چیف جسٹس کا 26ویں آئینی ترمیم پر جسٹس منصور کو لکھا گیا جواب پہلی بار منظرِ عام پرآگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 August, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد پہلی مرتبہ تمام حقائق منظر عام پر آگئے، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور شاہ کے خط میں جوابی خط پہلی بار منظر عام پر آگیا۔

چیف جسٹس پاکستان کا جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا۔ دونوں ججز نے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم 4 نومبر 2024 کو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی؟ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواستوں کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے مقرر کی رائے میں سپریم کورٹ کے 9ججوں نے کب اور کیوں رائے دی؟ ان جیسے تمام سوالات کے جوابات میٹنگ منٹس اور چیف جسٹس کے خط میں سامنے آگئے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31اکتوبر کے اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کو فل کورٹ کے سامنے 4نومبر کے دن سماعت کے لیے مقرر کرنے کے فیصلے کے بعد کیا ہوا؟ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ اجلاس کیوں نہیں بلایا؟ ان سوالات کے جواب بھی دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کے خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191 اے کے تحت آرٹیکل 183/3 کی درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، آرٹیکل 191 اے کی ذیلی شق 4 کے تحت ججز آئینی کمیٹی ہی کیس فکس کرنے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 191اے کی ذیلی شق تین اے کے تحت آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے۔

خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191اے کی شق چار آئینی بینچ کے ججز پر مشتمل کمیٹی کو معاملہ سپرد کیا جاتا ہے نہ کہ ججز ریگولر کمیٹی، ججز کمیٹی 2023 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی اور کمیٹی کے اپنے بھائی ججز اراکین کی اس تشویش کو سمجھتا ہوں جو آئین چھبیسویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے حوالے سے ہے۔

چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ میں نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے 13 ججز سے رائے لی، جس میں اُن سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) نے کہا کہ آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت دائر کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، کیا ایسا 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ہو سکتا ہے؟

خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کے 13ججز میں سے 9 جج صاحبان کا موقف تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، جب ججز کی رائے آچکی تو یہ حقائق دونوں بھائی ججوں (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) کو بتا دیے گئے اور انھیں 13 ججز کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔

خط میں مزید لکھا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف ججز کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی بلکہ اس سے سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے، جیسا کہ افسوس کے ساتھ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے۔

خط کے متن کے مطابق اسی پس منظر میں، چیف جسٹس آف پاکستان کے دفتر کو، دوپہر کے بعد کافی دیر سے، میرے دو بھائی ججز کے خطوط موصول ہوئے۔ کمیٹی نے سربمہر لفافوں میں اپنی رائے دی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ کمیٹی کے اجلاس کے انعقاد اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت دائر کردہ 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کا حکم دینے کی درخواست کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ مجبوراً، میں نے یہ دو خطوط اور ان کے جوابات (سربمہربند لفافوں میں) سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کے حوالے کر دیے ہیں تاکہ وہ محفوظ طریقے سے رکھے جائیں، یہاں تک کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جو 5 نومبر 2024ء کو بلایا گیا ہے، منعقد ہو۔

خط کے متن کے مطابق میں اس اجلاس میں جوڈیشل کمیشن سے درخواست کروں گا کہ وہ میرے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر معزز ججز کو آئینی بینچ کے اراکین کے طور پر نامزد کرے، تاکہ آئین کے آرٹیکل 191A کی ذیلی شق (3) کے کلاز (a) کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی یا آئینی بینچ کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ آرٹیکل 184 کے تحت دائر کردہ 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو پاکستان کے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے سامنے پیش کر سکے۔

چیف جسٹس نے خط میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی کا اجلاس بلانا یا پاکستان کے سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دینا یقیناً آئین کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمسلم لیگ (ن) ویمن ونگ کے زیر اہتمام جشنِ آزادی و معرکۂ حق کی شاندار تقریب یوم آزادی پر برج خلیفہ بھی سبز ہلالی پرچم کے رنگ میں رنگ گیا پاک فوج روایتی، غیر روایتی اور ہائبرڈ خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح لیس ہے، فیلڈ مارشل ملک بھرمیں یوم آزادی قومی جوش و جذبے کیساتھ منایا جا رہا ہے اسلام آباد: یوم آزادی اور معرکہ حق کی مرکزی تقریب میں ترکیہ اور آذربائیجان کی مسلح افواج کا دستہ بھی شریک جناح اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں یومِ آزادی اور معرکہ حق کی مرکزی تقریب جاری،وزیر اعظم کا راکٹ فورس کی تشکیل کا اعلان اعجاز چودھری کی خالی ہونے والی سینیٹ نشست پر ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم چیف جسٹس

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیلِ نو کر دی گئی ہے۔ان تبدیلیوں کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے جج جسٹس عامر فاروق کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں شامل کر لیا گیا ہے۔تین اہم قانونی اداروں میں سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچز بنانے اور مقدمات مقرر کرنے کی ذمے دار ہے جب کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کرتی ہے۔ان اداروں کی تشکیل نو 27ویں ترمیم کے مطابق ضروری تھی۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد ان اداروں کو نئے قواعد کے مطابق دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق عدالت عظمیٰ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس جمال مندوخیل کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن نامزد کیا ہے۔اب سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین میں چیف جسٹس آف پاکستان، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہوں گے۔ترمیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان یا وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سینئر ترین جج کرے گا، اور اس صورت میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ہی اس کے سربراہ رہیں گے۔مزید یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی جسٹس جمال مندوخیل کو شامل کر لیا گیا ہے اب یہ کمیٹی چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل ہو گی۔اسی طرح وفاقی آئینی عدالت کے دوسرے سینئر جج جسٹس عامر فاروق کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت نے مشترکہ طور پر جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نمائندے احسن بھون، قومی اسمبلی کے 2 ارکان، سینیٹ کے 2 ارکان اور ایک خاتون یا غیر مسلم رکن (جسے اسپیکر نامزد کریں گے) شامل ہوں گے۔پریس ریلیز کے مطابق یہ ادارے اب نئے آئینی ڈھانچے کے تحت احتساب، عدالتی تعیناتیوں اور عدالتی انتظامی امور میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔یہ تبدیلیاں اس پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا بڑا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے، اس ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا ہے، جس پر اپوزیشن اور کئی قانونی ماہرین نے تنقید کی ہے۔بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے بھی ترمیم، خصوصاً وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل، ججوں کے تقرر، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ترتیب، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے اور صدر اور عسکری قیادت کو دیے گئے استثنا پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔آئی سی جے کے مطابق اس ترمیم کے بعد عدالت عظمیٰ بنیادی طور پر اپیل کا فورم رہ جائے گی اور آئینی تشریح کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائے گا۔
آئی سی جے نے مزید کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے جج کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مقرر کریں گے جبکہ مستقبل کی تعیناتیاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر ہوں گی، لیکن ترمیم میں تعیناتی کے معیار یا اصول واضح نہیں کیے گئے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو
  • 27 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کیلیے فل بینچ تشکیل
  • 27ویں آئینی ترمیم: سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل
  • پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت کا پہلا فیصلہ‘ خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل پر حکم امتناع
  • 27 ویں آئینی ترمیم،تحریک تحفظ آئین پاکستان کا سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کا فیصلہ
  • وفاقی آئینی عدالت کے 2 مزید ججز جسٹس روزی بڑیچ اور جسٹس ارشد شاہ نے حلف اٹھالیا
  • ملک کی پہلی وفاقی آئینی عدالت نے مقدمات کی سماعت کا آغاز کردیا
  • پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت نے اپنی پہلی باقاعدہ سماعت کا آغاز کردیا
  • وفاقی آئینی عدالت کی پہلی کاز لسٹ جاری کردی گئی
  • وفاقی آئینی عدالت کی پہلی کازلسٹ جاری