آواز
ایم سرورصدیقی
کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے۔ ایک وقت تھا جب اس ملک میں ڈرائنگ روم کی سیاست کا دور دورہ تھا۔ اس ماحول میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عام آدمی کو سیاست سے روشناس کروایا ۔عوام کو اپنے حقوق کااحساس ہوا ۔ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کیلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے ۔زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں ،جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے ۔لیکن عوام کی طاقت،سیاست کے بدلتے تیور اور جمہوریت کے استحکام نے ان لوگوں کو مضطرب کرکے رکھ دیاہے کیونکہ وہ اندر کے خوف سے بے چین ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔ دوسروںکیلئے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے۔ درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہیں۔تاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں۔
غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ،دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی ،عوام کو شعور دینے والے تمام رہنمائوں کی جدوجہد کیلئے لوگوںکی استقامت اور جرأت کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ اس سے شعور و آگہی کے کئی سورج طلوع ہوں گے۔ عام آدمی جب یہ محسوس کرتاہے کہ استحصالی نظام کو بچانے کیلئے زرداری،فضل الرحمن،نوازشریف جیسے سیاستدان اندر سے ایک ہیں ،یہ سب مفادات کے لئے متحدہیں ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ قومی و مذہبی رہنما جن کے ایک دن کے اخراجات لاکھوں میں ہیں ،وہ بھی سالانہ چند ہزار ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے پارلیمنٹ ان دو نمبر لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اول درجے کے جھوٹے اور ٹیکس چورہیں ۔حکمران تو محض اپنے اقتدارکو جمہوریت سمجھ کر تنقید کرنے والوںکوقابل ِ تعزیر سمجھنے لگتے ہیں۔عوام کی اکثریت کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے ۔آئین کی پہلی100شقوںپر عمل ہو جائے تو پاکستان کے غریبوںکی حالت اور حالات بدل جائیں گے۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی معزز رکن پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن اور لوڈشیڈنگ پر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔۔۔کسی وزیر نے یہ بھی بتانا گوارانہیں کیا حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے کیا کررہی ہیں؟مہنگائی اور جرائم کی روک تھام کیلئے کیا ترجیحات ہیں؟ حالانکہ یہ سب عوام کے نمائندے ہیں ۔الیکشن کے دوران ہر قیمت پر جیتنے کی خواہش میں مرنے مارنے پر تل جانے والے جب جیت جاتے ہیں تو ان میں سے نوے فی صد نے کبھی پارلیمنٹ میں زبان سے کبھی ایک لفظ ادانہیں کیا ۔۔ کیا یہ گونگے ہیں؟ اب تلک یہ ہوتا آیاہے جب بھی کوئی سیاستدان اقتدار میں آتاہے، اس کے ارد گرد خوشامدی،درباری اور مفاد پرست قسم کے لوگ گھیرا ڈال لیتے ہیں جو درست بات بھی حکمر ان تک نہیں پہنچنے دیتے ۔تکبر، رعونت،خوشامد اور خودپرستی کی وجہ سے وہ عوام سے دور جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ،لیکن انہیں اس کا مطلق احساس نہیں ۔اب نوازشریف کہاں ہیں اور ان کا بیانیہ کدھر گیا ۔کوئی نہیں جانتا؟ اس قوم کو ہر نئے حکمران سے بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں اور وہ انہیں کے نعرے مارنے میں مگن ہو جاتی ہے۔
میاںنوازشریف اور ان سے پہلے پرویزمشرف وہ پی آئی اے، اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے بیچ کرحالات درست کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی دال نہیں گلی ۔اب تبدیلی سرکار نے بھی کئی قومی اداروںکی نجکاری کا عندیہ دیاہے ۔کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے ۔لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔حکمرانوںکی نااہلی سے ملکی ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے ورنہ جس ترقی کا دعویٰ زور و شور سے کیا جارہا تھا اسے آئی ایم ایف بہاکر لے گیا ہے ۔باقی رہی سہی کسر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور پاکستانی روپے کی بے توقیری نے پوری کردی ہے، حالانکہ پاکستان میں ترقی کا فائدہ ہمیشہ صرف ٹھیکیداروں اور کاروباری خاندانوںکا فائدہ ہی ہوتاہے اور عام آدمی کی حصہ میں وہی محرومیاں ہیں جس کا شکار وہ پہلے سے ہیں۔ عوام نے کبھی منتخب نمائندوں، پارلیمنٹ اور وزیر ِ خرانہ سے پوچھنے کی جرأت نہیں کی کہ جناب غیرملکی قرضے کیوں لئے جارہے ہیں ؟ ماضی میں لیے جانے والے قرضوں کا تصرف کیا رہا؟ کون سا نیا قومی منصوبہ شروع کیا گیا؟ کیا حکمران قوم کو بتانا پسندکریں گے کہ قومی اثاثے اونے پونے بیچنے میں کیا منطق ہے؟ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل اورایم سی بی فروخت کرنے سے قوم کو کیا فائدہ ہوا،کتنا منافع ملا؟ہمارے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور اشرافیہ نے ملک لوٹ کر جو رقم باہر جمع کرواروکھی ہے ،وہ کب واپس آئے گی اس کا مطلب ہے یہ لوگ پاکستان میں کاروبار کرنا بھی پسندنہیں کرتے ۔کمال ہے پھر بھی میڈ ان پاکستان کہلاتے ہیں۔ ان کے اپنے ادارے ترقی کرکے ایک سے دو ۔دو سے درجن بن گئے ہیں ،لیکن قومی ادارے بیچنے کیلئے ان کے ملازمین کو گولیاں مار کر رنگین کیا جا رہاہے جو حکمران چند ادارے چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ملک کیا چلائیں گے؟ کاش کوئی حکمرانوںکو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارانہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ ترقی کی اصل حقیقت کیا ہے؟کیا عوام نہیں جانتے ؟ جاننے والے کڑھتے رہتے ہیں ۔
چند سال پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حکومت نے نجی پاور کمپنیوںکو ایک ہفتہ کے دوران غیرقانونی طورپر480ارب اداکئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنیوںنے خود15فیصد کم وصولی کا مطالبہ کیا سیکریٹری پانی و بجلی کو اضافی ادائیگی واپس لینے اورنجی پاور کمپنیوںکی پیداواری صلاحیت کا ازسرنو آڈٹ کروانے کا حکم بھی دیا کیا منطقی انجام کیا ہوا ؟ کوئی نہیں جانتا ایک اور خوفناک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ کچھ نجی پاور کمپنیوںکو فوٹو سٹیٹ کاپی پر ادائیگی کردی گئی ۔مال ِ مفت دل ِ بے رحم کی شاید اس سے بہترمثال مل ہی نہیں سکتی۔ پاکستان کے ساتھ حکمرانوںکا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔یہ ساری باتیں ارکانِ پارلیمنٹ کے نوٹس میں ہیں جو ذاتی معاملات پر طوفان اٹھا لیتے ہیں ۔بات بات پر ان کااستحقاق مجروح ہوتا ہے ۔قومی مفادات پر آواز بلند نہ کرنے کا مطلب ہے ،ارکانِ اسمبلی واقعی گونگے ہیں۔ گونگے کہیں کے۔ ایک نگران وزیر ِ اعظم نے سوات میں اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر فاتحہ پڑھی جو قوم کو 6کروڑ میں پڑی ، کسی ادارہ یا کسی شخصیت نے مجال ہے موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیش رو کی روش پرچلناہی اپنا مطمح نظر بنالیا ہے۔ ن لیگ کے دور میں شوگرملزمالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی، اس کے باوجود چینی مہنگی ہوگئی ۔موجودہ عمران خان کی حکومت نے بھی اربوںکی سبسڈی دی ،مرے پر 100درے کے مصداق چینی مزید مہنگی ہوگئی ۔وزیر ِ اعظم نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور مزے کی بات یہ ہوئی ہو کہ چینی مزید مہنگی ہوگئی اب تو بوگوںنے کہناشروع کردیاہے عمران خان جس کا نوٹس لیں وہ چیزمہنگی ہوجاتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، ادویات،بجلی،گیس اور اشیائے خورونوش کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔یہ مافیاز بے نقاب بھی ہوگئے لیکن انہوںنے عوام کو اور حکومت کو رگڑا بھی لگایا اور ان کا بگڑا بھی کچھ نہیں ۔عوام کے ووٹوںسے منتخب ہونے والے گم صم بنے ہوئے ہیں ۔کوئی عوام کے حقوق کے لئے آوازنہیں اٹھاتا ۔جناب عوام کے ٹیکسز پر عیاشی کرنے والے کیا کررہے ہیں اور عوام کے ساتھ یہ کیا کیا جارہاہے گونگے کہیں کے۔ ہمیں یقین ہے جتنے بھی عام انتخابات ہوجائیں ان کے نتیجہ میں بھی کچھ تبدیل نہیں ہوگا ۔غریبوںکا یہی حال رہے گا اور ارکان ِ اسمبلی بھی ان جیسے ہی آئیں گے یعنی ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیساہوگا ۔مطلب حال و مستقبل میں بھی ماضی جیسے گونگے ہی منتخب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ملکی ترقی ترقی کا عوام کے قوم کو نے بھی کے دور بات ہے
پڑھیں:
فتنہ پارٹی یوم آزادی پر شرپسندی، انتشار پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہی: عظمیٰ بخاری
لاہور (نیوز رپورٹر) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے قوم 14 اگست کو یومِ آزادی اور آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر بھرپور جوش و خروش سے جشن منائے گی۔ جبکہ فتنہ پارٹی شرپسندی اور انتشار پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا یہ بدقسمتی ہے کہ ایک مخصوص ٹولہ ہر قومی دن کو سیاست کی نذر کر دیتا ہے۔ قومی دن پر احتجاج کرنا کسی محبِ وطن جماعت کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔ یہ وہی 2014ء کے دھرنوں کی پیداوار جماعت ہے جس نے احتجاج اور دھرنوں کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ اس جماعت کے نزدیک نہ کوئی قومی دن محترم ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی تہوار۔ اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ پنجاب میں 5 اگست کو بھی کوئی احتجاجی ریلا باہر نہیں آیا تھا اور اب بھی عوام ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے، کیونکہ پنجاب اور خیبرپی کے کے عوام اس منفی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بہتر یہی ہے 14 اگست کے روز کا احتجاج ملتوی کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی تو حب الوطنی کا مظاہرہ کر لیں، اگر واقعی پاکستانیت اور انسانیت کا کوئی جذبہ باقی ہے۔ قیدی نمبر 420 کی ہر بات پر لبیک کہنے والا ٹولہ جہالت کی آخری حدوں کو چھو چکا ہے، مگر قوم اب ان کی اصلیت جان چکی ہے اور اس سیاست کو مسترد کر چکی ہے۔ عوام کی خوشیوں کو خراب کرنے کی اجازت کسی فسادی ٹولے کو نہیں دی جائے گی۔