سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ WhatsAppFacebookTwitter 0 14 August, 2025 سب نیوز
بیجنگ :’’ماضی میں پرندے ڈھونڈنے کے لیے آپ کو دور دور جانا پڑتا تھا، لیکن اب چین میں ماحول بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے اور آپ شہر کے پارکس میں بھی پرندوں کی تصاویر کھینچ سکتے ہیں۔ ماحول کی بہتری آنکھوں کے سامنے ہے ۔”پاکستان سے تعلق رکھنے والے خالد شریف نے چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ برسوں میں چین کے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار مذکورہ بالا الفاظ میں کیا ۔
خالد چین میں کئی سالوں سے مقیم ہیں ۔ 2015 میں، انہیں پرندوں کی تصویر کشی کا شوق ہوا۔ انہوں نے چین کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا ہے اور لاکھوں پرندوں کی تصاویر کھینچی ہیں، جنہوں نے نہ صرف چین کی ماحولیاتی خوبصورتی کو محفوظ کیا ہے بلکہ چین کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھی عینی شاہد ہیں۔ پرندوں کی اقسام زیادہ ہو رہی ہیں اور ہوا بھی خوشبودار ہونے لگی ہے.
تاہم، اس جھیل کا ماحولیاتی نظام ایک بار تباہی کے دہانے پر تھا۔ دس سال سے زیادہ کے جامع انتظامات کے بعد، محققین نے حال ہی میں یہاں پانی کا نمونہ لیا اور پایا کہ ہائی پاور مائکرواسکوپی کے تحت، پانی میں موجود حیاتیات واضح طور پر نظر آتے ہیں، اور پانی کا معیار اور اس کا ماحولیاتی نظام مسلسل بہتر ہو رہا ہے. آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے لے کر ہماری زندگی کے لیے لازمی ہوا ،اور پھر جھیل میں پانی کے ایک قطرے تک، ماحولیاتی تبدیلیاں نہ صرف لوگوں کا ذاتی احساس ہے، بلکہ اسے اعداد و شمار سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے: اپریل 2025 میں جاری ہونے والی “بیجنگ زمینی جنگلی حیات کی فہرست” کے مطابق، بیجنگ میں جنگلی پرندوں کی تعداد ریکارڈ 527 تک پہنچ گئی ہے۔ پرندوں کے تنوع کے لحاظ سے جی 20 ممالک کے دارالحکومتوں میں بیجنگ دوسرے نمبر پر ہے۔ 2024 ء میں پریفیکچر کی سطح اور اس سے اوپر کے شہروں میں پی ایم 2.5 کا اوسط ارتکاز 29.3 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھا ، جس سے چین دنیا میں ہوا کے معیار میں تیز ترین بہتری والا ملک بن گیا۔ دریائے یانگسی کے مرکزی دھارے کے پانی کا معیار لگاتار پانچ سالوں ، اور دریائے زرد کے مرکزی دھارے کا پانی لگاتار تین سالوں سے کلاس 2 پر مستحکم رہا ہے ۔ ساحلی پانی میں بہترین پانی کے معیار کا تناسب 83.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے
مذکورہ بالا ماحولیاتی تبدیلیاں چین میں بیس سال سے جاری سبز تبدیلی کا ثمر ہیں۔ سنہ 2005 میں زے جیانگ صوبائی پارٹی کمیٹی کے اُس وقت کے سیکریٹری شی جن پھنگ نے صوبے میں ایک گاؤں کا دورہ کرتے وقت یہ تصور پیش کیا کہ ” سبز پہاڑ اورصاف پانی انمول اثاثے ہیں”، جس نے ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے جدلیاتی اتحاد کی گہرائی سے وضاحت کی۔چین میں گذشتہ بیس سالوں میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں نظریہ اور عمل دونوں حوالوں سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔گزشتہ تقریباً 20 سالوں میں ، چین نے دنیا میں نئے سبز علاقے کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالا ہے ، شجرکاری کا رقبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے ، صحرائی رقبے میں کمی لائی ہے اور نیشنل پارکس کی تعمیر میں بھی تاریخی نتائج حاصل کیے ہیں، وغیرہ ۔توانائی کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ میں زیادہ گہری تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔2012 کے بعد سے، چین نے اوسطاً 3.3 فیصد سالانہ توانائی کی کھپت کی شرح کے ساتھ اوسطاً 6.1 فیصد سے زائد معاشی ترقی کو برقرار رکھا، اور دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرنے والا قابل تجدید توانائی کا نظام تعمیر کیا۔2024 میں، چین کے صاف توانائی میں سرمایہ کاری کا حجم دنیا میں کل سرمایہ کاری کا ایک تہائی تھا۔
فوٹو وولٹک اور ونڈ پاور کی تنصیب شدہ صلاحیت گزشتہ 10 سالوں سے مسلسل دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں، عالمی غیر فوسل توانائی کی کھپت میں اضافے میں چین کا حصہ 45 فیصد سے زیادہ رہا۔ توانائی کے تکنیکی نظام کی جدت نے عالمی توانائی کے ڈھانچے میں گہری انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے حال ہی میں زور دے کر کہا کہ توانائی کی منتقلی نہ صرف موسمیاتی بحران کا ناگزیر حل ہے، بلکہ یہ توانائی کی سلامتی، معاشی ترقی اور سماجی انصاف سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ فی الوقت، صاف توانائی نے 35 ملین سے زائد روزگار پیدا کیے ہیں اور متعدد ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔لہٰذا، جب ہم ماحولیاتی تحفظ کی بات کرتے ہیں، تو ہم صرف فطرت ہی نہیں، بلکہ انسانی بقاء، مفادات اور صحت کی ضمانت کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پھنگ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘اگر ماحول اچھا ہو تو لوگوں کو خوشی کا حقیقی احساس ہو گا”۔ عوام کی خواہش ہی حکومت کی ترجیح ہے ۔یہی چین میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے کی محرک قوت بھی ہے۔ پہاڑوں سے صرف گزربسر کے لیے فائدہ اٹھانے کے رویے سے لے کر پہاڑوں اور جنگلات کی حفاظت کرنے تک، شفاف پانی ، سبز پہاڑ، برفانی میدان ، صحرائی اور بنجر زمینیں سب سنہری پہاڑ بن چکے ہیں۔ شفاف پانی اور سرسبز پہاڑوں سے ماحولیاتی سیاحت کی آمدنی حاصل ہوئی ہے، برفانی میدانوں سے سرمائی معیشت کی ترقی ہوئی ہے، اور صحرائے گوبی میں اگائی جانے والی نقدآور فصلیں سونا بن گئی ہیں۔سبز زراعت، ماحولیاتی سیاحت اور صاف توانائی جیسی سبز صنعتیں معاشی ترقی کے “نئے انجن” بن چکی ہیں، جہاں معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر،”بیلٹ اینڈ روڈ ” گرین ڈیولپمنٹ فنڈ سے لے کر” کھون منگ بائیو ڈائیورسٹی فنڈ تک” ، اور ریگستان کے انتظامات سے لے کر گرین انرجی سمیت دیگر تعاون کے منصوبوں تک ، چین کے اقدامات عالمی ماحولیاتی انتظام کی ساخت کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ یہ کوششیں پائیدار ترقی کے زیادہ سبز ماڈل تشکیل دے کر عالمی ماحولیاتی گورننس پیٹرن کو نئی شکل دے رہی ہیں، جس کا مقصد ایک خوبصورت کرہ ارض کی مشترکہ تعمیر ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کے شنزو 20 کے خلابازوں کا عملہ جلد ہی کیبن سے باہر تیسری سرگرمی انجام د ے گا سبز چین نے انسانی ترقی کے اہم سوال کا جواب دیا ہے، سی جی ٹی این سروے صدر ایف پی سی سی آئی کی قوم کو 78 ویں یوم آزادی کی مبارکباد ’’دو پہاڑوں‘‘کے تصور اور چین کی ماحولیاتی پالیسیوں پر عالمی سروے نتائج چین کا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر دنیا میں صف اول مقام پر ہے،نیشنل ڈیٹا ایڈمنسٹریشن پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمشنر کا ایف پی سی سی آئی کا دورہ، دو طرفہ تجارتی تعلقات پر تبادلہ خیال مسلسل دوسرے روز سونے کی قیمت میں کمی ، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 August, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد دنیا کے نقشے پر دو خودمختار ریاستیں ابھریں — پاکستان اور بھارت۔ ان دو ممالک کا قیام محض جغرافیائی علیحدگی نہ تھا؛ بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور اکثر معاندانہ تعلق کا آغاز تھا، جو تاریخی رنجشوں اور سیاسی غلط فہمیوں سے جنم لیتا ہے۔ قریباً اسی سال گزر جانے کو ہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی یوم آزادی منانے میں مصروف عمل ہیں، لیکن ان دونوں ہمسایوں کے درمیان تلخی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دنیا کے دیگر خطوں میں قومیں اپنی پرانی دشمنیوں کو شراکت داریوں میں بدل چکی ہیں، مگر بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو وہ کشادہ دلی اور تسلیم کرنے کا رویہ نہیں اپنایا جو ایک پڑوسی کو دوسرے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔
اول روز سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے حوالے سے شکوک، مخالفت اور اکثر کھلی دشمنی پر مبنی رہا ہے۔ اعتماد کی بنیاد پر پل تعمیر کرنے کے بجائے، بھارت نے تفریق کی آگ کو مزید بھڑکایا۔ اس رویے کے نتائج نہایت افسوسناک اور دیرپا ثابت ہوئے۔ کئی جنگیں لڑی گئیں، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، اور ترقیاتی مقاصد کے لیے مختص وسائل دفاع پر صرف ہونے لگے۔ سب سے تکلیف دہ زخم 1971 میں لگا، جب بھارت نے پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں ناقابلِ انکار کردار ادا کیا۔ یہ واقعہ پاکستانی ذہن و دل پر گہرا نقش ہے اور آج بھی اس بات کی تلخ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح جغرافیائی سیاسی دشمنیاں قوموں کو پارہ پارہ کر سکتی ہیں۔
یہ آج کی باہم جُڑی ہوئی دنیا کی ایک افسوسناک اور نایاب حقیقت ہے کہ دو ہمسایہ ممالک، جو جغرافیہ اور مشترکہ تاریخ کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، ایسی گہری دشمنی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں سابقہ دشمن ممالک نے صلح و مفاہمت کی راہ اختیار کی ہے۔ یورپ، جو کبھی ہولناک جنگوں کا میدان تھا، آج اتحاد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا نے علاقائی تعاون کے ذریعے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ویتنام اور امریکہ جیسے ممالک، جو کبھی شدید جنگ میں ملوث تھے، آج اقتصادی و سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت اور پاکستان آج بھی اربوں ڈالر ہتھیاروں، میزائلوں اور فوجی تیاریوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اقتصادی ترقی اور سماجی بہتری کی طرف بڑھنے کے بجائے، دونوں ممالک اسلحہ کی دوڑ میں الجھے ہوئے ہیں۔
کیا یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا؟ کیا ٹکراؤ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں؟ یہ سوال ہمیں سنجیدگی اور دیانتداری سے خود سے پوچھنا چاہیے؛کیا کشمیر، پانی کے تنازعات، اور دیگر پرانے مسائل کو مخلصانہ اور بامقصد مکالمے کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگیں — جیسے کہ عالمی جنگیں، سرد جنگ، اور ویتنام جنگ — بالآخر مذاکرات کی میز پر ختم ہوئیں۔ وہ قومیں جنہوں نے ناقابلِ بیان تباہیاں سہیں، آخرکار ایک دوسرے سے بات کرنے، سمجھوتہ کرنے اور امن قائم کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ تو کیا یہ بہت زیادہ امید ہے کہ بھارت اور پاکستان بھی ایسی ہی دانشمندی اور پختگی کا مظاہرہ کریں؟
پاکستان کی جانب سے مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کے بارہا عزم کے باوجود، بدقسمتی سے بھارتی قیادت اکثر انتخابی جذبات اور سیاسی نمائش کے دباؤ میں آ جاتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ اس حقیقت کا سامنا کرے کہ مکالمہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔ مکالمے کا مطلب ہرگز ہتھیار ڈالنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب دوسرے فریق کی انسانیت کو تسلیم کرنا، شکایات کو سننا، اور قانون، سفارتکاری اور باہمی احترام کے تحت حل تلاش کرنا ہے۔ جب رابطے کے دروازے بند ہوں تو غلط فہمیاں بڑھتی ہیں اور انتہا پسندی کے لیے زمین ہموار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب مکالمے کے دروازے کھلے ہوں، تو امید دوبارہ زندہ ہوتی ہے۔
پاکستان نے بارہا تمام بنیادی مسائل—جن میں کشمیر، سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم، تجارت، اور سرحد پار دہشت گردی شامل ہیں—پر مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بھارت نے اکثر ان کوششوں کو یا تو رد کر دیا، یا ایسی پیشگی شرائط عائد کیں جنہوں نے حقیقی مذاکرات کو ناممکن بنا دیا۔ اس جمود کی قیمت سیاستدانوں کو نہیں، بلکہ دونوں طرف کے عام لوگوں کو چکانی پڑتی ہے—پنجاب کے کسانوں، کراچی اور دہلی کے طلبائ، لاہور اور ممبئی کے محنت کشوں کو، جن کا حق ہے کہ وہ بہتر زندگی گزاریں، نہ کہ دشمنی کا ورثہ پائیں۔
معاشی ترقی اس زہریلے سیاسی ماحول کے ہاتھوں دم توڑ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں اقتصادی انضمام سب سے کم ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت اُس ممکنہ استعداد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے جو دونوں ممالک رکھتے ہیں۔ اگر تعلقات کو معمول پر لایا جائے، تو دونوں ممالک کی صنعتیں بے پناہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ مشترکہ منڈیاں، کم شدہ محصولات (ٹیکس)، اور مشترکہ منصوبے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں، معیارِ زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور غیر ملکی امداد یا استحصالی قرضوں پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔
معاشیات سے ہٹ کر، دونوں ممالک صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج کے دور میں جب بیماریاں سرحدوں کو نہیں مانتیں، اور جب موسمیاتی تبدیلی مون سون کے نظام اور غذائی تحفظ دونوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، تو مشترکہ تحقیق اور پالیسی کا ہم آہنگی کوئی عیش نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ عوامی صحت، ویکسین کی تیاری، پانی کے انتظام، اور آفات سے نمٹنے جیسے شعبوں میں مشترکہ کوششیں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتی ہیں۔
تعلیم ایک اور پُل کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے طلباء اور محققین تعلیمی تبادلوں میں شریک ہو کر ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور برسوں سے قائم تعصبات کو ختم کر سکتے ہیں۔ میڈیا، ادب اور فنون لطیفہ — جو زبان اور ثقافت کے لحاظ سے پہلے ہی ایک دوسرے سے گہرے طور پر جُڑے ہوئے ہیں — تصادم کے بجائے مفاہمت کے مؤثر ذرائع بن سکتے ہیں۔
لیکن ان تمام امکانات کی جڑیں اُس زمین میں نہیں پکڑ سکتیں جو نفرت سے زہریلی ہو چکی ہو۔ امن کے پھول تبھی کھِل سکتے ہیں جب سیاسی عزم کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں جانب کا میڈیا سنسنی خیزی کو ترک کرے اور امن، مشترکہ قدریں اور انسانیت کے یکساں خوابوں پر مبنی بیانیے کو فروغ دے۔ سول سوسائٹی کو خوف سے بلند ہو کر اپنی قیادت سے ایسا مستقبل طلب کرنا ہوگا جو وراثتی دشمنی سے پاک ہو۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ دشمنی پر ہی مبنی رہیں گے۔ لیکن تقدیر پسندی کوئی پالیسی نہیں، بلکہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ تاریخ ناگزیر حالات سے نہیں، بلکہ فیصلوں سے بنتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ دانشمندی کے راستے کو چنا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن صرف ممکن ہی نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ بزدلی نہیں بلکہ جرا?ت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ گالیوں کا نہیں بلکہ گفت و شنید کا راستہ مانگتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کو تعاون سے جو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، وہ تصادم سے ممکن نہیں۔
یہ دونوں ممالک کا قرض ہے اپنی آنے والی نسلوں پر۔ یہ اُن بے گناہوں کا قرض ہے جو ایسی جنگوں میں مارے گئے جنہیں انہوں نے کبھی چنا ہی نہیں تھا۔ اور یہ اُن لاکھوں افراد کا قرض ہے جو آج بھی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، تعلیم، صاف پانی، صحت اور عزتِ نفس کے متلاشی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کیا امن ممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اُسے حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے آذربائیجان کے چیف آف جنرل سٹاف کی ملاقات بی ایل اے بے نقاب: دہشت گردی اور مودی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم