Juraat:
2025-10-04@23:41:06 GMT

گونگے کہیںکے ۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

گونگے کہیںکے ۔۔۔

آواز
ایم سرورصدیقی

کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے۔ ایک وقت تھا جب اس ملک میں ڈرائنگ روم کی سیاست کا دور دورہ تھا۔ اس ماحول میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عام آدمی کو سیاست سے روشناس کروایا ۔عوام کو اپنے حقوق کااحساس ہوا ۔ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کیلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے ۔زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں ،جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے ۔لیکن عوام کی طاقت،سیاست کے بدلتے تیور اور جمہوریت کے استحکام نے ان لوگوں کو مضطرب کرکے رکھ دیاہے کیونکہ وہ اندر کے خوف سے بے چین ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔ دوسروںکیلئے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے۔ درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہیں۔تاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں۔
غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ،دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی ،عوام کو شعور دینے والے تمام رہنمائوں کی جدوجہد کیلئے لوگوںکی استقامت اور جرأت کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ اس سے شعور و آگہی کے کئی سورج طلوع ہوں گے۔ عام آدمی جب یہ محسوس کرتاہے کہ استحصالی نظام کو بچانے کیلئے زرداری،فضل الرحمن،نوازشریف جیسے سیاستدان اندر سے ایک ہیں ،یہ سب مفادات کے لئے متحدہیں ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ قومی و مذہبی رہنما جن کے ایک دن کے اخراجات لاکھوں میں ہیں ،وہ بھی سالانہ چند ہزار ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے پارلیمنٹ ان دو نمبر لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اول درجے کے جھوٹے اور ٹیکس چورہیں ۔حکمران تو محض اپنے اقتدارکو جمہوریت سمجھ کر تنقید کرنے والوںکوقابل ِ تعزیر سمجھنے لگتے ہیں۔عوام کی اکثریت کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے ۔آئین کی پہلی100شقوںپر عمل ہو جائے تو پاکستان کے غریبوںکی حالت اور حالات بدل جائیں گے۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی معزز رکن پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن اور لوڈشیڈنگ پر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔۔۔کسی وزیر نے یہ بھی بتانا گوارانہیں کیا حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے کیا کررہی ہیں؟مہنگائی اور جرائم کی روک تھام کیلئے کیا ترجیحات ہیں؟ حالانکہ یہ سب عوام کے نمائندے ہیں ۔الیکشن کے دوران ہر قیمت پر جیتنے کی خواہش میں مرنے مارنے پر تل جانے والے جب جیت جاتے ہیں تو ان میں سے نوے فی صد نے کبھی پارلیمنٹ میں زبان سے کبھی ایک لفظ ادانہیں کیا ۔۔ کیا یہ گونگے ہیں؟ اب تلک یہ ہوتا آیاہے جب بھی کوئی سیاستدان اقتدار میں آتاہے، اس کے ارد گرد خوشامدی،درباری اور مفاد پرست قسم کے لوگ گھیرا ڈال لیتے ہیں جو درست بات بھی حکمر ان تک نہیں پہنچنے دیتے ۔تکبر، رعونت،خوشامد اور خودپرستی کی وجہ سے وہ عوام سے دور جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ،لیکن انہیں اس کا مطلق احساس نہیں ۔اب نوازشریف کہاں ہیں اور ان کا بیانیہ کدھر گیا ۔کوئی نہیں جانتا؟ اس قوم کو ہر نئے حکمران سے بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں اور وہ انہیں کے نعرے مارنے میں مگن ہو جاتی ہے۔
میاںنوازشریف اور ان سے پہلے پرویزمشرف وہ پی آئی اے، اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے بیچ کرحالات درست کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی دال نہیں گلی ۔اب تبدیلی سرکار نے بھی کئی قومی اداروںکی نجکاری کا عندیہ دیاہے ۔کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے ۔لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔حکمرانوںکی نااہلی سے ملکی ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے ورنہ جس ترقی کا دعویٰ زور و شور سے کیا جارہا تھا اسے آئی ایم ایف بہاکر لے گیا ہے ۔باقی رہی سہی کسر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور پاکستانی روپے کی بے توقیری نے پوری کردی ہے، حالانکہ پاکستان میں ترقی کا فائدہ ہمیشہ صرف ٹھیکیداروں اور کاروباری خاندانوںکا فائدہ ہی ہوتاہے اور عام آدمی کی حصہ میں وہی محرومیاں ہیں جس کا شکار وہ پہلے سے ہیں۔ عوام نے کبھی منتخب نمائندوں، پارلیمنٹ اور وزیر ِ خرانہ سے پوچھنے کی جرأت نہیں کی کہ جناب غیرملکی قرضے کیوں لئے جارہے ہیں ؟ ماضی میں لیے جانے والے قرضوں کا تصرف کیا رہا؟ کون سا نیا قومی منصوبہ شروع کیا گیا؟ کیا حکمران قوم کو بتانا پسندکریں گے کہ قومی اثاثے اونے پونے بیچنے میں کیا منطق ہے؟ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل اورایم سی بی فروخت کرنے سے قوم کو کیا فائدہ ہوا،کتنا منافع ملا؟ہمارے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور اشرافیہ نے ملک لوٹ کر جو رقم باہر جمع کرواروکھی ہے ،وہ کب واپس آئے گی اس کا مطلب ہے یہ لوگ پاکستان میں کاروبار کرنا بھی پسندنہیں کرتے ۔کمال ہے پھر بھی میڈ ان پاکستان کہلاتے ہیں۔ ان کے اپنے ادارے ترقی کرکے ایک سے دو ۔دو سے درجن بن گئے ہیں ،لیکن قومی ادارے بیچنے کیلئے ان کے ملازمین کو گولیاں مار کر رنگین کیا جا رہاہے جو حکمران چند ادارے چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ملک کیا چلائیں گے؟ کاش کوئی حکمرانوںکو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارانہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ ترقی کی اصل حقیقت کیا ہے؟کیا عوام نہیں جانتے ؟ جاننے والے کڑھتے رہتے ہیں ۔
چند سال پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حکومت نے نجی پاور کمپنیوںکو ایک ہفتہ کے دوران غیرقانونی طورپر480ارب اداکئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنیوںنے خود15فیصد کم وصولی کا مطالبہ کیا سیکریٹری پانی و بجلی کو اضافی ادائیگی واپس لینے اورنجی پاور کمپنیوںکی پیداواری صلاحیت کا ازسرنو آڈٹ کروانے کا حکم بھی دیا کیا منطقی انجام کیا ہوا ؟ کوئی نہیں جانتا ایک اور خوفناک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ کچھ نجی پاور کمپنیوںکو فوٹو سٹیٹ کاپی پر ادائیگی کردی گئی ۔مال ِ مفت دل ِ بے رحم کی شاید اس سے بہترمثال مل ہی نہیں سکتی۔ پاکستان کے ساتھ حکمرانوںکا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔یہ ساری باتیں ارکانِ پارلیمنٹ کے نوٹس میں ہیں جو ذاتی معاملات پر طوفان اٹھا لیتے ہیں ۔بات بات پر ان کااستحقاق مجروح ہوتا ہے ۔قومی مفادات پر آواز بلند نہ کرنے کا مطلب ہے ،ارکانِ اسمبلی واقعی گونگے ہیں۔ گونگے کہیں کے۔ ایک نگران وزیر ِ اعظم نے سوات میں اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر فاتحہ پڑھی جو قوم کو 6کروڑ میں پڑی ، کسی ادارہ یا کسی شخصیت نے مجال ہے موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیش رو کی روش پرچلناہی اپنا مطمح نظر بنالیا ہے۔ ن لیگ کے دور میں شوگرملزمالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی، اس کے باوجود چینی مہنگی ہوگئی ۔موجودہ عمران خان کی حکومت نے بھی اربوںکی سبسڈی دی ،مرے پر 100درے کے مصداق چینی مزید مہنگی ہوگئی ۔وزیر ِ اعظم نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور مزے کی بات یہ ہوئی ہو کہ چینی مزید مہنگی ہوگئی اب تو بوگوںنے کہناشروع کردیاہے عمران خان جس کا نوٹس لیں وہ چیزمہنگی ہوجاتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، ادویات،بجلی،گیس اور اشیائے خورونوش کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔یہ مافیاز بے نقاب بھی ہوگئے لیکن انہوںنے عوام کو اور حکومت کو رگڑا بھی لگایا اور ان کا بگڑا بھی کچھ نہیں ۔عوام کے ووٹوںسے منتخب ہونے والے گم صم بنے ہوئے ہیں ۔کوئی عوام کے حقوق کے لئے آوازنہیں اٹھاتا ۔جناب عوام کے ٹیکسز پر عیاشی کرنے والے کیا کررہے ہیں اور عوام کے ساتھ یہ کیا کیا جارہاہے گونگے کہیں کے۔ ہمیں یقین ہے جتنے بھی عام انتخابات ہوجائیں ان کے نتیجہ میں بھی کچھ تبدیل نہیں ہوگا ۔غریبوںکا یہی حال رہے گا اور ارکان ِ اسمبلی بھی ان جیسے ہی آئیں گے یعنی ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیساہوگا ۔مطلب حال و مستقبل میں بھی ماضی جیسے گونگے ہی منتخب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ملکی ترقی ترقی کا عوام کے قوم کو نے بھی کے دور بات ہے

پڑھیں:

ایبسولیوٹلی ناٹ والے کہاں ہیں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کے بڑے بڑے دعوے، پرجوش تقریریں اور خودساختہ غیرت کے نعرے وقت کے امتحان میں اکثر کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ اس نے عوام کو وقتی طور پر جوش و خروش دیا، حکمران طبقے کے خلاف غصہ نکالا اور خودداری کی ایک لہر پیدا کی۔ لیکن آج جب اصل وقت آیا ہے، جب فلسطین لہو میں نہا رہا ہے اور امت مسلمہ کی غیرت کو آزمایا جا رہا ہے، تو وہی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ والے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وہ گھڑی ہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح کے اس جملے کو یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ: ’’پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ یہ محض ایک جملہ نہیں تھا بلکہ ایک اصولی اعلان تھا جس نے پاکستان کے وجود کو ایک نظریے کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل وجود میں آیا تو دنیا کے کئی ممالک نے اسے فوری تسلیم کر لیا، مگر پاکستان نے دوٹوک مؤقف اختیار کیا اور واضح کر دیا کہ یہ ریاست غاصبانہ قبضے اور مظلوموں کے خون پر کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا پاکستان کی نظریاتی اساس سے غداری ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کا حوالہ ایک سابق وزیر ِاعظم نے امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کے لیے دیا تھا۔ عوام نے اس نعرے کو عزت دی، غیرت کی علامت سمجھا اور اسے اپنی اجتماعی زبان بنا لیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ نعرہ محض انتخابی جلسوں اور سیاسی نفع نقصان کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اصل امتحان تو آج ہے۔ آج جب غزہ کی زمین پر بمباری ہو رہی ہے، بچے اور عورتیں شہید ہو رہی ہیں، اسپتال اور اسکول ملبے میں بدل رہے ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، تو پاکستان کے حکمرانوں کو حقیقت میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنے کی ضرورت ہے۔

فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ پچھلے کئی مہینوں میں اسرائیل نے ایسی جارحیت کی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ملتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتیں کھلم کھلا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اقوامِ متحدہ بے بس نظر آتی ہے، اور امت مسلمہ کی اکثریت صرف زبانی دعووں پر اکتفا کر رہی ہے۔ کچھ حکمران خاموش ہیں، کچھ منافقانہ بیانات دے کر اپنے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام تنہا کھڑے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو قائداعظم کے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔ فلسطین کا معاملہ پاکستان کے نظریاتی وجود سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران طبقہ جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو بڑے بڑے دعوے کرتا ہے۔ ’’ہم امریکا کی غلامی قبول نہیں کریں گے‘‘، ’’ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘ اور ’’ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جیسے بیانات دیے جاتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو خاموشی، مصلحت اور غلامانہ طرزِ عمل ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ تضاد ہماری سیاست کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ عوام کو نعرے دے کر جذباتی بنایا جاتا ہے، لیکن عملی اقدامات صفر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ محض ایک تقریری جملہ بن کر رہ گیا، جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا کردار صرف بیانات تک محدود ہے۔

اصل غیرت یہ ہے کہ پاکستان کھل کر اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دے اور ہر عالمی پلیٹ فارم پر اس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ لیکن یہاں تو اسرائیل سے تعلقات کے دروازے کھولنے کی سازشیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں آتی ہیں، کبھی غیر ملکی دباؤ کا ذکر ہوتا ہے، اور کبھی اقتصادی بحران کو جواز بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ تعلقات قائم کرنے میں فائدہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قائد کے نظریے کی توہین ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے جذبات سے کھلا مذاق ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے صاف اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہماری خارجہ پالیسی کھڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے حکمران اس اصولی موقف کو محض کاغذی حقیقت بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو وقتی بیانات دے کر بہلایا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے دل میں فلسطین کا درد زندہ ہے اور وہ ہر حال میں اپنے حکمرانوں سے اصولی موقف کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر واقعی ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے تو یہی وقت ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر کوشش، ہر سازش اور ہر دباؤ کو دوٹوک جواب دینا ہی قائد کے نظریے کے ساتھ وفاداری ہے۔

آج فلسطین لہو لہان ہے مگر امت مسلمہ کے اکثر حکمران اپنے تجارتی معاہدوں، تیل کی دولت اور مغربی مفادات کے اسیر ہیں۔ کچھ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، کچھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی شرمندگی ہے۔ اگر مسلمانوں کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ہوتے ہوئے ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست ظلم اور درندگی کے ذریعے اپنی مرضی چلاتی ہے، تو یہ ہماری اجتماعی بے حسی اور کمزوری کا کھلا ثبوت ہے۔ یہی اصل وقت ہے کہ پاکستان دنیا کو دکھائے کہ ابھی بھی کچھ اصول باقی ہیں، ابھی بھی کچھ قومیں اپنی غیرت پر سودا نہیں کرتیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں بھی ان غداروں کی فہرست میں لکھ دے گی جنہوں نے فلسطین کو بیچ دیا۔ ہماری آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ پر بم برس رہے تھے تو تم کہاں تھے؟ جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری تھیں تو تم نے کیا کیا؟ اور اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

حکمران اپنی مصلحتوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر اصل طاقت عوام کے پاس ہے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ سڑکوں پر نکل کر، اپنی آواز بلند کر کے اور سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت کر کے ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اگر حکمران دوغلا پن دکھائیں تو عوام کا فرض ہے کہ انہیں یاد دلائیں: ایبسولیوٹلی ناٹ صرف ایک جملہ نہیں، یہ ایک عہد ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم نعرے اور تقریروں سے آگے بڑھیں۔ اگر واقعی غیرت ہے تو امریکا کے دباؤ کو مسترد کریں، اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کریں، اور قائداعظم کے اصولی مؤقف پر ڈٹ جائیں۔ یہ کوئی سیاسی فائدے کا کھیل نہیں بلکہ نظریاتی جنگ ہے۔ اگر پاکستان اس وقت کمزور ہوا تو صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ خود ہمارا وجود بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔

فلسطینی عوام کو ہماری پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ غلامی کے خول میں بند رہنا چاہتا ہے یا عزت کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان کو آج ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یا تو ہم تاریخ کے صفحات پر قائداعظم کے وارث کہلائیں گے، یا پھر ان قوموں میں شمار ہوں گے جنہوں نے اپنی غیرت اور ایمان کو دنیاوی مصلحتوں پر قربان کر دیا۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ایبسولیوٹلی ناٹ — اب صرف نعرہ نہیں، پاکستان کا مستقل اعلان ہونا چاہیے۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف نعرے کیوں؟
  • ایبسولیوٹلی ناٹ والے کہاں ہیں؟
  • پاکستان آزاد کشمیر کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے، دفتر خارجہ
  • لاہور، فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے طلبہ ریلی
  • وحدتِ کشمیر سازشوں کی زد میں
  • این ایل سی کا جنوبی وزیرستان کے عوام کیلئے تحفہ
  • کیا آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟
  • طاقت کا مرکز عوام نہیں جرنیل ہیں
  • حکومت آزاد کشمیر میں جاری احتجاج اور مسائل کو مکالمے اور قانونی راستوں سے حل کرنے کیلئے پرعزم ہے، امید ہے کہ باہمی مکالمے کے ذریعے تمام مسائل مثبت اور پرامن ماحول میں حل ہو جائیں گے،وفاقی وزیر احسن اقبال کی میڈیا سے گفتگو
  • اعلانات نہیں عوام کی خدمت کیلئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے: مریم نواز