اداکارہ حبا علی خان کا شکوہ خواتین کو آج بھی مردوں جیسی آزادی میسر نہیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
معروف اداکارہ حبا علی خان نے ایک حالیہ پوڈکاسٹ گفتگو میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ آج کے دور میں بھی خواتین کو وہ آزادی حاصل نہیں جو مردوں کو کم عمری سے مل جاتی ہے انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بچیوں کو یہ کہہ کر محدود کر دیا جاتا ہے کہ ہم تم پر شک نہیں کر رہے بلکہ زمانہ خراب ہے اور اس سوچ کا کوئی عملی حل نظر نہیں آتا کیونکہ اکثر لڑکیاں خود بھی اسے درست مان لیتی ہیں حبا علی خان نے بتایا کہ وہ شوبز انڈسٹری میں کام کرتی ہیں گاڑی چلاتی ہیں اور اپنی پسند کے مطابق لباس پہنتی ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے معاملات میں ان کے پاس وہ آزادی نہیں جو ان کے بھائی کو بارہ سال کی عمر سے حاصل ہے انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنے خاندان میں ذکر کریں کہ ان کا کوئی مرد دوست ہے تو گھر والے فوراً اعتراض کرتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکا صرف دوست نہیں ہوسکتا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ عام سوچ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو دوست نہیں سمجھتے اور خواتین کو دیکھ کر سب سے زیادہ ردعمل بھی خواتین کی جانب سے آتا ہے جو اپنا غصہ مردوں پر نکالتی ہیں حبا علی خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ خواتین کی زندگی کے فیصلوں پر آج بھی سماجی دباؤ اور قدغنیں غالب ہیں جس کے باعث انہیں اپنی مرضی اور آزادی مکمل طور پر حاصل نہیں ہو پاتیاداکارہ حبا علی خان کا شکوہ خواتین کو آج بھی مردوں جیسی آزادی میسر نہیں
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: حبا علی خان خواتین کو
پڑھیں:
سندھ حکومت کا مردوں کو نس بندی کی سہولت دینے کا فیصلہ
محکمہ بہبود آبادی سندھ جان ہاپکنز اور زیبسٹ یونیورسٹی کے ذریعے گھر گھر سروے کرے گا، جو بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مدد سے مکمل ہوگا اور فیملی پلاننگ 2030ء کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ حکومت نے آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے نس بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں ہر سال آبادی ایک ضلع کی آبادی جتنی بڑھ رہی ہے، جس کو روکنے کیلئے صوبائی حکومت مردوں میں نس بندی (ایسا مستقل آپریشن جس کے بعد بچے پیدا نہیں ہوتے) اور خواتین میں بچوں کی پیدائش میں تین ماہ کا وقفہ دینے کیلئے خود لگانے والے انجیکشن سایانا پریس کو عام کر رہی ہے۔ محکمہ بہبود آبادی سندھ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ساتھ مل کر صوبے کی 1,600 یونین کونسلز میں گھر گھر جا کر سروے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ سکریٹری بہبود آبادی سندھ حفیظ اللہ عباسی نے بتایا کہ محکمہ ساحلی علاقوں اور جزیروں میں حمل سے بچاؤ کی سہولیات (جیسے نس بندی، انجیکشن، گولیاں، پیدائش میں وقفہ دینے والے آلات) فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹریوں میں تقریباً 50 لاکھ مزدوروں کیلئے آگاہی سیشن ہوں گے، جبکہ اسکول و یونیورسٹی کے طلبہ کو آبادی کے بڑھنے کے منفی اثرات بتائے جائیں گے، مرد چونکہ گھروں میں بڑے فیصلے کرتے ہیں، اس لیے انہیں بھی ان پروگرامز میں شامل کرنا ضروری ہے۔
سکریٹری بہبود آبادی سندھ نے بتایا کہ محکمے کے تحت اب تک صوبے میں 3,000 مردوں کی نس بندی ہو چکی ہے، کئی مردوں نے یہ آپریشن اس لیے کروایا کیونکہ ان کے بچوں میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا تھا یا ان کو ایچ آئی وی/ایڈز تھا۔ ڈائریکٹر ایڈمن فیصل مہر نے بتایا کہ بڑے اسپتالوں، محکمہ صحت اور این جی اوز کو مانع حمل کا سامان (جیسے نس بندی کے آلات، آئی یو سی ڈی، انجیکشن، امپلانٹس اور گولیاں) فراہم کیا جاتا ہے تاکہ آبادی کی رفتار کم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی آبادی اس وقت 5 کروڑ 50 لاکھ ہے، اور ہر سال تقریباً 14 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے، 18-2017ء میں صوبے کی مانع حمل شرح 31 فیصد تھی، جسے 2025ء تک 47 فیصد اور 2030ء تک 57 فیصد کرنے کا ہدف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے بڑے اسپتالوں میں فیملی پلاننگ کے سینٹرز ہیں، جہاں آبادی جاکر مانع حمل کیلئے ادویات، انجیکشن سمیت دیگر سامان ڈاکٹر دیتے ہیں، جبکہ کراچی اور اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں آگاہی سیشنز ہوتے ہیں، جس کے بعد شرکا کو مانع حمل کیلئے سامان بھی دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے 9 بڑے اسپتالوں میں 20 گائنی وارڈز میں خواتین کو آئی یو سی ڈی (رحم میں لگایا جانے والا چھوٹا سا آلہ جو 10 سال تک حمل روکتا ہے) اور امپلانٹس (بازو میں لگنے والی اسٹک جو 3 سے 5 سال تک حمل روکتی ہے) فراہم کیے جا رہے ہیں۔ مردوں میں نس بندی کو عام کرنے کیلئے ہینڈز کے ایک ہزار سے زائد میل موبلائزرز کو ٹریننگ دے رہے ہیں، کراچی میں ویزیکٹومی (نس بندی) کیسز 23 سے بڑھ کر 2022ء میں 2,500 ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کیلئے سایانا پریس جیسا آسان انجیکشن بھی موجود ہے، جو وہ خود لگا سکتی ہیں، 2018ء سے اب تک 13 لاکھ انجیکشن استعمال ہو چکے ہیں۔ اندرون سندھ کم عمری کی شادیوں کے باعث بچے پیدا کرنے میں وقفہ نہیں رکھا جاتا، جس سے ایک عورت کے 30 سال کی عمر تک 6 سے 8 بچے ہو جاتے ہیں۔ محکمہ جان ہاپکنز اور زیبسٹ یونیورسٹی کے ذریعے گھر گھر سروے کرے گا، جو بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مدد سے مکمل ہوگا اور فیملی پلاننگ 2030ء کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے گا۔