۔ دونوں میں بے بس مظلوم، طاقت کے نشے میں چور جارح، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مغربی دنیا کی منافقت، اور مسلم دنیا کی خوابیدہ خاموشی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل، جس کی بنیاد ہی فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضے پر رکھی گئی، گزشتہ پونے دو سال سے غزہ کے محصور عوام کو نہ صرف بمباری، بھوک اور بیماری کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب کھلے عام اس کی بقاء اور آزادی کو مکمل طور پر مٹانے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔

اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اُس منصوبے کو منظور کیا ہے جس کے مطابق غزہ شہر کا مکمل عسکری کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ محض "سلامتی" کا ڈھونگ نہیں بلکہ قبضے کو دائمی شکل دینے کا اعلان ہے۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ یہ قبضہ نہیں بلکہ عسکری کنٹرول ہے، ایک ایسا لغوی فریب ہے جو حقیقت کی لاش کو الفاظ کے کفن میں لپیٹنے کے مترادف ہے۔ مغربی دنیا کے اخلاقی معیار کی دوغلی حقیقت اس وقت ننگی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ساحل پر بھٹکی ہوئی وہیل یا کسی سرکس میں ہاتھی پر ظلم پوری دنیا میں احتجاج اور آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے، مگر جب غزہ میں معصوم بچوں کے جسم بارود سے بکھر جاتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کے کٹے پھٹے اعضا گود میں اٹھائے بین کرتی ہیں، اور پورے شہر ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں، تو یہ نام نہاد مہذب معاشرے اور انسانی حقوق کے علمبردار اچانک گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔

یہ چنیدہ ہمدردی اب کسی فرد کا ذاتی نقص نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ بوسنیا کی سرزمین پر 1992ء سے 1995ء تک برپا ہونے والا قیامت خیز دور آج بھی یورپ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ سریبرینیتسا میں 8,000 سے زائد مسلمان مرد اور لڑکے اُس وقت ذبح کر دیے گئے جب وہ اقوامِ متحدہ کی ’’تحفظ یافتہ‘‘ پناہ گاہ میں موجود تھے۔ پچاس ہزار سے زائد خواتین کو ریپ اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی طاقتیں بیان بازی تک محدود رہیں، قراردادیں محض کاغذی ثابت ہوئیں، اور بالآخر ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کیا گیا جس نے قاتل کو انعام اور مقتول کو مستقل زخم دے دیا۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بمباری نے اب تک 38,000 سے زیادہ فلسطینی جانیں نگل لی ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، اسکول اور مساجد خاکستر ہوئیں، رفح کراسنگ پر امدادی قافلے روک دیے گئے یا بمباری میں تباہ کر دیئے گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔

بوسنیا میں قاتلوں کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے نام پر وقتی امن کا تحفہ دیا گیا۔ غزہ میں بھی خطرہ یہی ہے کہ تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر آئیں گے مگر اس کے بدلے میں فلسطینی عوام کی سیاسی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ دنیا اپنے راستے پر چل دے گی، یتیم بچے کھنڈرات میں کھیلیں گے، اور قاتل کسی خفیہ معاہدے کے سائے میں محفوظ رہیں گے۔ یہ المیے صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی مہر ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کب رکے گا، بلکہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟ جب آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ بوسنیا اور غزہ میں انسانیت کو ذبح کیا گیا اور ہم خاموش تماشائی تھے، تو کیا ہم اس شرمندگی اور تاریخی ندامت کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے اسرائیل نہیں بلکہ کچھ نے

پڑھیں:

قدرت جابر و سفاک نہیں بلکہ غفلت میں ہم ڈوبے ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) ہر سال چند گھنٹوں کی بارش بڑے شہروں کا نظام زندگی مفلوج کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ حکومت سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ نکاسیِ آب کے نظام کی بہتری کے دعوے صرف کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بااثر مافیا کی حمایت سے بننے والی کمرشل عمارتیں، مارکیٹیں، اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے تحت جب پانی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو پھر نتیجتاً پانی اکثر گلیوں، گھروں اور سڑکوں کی جانب رخ کرتا ہے۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عوام بھی کسی حد تک اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کچرا نالوں میں پھینکنے کی عادت، تجاوزات کو سہولت سمجھ کر قبول کر لینا اس تباہی کے عوامل میں شامل ہیں۔

مون سون بارشوں کے سیزن میں سوشل میڈیا پرتصاویر ، ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں کہ فلاں شہر سے فلاں خاندان سفاک سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔

(جاری ہے)

یوں ہر طرف ایک ہی سوال زبان زد عام ہوتا ہے کہ آخر سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا قدرت جابر ہوگئی ہے یا انسانی غفلت کا نتیجہ ہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدرت کا نظام تو نہایت متوازن اور منصف ہے۔

قدرت کسی خاص بستی یا شہر سے دشمنی نہیں رکھتی، نہ ہی اسے کسی انسان سے ذاتی عناد ہے۔ مگر جب ہم ندی نالوں پر ناجائز قبضے کرتے ہیں، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، جنگلات کا صفایا کرتے ہیں، نکاسی آب کے نظام کو تباہ کر دیتے ہیں، تو نتیجتاً پانی بہتا نہیں ،چڑھتا ہے اور جب پانی چڑھتا ہے، تو بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ راولپنڈی کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ، ''ہم نے اپنی زندگی میں اتنا پانی کبھی رہائشی علاقوں یا ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں داخل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ماورائے عقل ہے کہ یہ سیلابی ریلا نہیں تھا اور نہ ہی بارش کا پانی۔ کیا یہ آفت تھی یا عذاب تھا جو ہم پر مسلط ہوا ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سیلاب کا پانی دوسری یا تیسری منزل تک پہنچے۔‘‘

ماہرین کے مطابق اس سال موسمِ بہار گویا آیا ہی نہیں۔ سردیوں کے اختتام کے فوراً بعد درجہ حرارت میں غیر معمولی اور تیز رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا، جس نے بہار کے خوشگوار موسم کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔

حدت کے باعث گلیشئرز بڑی سرعت سے پگھلے۔ گلیشئرز کا پگھلنا کوئی نئی چیز نہیں۔ ماہرین بڑے عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں۔ یہ موسمیاتی بے ترتیبی ایک واضح اشارہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک کڑوی حقیقت بن چکی ہے۔

اب یہ کہا جائے کہ پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری خطرے میں ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انتظامیہ ہوش کے ناخن لے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی حالات حاضرہ کے تناظر میں حقیقت بن کر سامنے کھڑی ہے۔

حکومت کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرے۔ لیکن ہمارے ہاں منصوبے فائلوں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ نالوں کی صفائی کے بجٹ ہر سال مختص ہوتے ہیں، لیکن سیلاب کے دنوں میں وہ نالے گند اور کچرے سے بھرے ملتے ہیں۔ ڈرینیج سسٹم کئی دہائیوں پرانا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سیاسی چپقلش کی نذر ہو جاتی ہے اور سیلاب سے بچاؤ کا کوئی پائیدار منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔

عوام کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے اکثر بارش کے ساتھ خود بہہ جاتے ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہمارا پورا سسٹم ہی غفلت میں ڈوبا ہوا ہے۔

ایک تلخ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی ایک ایسا شہر اور علاقہ نہیں ہے جہاں پر نکاسی آب کے راستوں اور نالوں پر قبضہ نہ کیا گیا ہو، ہر شہر اور علاقے میں بے ہنگم تعمیرات قائم نہ کی گئی ہوں۔ انسانوں کی گزر گاہوں پر مافیاز نے ڈیرے جما لیے ہیں اور انکے راستوں کے حقوق کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے وہاں پر پانی کے راستوں کا خیال کون رکھے؟ لاکھوں کیوسک پانی کا ریلا بستیوں کے نام و نشان مٹاتا سمندر برد ہو رہا ہے لیکن ہماری انتظامی اہلیت کنارے کھڑی بے بسی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔

سیلاب اور اس سے ملحقہ وبائیں کیا قہر ڈھانے کو ہیں، معلوم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹیکنالوجی، فرسٹ ایڈ، مربوط انتظامی ڈھانچوں پر فوری کام کرنا وقت کی پکار بن چکا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی بروقت فراہمی 59 فیصد جانیں بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی انتظامیہ آفات میں ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز تیار رکھتی ہے، یہاں عوام یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش ہماری جانوں کی بھی قدروقیمت ہو۔

مزید برآں یہ کہ سیلاب کی جاری تباہی کے ہم خود بھی تو ذمہ دار ہیں۔ ندی نالوں پر گھر بناتے ہیں، اور کوڑا کرکٹ انہی میں پھینکتے ہیں، قانونی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کا ماحول کتنا آلودہ کر رہے ہیں؟ سیلاب کا پانی صرف بارش کا نہیں ہوتا، یہ ہمارے اپنے اعمال کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔

اگر انسان نے اب بھی قدرت کے ساتھ ہم آہنگی نہ سیکھی، تو وہ دن دور نہیں جب نہ صرف قدرتی آفات مزید شدید ہوں گی، بلکہ نسلِ انسانی کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آم، سنہری سفارت کار جو تعلقات میں مٹھاس گھولتا ہے
  • ایم ڈی کیٹ کی فیس 80 فیصد نہیں بلکہ صرف 12.5 فیصد بڑھائی گئی : ترجمان پی ایم ڈی سی 
  • یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے
  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
  • غزہ پر اسرائیلی قبضے کا اعلان ساری مہذب دنیا کے لئے چیلنج ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
  • غزہ پر اسرائیلی قبضے کا اعلان مہذب دنیا کے لئے چیلنج ہے ،عرفان صدیقی
  • خون سے سیکھے گئے سبق کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، تاریخ کے المیے دہرائے نہیں جا سکتے، چینی وزارت دفاع
  • غزہ پر اسرائیلی قبضے کا انسانیت دشمن منصوبہ
  • قدرت جابر و سفاک نہیں بلکہ غفلت میں ہم ڈوبے ہیں