قربانی سے تعمیر تک۔۔۔قائد کے پاکستان کی تلاش!!!
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
14 اگست 1947 کا سورج برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیام لے کر طلوع ہوا۔ یہ وہ دن تھا جب غلامی کی طویل اور کڑی زنجیریں ٹوٹ گئیں، جب لاکھوں جانوں کا نذرانہ، ہزاروں گھرانوں کی اجڑی بستیاں، اور بے شمار قربانیوں کی خوشبو ایک آزاد ریاست کے قیام کی صورت میں رنگ لائی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک خواب، جو کبھی شاعر مشرق کی آنکھوں میں روشن ہوا اور قائداعظم کی بصیرت سے جلا پایا، حقیقت کا روپ دھار گیا۔
اس وقت کا پاکستان کاغذ پر نیا تھا مگر دلوں میں صدیوں پرانا، وسائل میں غریب مگر جذبے میں بے مثال، کمزور مگر ایمان، اتحاد اور قربانی کے زادِ راہ سے مالا مال۔
اس پاکستان میں قیادت مقصد پرست تھی، کردار اس سے بھی بلند۔ سیاست خدمت تھی، وعدے عزم تھے، اور قوم ایک جھنڈے کے سائے تلے ایک جسم اور ایک جان کی مانند تھی۔
عالمی برادری کے لیے ہم ایک نوآموز مگر خوددار ملک تھے، جس کے پیچھے قربانیوں کی ایک لازوال داستان تھی اور جس کے سامنے ترقی کا ایک روشن افق۔
لیکن وقت کے دھارے کے ساتھ منظر بدلا۔ آج کا پاکستان بظاہر ترقی یافتہ ہے، اونچی عمارتیں، تیز رفتار مواصلات، ایٹمی طاقت، اور دنیا کی پانچویں بڑی آبادی۔ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جو ایک کامیاب ریاست کو چاہیے، مگر وہ جذبہ، وہ اتحاد، وہ قربانی کا ولولہ کہیں دھندلا گیا ہے۔
سیاست خدمت سے خود غرضی کا روپ دھار گئی ہے، قیادت وژن سے زیادہ اقتدار کی پیاسی دکھائی دیتی ہے، اور قوم گروہی و لسانی تقسیم کی خلیج میں بٹ گئی ہے۔
سماجی سطح پر ہم نے جدیدیت کو اپنایا، مگر اس کے ساتھ اپنی روایات اور اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مادی دوڑ میں ہم نے اجتماعی بھلائی اور قربانی کی روح کھو دی۔
عالمی سطح پر کبھی ہم ایک کلیدی اسٹریٹجک اتحادی اور امن کے سفیر سمجھے جاتے تھے، مگر سیاسی افراتفری، دہشت گردی کے سائے، اور معاشی بحرانوں نے ہماری ساکھ کو دھندلا دیا۔ دنیا ہمیں ایک باصلاحیت مگر خود اپنی کمزوریوں میں الجھی ریاست کے طور پر دیکھتی ہے۔
یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ اس پاکستان کو قائد کا پاکستان بنانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونا ہوگا۔
ہمیں کرپشن، اقربا پروری، اور ذاتی مفاد کی سیاست کو دفن کرنا ہوگا۔ قانون کی بالادستی اور میرٹ کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگی۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مضبوط کرنا، نوجوانوں کو روزگار دینا، اور معیشت کو استحکام کی راہ پر ڈالنا ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ 1947 میں ہم نے وسائل کے بل بوتے پر نہیں، بلکہ ایک نظریے کے سہارے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ آج بھی اگر ہم اسی جذبے کو جگا لیں تو کوئی طاقت ہمیں ترقی یافتہ اور باوقار قوم بننے سے نہیں روک سکتی۔
ہمیں ایک بار پھر وہی قربانی کا چراغ جلانا ہوگا، وہی اتحاد کا جھنڈا بلند کرنا ہوگا، اور وہی خودداری کا عزم باندھنا ہوگا۔ یہی راستہ ہمیں مایوسی کی تاریکی سے نکال کر قائد کے پاکستان کی روشنی میں لے جا سکتا ہے۔ ایک ایسا پاکستان جو دنیا میں سربلند، خوددار اور اپنے خوابوں کا امین ہو۔
اگر ہم اپنی انا کو دفن کر کے ایک بار پھر وطن کو دل میں بسا لیں… تو آنے والی نسلیں ہمیں قربانی اور عزم کا استعارہ کہیں گی، مایوسی اور ناکامی کا نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان یوم ا زادی کے لیے
پڑھیں:
عدالتیں ہتھیار کیوں بن گئیں؟ ہمیں وکٹ سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور سینیٹ میں پارٹی لیڈر علی ظفر نے حالیہ اجلاس میں حکومت کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ اپوزیشن کے ارکان کو اسمبلی سے نکال دیا جائے۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے کارکنوں پر سزاوں کی بارش بیچی گئی، جھوٹے مقدمات میں ڈوبا کر الیکشن کمیشن نے ہماری نااہلی پر مہر لگا دی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ آرٹیکل 63(1)(ہ) ڈاکٹریٹ کے فیصلے پر نااہلی کا اطلاق نہیں ہوتا، جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا اثر نہیں ہوتا۔
علی ظفر نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی تیزی میں بے بنیاد نااہلیوں کے ذریعے اپوزیشن کو خاموش کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے انتقامی کارروائی کا حصہ ہیں اور عوام کی آواز سے حکومت کو خوف ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ عوامی نمائندے ہیں، ناخفشل سزاوں سے ووٹر کو سزا دینا سیاسی زیادتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے جواباً کہا آپ جو کچھ کل کیے، آج اسی کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اس دوران ایوان میں لفظی پلٹبرزم کی صورت پیدا ہو گئی، دونوں اطراف سے تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
فیصلے کے قانونی پہلو پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سزا نامے کے جاری ہوتے ہی نااہلی ہو جاتی ہے، چاہے بعد میں ضمانت کیوں نہ مل جائے۔ انہوں نے مختلف مقدمات، جیسے **حنیف عباسی کی عمر قید یا چیئرمین سینٹ کے بیٹے کی گرفتاری اور حمزہ شہباز کا قید میں رہنا** جیسے واقعات کا ذکر بھی کیا۔ یہ سینیٹ میں بظاہر معاملہ سیاسی طاقت اور قانون کے استعمال کے گرد گھومنے لگا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور فرائض کی حدود کے حوالے سے آئینی مفاہمت کا بحران ہے۔انصاف طاقتوروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے تو حکومتیں گرانے والی تحریکیں جنم لیتی ہیں، حکومت نے عدلیہ کی ساکھ اور خود مختاری کونقصان پہنچایا۔