یہ تاریخی عمارت پاکستان کے کس شہرمیں واقع ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
جی پی او چوک میں چھپا ہوا تاریخ کا خزانہ
اگر آپ مری جا رہے ہیں، تو جی پی او چوک کے صرف باہر سے سیلفی نہ بنائیں اندر جھانکیں اور اس میوزیم کو بھی دریافت کریں۔ شاید آپ کو وہاں پاکستان کی ڈاک تاریخ کا کوئی ایسا راز مل جائے، جو کتابوں میں نہیں۔
ملکہ کوہسارمری پاکستان کے خوبصورت اور پرفضا مقامات میں سے ایک ہے جو راولپنڈی سے صرف 60 کلومیٹر کے فاصلے پر، سطح سمندر سے 7500 فٹ بلند واقع ہے۔ سرسبز پہاڑ، ٹھنڈی ہوائیں، اور دلفریب مناظر مری کو ایک الگ ہی مقام عطا کرتے ہیں۔
مری نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے بلکہ اس کا تاریخی پس منظربھی انتہائی دلچسپ ہے۔ اس شہر کو 1851 میں ہنری لارنس نے “ٹاؤن” کا درجہ دیا اور اسی برس یہاں جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ عمارت آج بھی مری مال روڈ پر اپنی اصل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے۔
جی پی او چوک: سیلفیوں کی پسندیدہ جگہ اور تاریخ کا امین
جی پی او چوک کو مری کا دل کہا جاتا ہے۔ سیاح یہاں آ کر تصویریں بناتے ہیں، لیکن اکثر انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس عمارت کے اندر ایک **چھپا ہوا میوزیم ہے، جو پاکستان پوسٹ کے سنہری دور کی یادیں محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
یہ میوزیم عام طور پر سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے، مگر یہاں موجود تاریخی اشیاء بے حد قیمتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
1851 سے 1928 تک فارسی زبان میں لکھی گئی اصل پوسٹل رجسٹر بُک
1800 سے 1990 تک ہاتھ سے لکھے گئے لیجرز
برٹش دور کی قانون و ضابطے کی کتابیں
بینظیر بھٹو دور کی یادگار ڈاک
1890 کا پہلا لیٹر بکس جو مری کے مختلف مقامات پر لگایا گیا تھا
برطانوی دور کا ترازو جو آج بھی استعمال ہو رہا ہے
دیواروں پر اس وقت کے پوسٹ ماسٹرز کی تصاویر، ان کی جیتی گئی ٹرافیاں، اور ان کی خدمات کی مکمل تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے۔
عمارت کی بحالی: ماضی کی جھلک کو زندہ رکھنے کی کوشش
مری جی پی او کی تاریخی عمارت کو 1910 کے اصل ڈیزائن کے مطابق بحال کیا گیا
فرش کو نئے سرے سے سنگ مرمر سے سجایا گیا
1970 کے بعد بنائی گئی چھتیں اور برآمدے دوبارہ اصلی طرز میں ڈھالے گئے
اصل لکڑی کی چھتیں بحال کی گئی ہیں تاکہ ماضی کا حسن واپس لایا جا سکے
یہ عمارت صرف ایک پوسٹ آفس نہیں بلکہ پاکستانی تاریخ، ثقافت اور نوآبادیاتی ورثے کا اہم نمونہ ہے۔ یہیں سے مری کے مال روڈ کی شروعات ہوئی، جو آگے جا کر مشہور چرچتک جاتی ہے — دونوں ہی تاریخی نشانات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جی پی او چوک
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی معاہدے کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے تاریخی معاہدے کو ناصرف سراہا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں عوام کے سعودی عرب سے توقعات بھی بڑھ گئی ہیں، کیوں کہ یہ معاہدہ اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان اور دنیا کے امیر ممالک کی فہرست میں شامل سعودی عرب کے مابین ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک لاکھ 31 ہزار ملازمتیں، پاکستانی نوجوانوں کے لیے بڑی خوشخبری آگئی
عام پاکستانی سعودی عرب کے دفاع کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشی اعتبار سے بھی اس معاہدے کو دیکھ رہے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت
دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی افرادی قوت سعودی عرب میں ہے اور اسی وجہ سے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھی برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کے بعد پاکستانی افرادی قوت میں اضافہ ہوگا اور زر مبادلہ بھی بڑھے گا؟ اگر ایسا ہے تو نوجوانوں کو کن شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے؟
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی رائے
اوور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والا معاہدہ ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان میں موجود ہر فرد کے لیے بلکہ سعودی عرب میں موجود 24 لاکھ پاکستانیوں کے لیے بھی خوشی اور فخر کی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ہمارا سعودی عرب سے تعلق دفاعی، مذہبی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہوگا۔
افرادی قوت کے نئے مواقع
محمد عدنان پراچہ کے مطابق یہ معاہدہ ناصرف سعودی عرب میں موجود ہماری افرادی قوت کے لیے بلکہ پاکستان سے جانے والوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودیہ میں اقامہ اور ملازمت قوانین کی خلاف ورزی پر 14 ہزار 800 فیصلے
ان کا کہنا تھا کہ اب راستے کھلنے جا رہے ہیں۔ پہلے ہم زیادہ تر لیبر اور ڈرائیورز بھیجنے کے لیے مشہور تھے لیکن اب وہ چیز تبدیل ہو چکی ہے۔
وژن 2030 اور نئے شعبے
محمد عدنان پراچہ نے مزید کہا کہ وژن 2030 اور آنے والا فیفا ورلڈ کپ 2034 کی تعمیرات میں مواقع ہیں۔ ہاسپیٹیلٹی کی نوکریاں موجود ہیں، آئی ٹی پروفیشنلز، انجینئرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ کیئر سیکٹر وہ شعبے ہیں جن میں پاکستانی جا سکتے ہیں۔
اس موقع پر سعودی عرب میں پاکستان کا کوٹہ باقی ممالک کے مقابلے بڑھ سکتا ہے جو اس وقت 5 لاکھ کے قریب ہے اور بڑھ کر 7 لاکھ تک ہو سکتا ہے۔
مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ سعودی عرب کی ترقی کے ساتھ پاکستان کو بھی زرمبادلہ حاصل ہو سکے۔
پاکستانی نوجوانوں کے لیے درخواست
محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ میری درخواست ہے کہ پاکستان کی 52 فیصد یوتھ جو 20 سال یا اس سے زائد عمر کی ہے، اسے بہتر انداز میں سعودی عرب میں تعینات کرنے کے لیے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو موقع دیا جائے۔
نوجوانوں کے مسائل
محمد عدنان پراچہ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اس وقت نوجوانوں کا ملک سے باہر جانے کا عمل مشکل بنا دیا گیا ہے اور خرچہ بڑھ چکا ہے۔
ٹیسٹنگ اور بائیومیٹرک کے مسائل
عدنان پراچہ نے کچھ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ٹیسٹنگ سسٹم میں کرپشن ہو رہی ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں 5 بائیو میٹرک سینٹرز ہیں جو روزانہ 1800 یا 1900 بائیو میٹرک کرتے ہیں، لیکن گنجائش ناکافی ہے۔
ایک شخص کو شناختی کارڈ بناتے وقت، پاسپورٹ بنواتے وقت اور ملک سے باہر جانے کے لیے بار بار بائیو میٹرک کرانا پڑتا ہے۔
فیس 1500 روپے ہے لیکن لوگ 7 سے 10 ہزار روپے دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہیں ویزا ایکسپائر ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
میڈیکل رپورٹس اور تاخیر
عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل کراتے وقت ایک بڑا مسئلہ رپورٹس کے پینڈنگ ہونے کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں ملازمت کے بڑے مواقع، پاکستانی کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ میڈیکل کے بعد سعودی کمپنیاں 25 روز میں ہائرنگ مکمل چاہتی ہیں لیکن یہاں کرپشن کی وجہ سے رپورٹس میں جان بوجھ کر تاخیر کی جاتی ہے۔ ان مشکلات کو دور کیا جائے تاکہ باہر جانے والے پاکستانی آسانی سے ملک سے جائیں اور جا کر پاکستان کا نام روشن کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افرادی قوت اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز سعودیہ ملازمت عدنان پراچہ میڈیکل ویژن 2030