پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے پر بضد ہے، پاکستان واضح کرچکا ہے کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ، امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی ممنون ہے جن کی اسٹرٹیجک لیڈر شپ کی بدولت نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ رکی بلکہ دنیا میں جاری بہت سی جنگوں کو روکا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا کوئی اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ دورہ امریکا قومی اور بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ نہ صرف عسکری سطح پر تعلقات کی بہتری کی کوششوں کا آئینہ دار ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھانے کی ایک مدبرانہ کوشش بھی ہے۔
ان کا امریکی دارالحکومت میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب، صرف ایک رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی بیانیے کا اعلان تھا جس میں پاکستان کی داخلی و خارجی ترجیحات، چیلنجز اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے خدوخال کو واضح کیا گیا۔
پاکستانی کمیونٹی سے دوران خطاب انھوں نے عالمی اور علاقائی خطرات پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا سب سے توانا اور دو ٹوک موقف بھارت کی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسی RAW کی سرگرمیوں کے خلاف تھا۔ انھوں نے بھارت کی نام نہاد ’’ وشوا گرو‘‘ پالیسی کو ایک مصنوعی دعویٰ قرار دیا اور کہا کہ بھارت نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔
اس ضمن میں انھوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل، قطر میں آٹھ بھارتی نیول افسران کا معاملہ اورکلبھوشن یادیو جیسے واقعات کا حوالہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ ان واقعات کی فہرست پاکستان کے اُس دیرینہ مؤقف کی تصدیق ہے جس میں وہ عالمی برادری کو مسلسل خبردار کرتا رہا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔
یہ بیانیہ صرف ایک الزام نہیں بلکہ ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنا ہے تاکہ بھارت کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ آج دنیا میں خارجہ پالیسی صرف دو طرفہ ملاقاتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بیانیہ سازی ایک اہم آلہ کار بن چکا ہے۔ فیلڈ مارشل نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ بھارت کا اصل چہرہ اب مزید چھپایا نہیں جا سکتا اور بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے دو ٹوک مؤقف اختیارکرے۔
اس خطاب کا ایک اور اہم پہلو حالیہ بھارتی جارحیت پر فیلڈ مارشل کا موقف تھا، جس میں انھوں نے کہا کہ بھارت نے ’’ شرمناک بہانوں‘‘ کے تحت پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اور معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے اس اشتعال انگیزی کا پُرعزم اور بھرپور جواب دیا اور وسیع تر تنازعہ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے،کیونکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اپنی خود مختاری اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔
فیلڈ مارشل نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کسی بھی نئی بھارتی جارحیت کا ’’منہ توڑ جواب‘‘ دیا جائے گا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب کسی قسم کی نرمی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ ماضی میں پاکستان کو بارہا ایسے چیلنجزکا سامنا رہا جہاں بھارت نے طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کیا، مگر اب پاکستان ایک باوقار اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنے دفاعی نظریے کو عالمی سطح پر پیش کر رہا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قیادت اب محض ردعمل دینے پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ ایک فعال اور جارحانہ سفارتی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔
خطاب کا سب سے اہم اور جذباتی پہلو کشمیر کے مسئلے پر دیا گیا بیان تھا۔ فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی قول کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ بیان صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ موجودہ تناظر میں ایک بھرپور سیاسی پیغام ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان نے جس مؤثر انداز میں بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اجاگر کیا ہے، فیلڈ مارشل کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کا یہ موقف عالمی ضمیر کو ایک بار پھر متوجہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کوئی علیحدگی پسندی نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کی قانونی، آئینی اور انسانی بنیادوں پر کی جانے والی تحریک ہے جسے کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔
خطاب میں فیلڈ مارشل نے ایک دلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی ’’ اسٹرٹیجک لیڈر شپ‘‘ نے نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ کو روکا بلکہ دنیا میں جاری کئی دیگر تنازعات کو بھی کم کرنے میں مدد دی۔
اگرچہ یہ بیان کچھ حلقوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لیکن بین الاقوامی تعلقات میں جذبات سے زیادہ حقیقت پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے، اگر کسی وقت امریکا نے تعمیری کردار ادا کیا، تو اس کا اعتراف بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا تنقید کا اظہار۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا جائے اور فیلڈ مارشل کے اس بیان سے بھی یہی جھلکتا ہے۔اس پورے خطاب کا خلاصہ اگر نکالا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک دفاعی ادارے کے سربراہ کا بیان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مکمل قومی بیانیہ تھا جو ملکی سالمیت، خود مختاری، کشمیرکاز، عالمی سفارت کاری اور قوم سے ربط کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔
فیلڈ مارشل نے اپنی گفتگو میں صرف حالیہ خطرات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی مستقبل کی سمت بھی واضح کی۔ انھوں نے پاکستان کے مضبوط دفاع، مستحکم معیشت اور خود دار خارجہ پالیسی کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو آج کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشمکش شامل ہیں۔
انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات اور ان کی علمی و فنی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے ’’برین ڈرین‘‘ کے بجائے ’’برین گین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جو ایک نہایت مثبت اور مستقبل بین سوچ کی نمایندگی ہے۔ یہ جملہ صرف ایک فقرہ نہیں، بلکہ ایک سوچ کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شہریوں کو ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ یہ بیان اُن لاکھوں پاکستانیوں کے دل کو چھو گیا جو اپنے وطن سے دور ہو کر بھی اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ملکی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ قومی وحدت، آئینی بالادستی اور جمہوری تسلسل کے حامی ہیں۔ انھوں نے افواجِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرتے ہوئے عوام سے بھی قربت بڑھائی ہے، تاکہ فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یکجہتی کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔ جنرل عاصم منیر صرف ایک سپہ سالار نہیں، ایک ایسے وژنری رہنما ہیں جو پاکستان کے مستقبل کو ایک باوقار، پُرامن اور مضبوط ریاست کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں قوم کو امید ہے کہ ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے، جمہوریت مستحکم ہوگی اور دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بلاشبہ پاکستانی کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے، فیلڈ مارشل کا انداز ایک قومی رہنما کا تھا، جو صرف دفاعی پالیسی بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک فکری و نظریاتی موقف بھی دے رہا تھا۔ انھوں نے پاکستانی تارکینِ وطن کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستانی ثقافت کے سفیر ہیں بلکہ اپنے طرزِ عمل، کامیابیوں اور اخلاقیات کے ذریعے پاکستان کا چہرہ دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اس پیغام کے ذریعے انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے کی کوشش کی، جو آج کے دور میں کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی کمیونٹی فیلڈ مارشل نے نہیں بلکہ ایک ہے کہ پاکستان خارجہ پالیسی بین الاقوامی عالمی سطح پر پاکستان کے پاکستان کی کرتے ہوئے بھارت کی انھوں نے کہ بھارت کسی بھی دنیا کے صرف ایک کہ دنیا کہا کہ کو ایک یہ ایک رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
ہندوستان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی شکست کو قبول کرنے سے انکارکردیا اور اپنے جنگی نقصانات کا انکاری ہوا۔ دوم، اس نے جنگ بندی کروانے میں امریکی صدرکے کردارکا بھی اعتراف نہیں کیا اور نتیجتاً اپنے اوپر پچیس فیصد ٹیرف عائد کروا لیا جو اب بڑھ کر پچاس فیصد ہوگیا ہے۔
ہندوستان روسی تیل کی خریداری اور اس کی بین الاقوامی بازار میں فروخت کو خود کی بہت بڑی معاشی اور سفارتی کامیابی سمجھتا تھا۔ یکایک اس کی ساری معاشی اور غیر معاشی سرگرمیاں بین الاقوامی اداروں کے راڈار پر آگئی اور عالمی ذرایع ابلاغ میں اس پر تحقیقات اور گفتگو ہونے لگی۔
موجودہ حالات میں بات ٹیرف کی پابندیوں تک نہیں رہی ہیں بلکہ ہندوستان نے یکطرفہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے دنیا بھر کے دریاؤں کے استعمال اور پانی کے معاہدوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مہذب دنیا نے نہ صرف اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں پانی کے حوالے سے تنازعات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور جس کی وجہ ہندوستان ہے۔
دنیا یہ بھی خیال کرسکتی ہے کہ یہ ہندوستان کی عالمی امن کو خراب کرنے کی مذموم سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ہے اور دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہندوستان میں ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی نہ اہلیت ہے اور نہ سکت۔ ہندوستان صرف ایک ہندو ریاست ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ہرچند کے اب ہندوستانی فوج نے جنگ میں ہونیوالے نقصانات کا اعتراف کرنا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی نے بھی اپنے ذرایع ابلاغ کے غیر ذمے دارانہ کردار پر ان کی گوشمالی شروع کردی ہے۔ وہاں کے مہذب حلقوں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ ذرایع ابلاغ ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرتا، اس نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ پورا ذرایع ابلاغ مودی کے مذموم ایجنڈے پر کام رہا تھا کہ جس کا خمیازہ اب ریاست اور عوام بھگت رہے ہیں۔ مودی کے اکتیس اگست دوہزار پچیس کو چین کے ممکنہ دورے کی خبر نے بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور سنا ہے کہ ہمیں بھی دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔
مودی سات سال بعد چین جا رہا ہے۔ ابھی اس دورے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا بس آپ کو ایک کہاوت بتائی جاسکتی ہے کہ ’’ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کرگرتا ہے۔‘‘ ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، آپ سب کچھ بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں تبدیل کرسکتے۔
ہمارے بھی یہ مفاد میں ہے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بہتر اور برابری کی بنیاد پر استوار ہوں۔ اب ہم اس پر بات کریں گے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری کیوں ہے؟ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ایک پراکسی جنگ تھی۔
اصل لڑائی تو دراصل چین اور امریکا کی تھی، اگر اور کھل کر بات کرے تو مغربی اور چینی ٹیکنالوجی کے درمیان جنگ تھی۔ مغرب اپنی ٹیکنالوجی کے سامنے چینی ٹیکنالوجی کو حقیر سمجھتا تھا مگر یہ پاکستانیوں کی مہارت تھی کہ جس کے طفیل چین نے اپنی ٹیکنالوجی کا لوہا منوایا اور مغربی ٹیکنالوجی کو شکست دی۔
مغرب نے ہار ماننے کے بجائے اس کا ملبہ ہندوستانیوں کی اہلیت اور صلاحیت پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس نے ہندوستان کو آگ بگولہ کردیا اور یوں دونوں کے تعلقات میں دراڑ آنے لگی۔ اب اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں تو ہندوستان کے پاس دو راستے ہیں۔
ایک، وہ چین کے ساتھ اپنے تمام تعلقات ٹھیک کر لے کہ جس میں لداخ، تبت اور دیگر تنازعات شامل ہیں اور یا پھر وہ پاکستان سے اپنے تعلقات ٹھیک کر لے جو نسبتاً زیادہ سہل اور سستا راستہ ہے۔ چین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ مغربی دنیا ہی ہوگی اور ڈر ہے کہ یہ راستہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جائے گا جوکہ امریکا اور اس کا موجودہ صدر چاہتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی ہزار سال کی مشترکہ تاریخ ہے اور یہ حقیقت ہے۔ اس تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہندوستان کھلے دل سے پاکستان اور اس کے وجود کو تسلیم کر لے، اگر ہندوستان ایسا کرتا ہے تو سب کچھ بہت آسان ہوجائے گا۔
کشمیر کا مسئلہ درحقیقت پانی کا مسئلہ ہے۔ فطرت نے وہاں پانی کے اتنے وسائل رکھے ہیں کہ جو دونوں ملک کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے بلکہ سمندر برد کرنے پڑتے ہیں، اگر جرمنی اور فرانس اپنی تمام تر خون آلود اور خونخوار تاریخ کے باوجود یورپی یونین میں ایک ہوسکتے ہیں۔
اگر جرمنی اور برطانیہ دو عالمی جنگیں لڑنے کے باوجود یورپ میں شیر و شکر ہوکر رہ سکتے ہیں تو پھر پاکستان اور ہندوستان کے اچھے تعلقات میں رکاوٹ کیوں ہے؟ یہ مغربی دنیا کا وطیرہ رہا ہے کہ جب انھیں اپنا نوآبادیاتی نظام دنیا سے ختم کرنا پڑا تو ہر جگہ سے جانے سے پہلے انھوں نے کوئی نہ کوئی تنازعہ پیچھے چھوڑ دیا جو ان ممالک کے لیے آگے چل کر ناسور بن جاتا ہے۔
یہ بات سمجھا جتنا اب ضروری ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ ہندوستان پاکستان کے ذریعے نہ صرف مغرب سے اپنے تعلقات ٹھیک کرسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک مل کر بہت بڑی علاقائی قوت بن سکتے ہیں اور پھر مغرب ہمیں نہ یوں لڑوا سکے گا اور نہ بلیک میل کرسکے گا۔
یہ بات جتنی پاکستان کے مفاد میں ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہندوستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کے پاس کھونے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہے، ہماری معاشی حالت دنیا کے سامنے عیاں ہے لیکن ہندوستان کے اپنے عالمی عزائم بہت زیادہ ہیں اور اسی لیے اس کا اسٹیک یا داؤ پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے، اب یہ اس نے طے کرنا ہے کہ وہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا چاہتا ہے۔
مودی سات سال بعد چین کے دورے پر جا رہا ہے، ہرچندکہ ان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن جلد ہی ہوجائے گی۔ شنید یہ ہے کہ مودی شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرے گا۔ اس وقت دونوں ممالک کے ماہرین اس دورے کی جزئیات طے کر رہے ہونگے اور اس کے بعد کے جاری ہونیوالے مشترکہ بیانیہ پر بھی کام ہو رہا ہوگا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ملاقات کو مغرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا؟ بالکل بھی نہیں بلکہ ہندوستان کے لیے مشکلات بڑھ جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے خالصتان تحریک کی حامی تنظیم ’’ سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنما گروپتونت سنگھ پنن کو خط لکھ دیا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑدی ہے۔
ہندوستان میں بہت ساری آزادی کی تحریکیں چل رہی ہے کہ جن کو ہوا اور پانی دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے ورنہ ہم اور آپ اپنی زندگی میں ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہوتے دیکھیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام صورتحال تو پاکستان کے حق میں ہے۔