شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب اپنی محبوب اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں تاج محل بنانے کا فیصلہ کیا، تو ان کا مقصد صرف ایک مقبرہ تعمیر کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ دنیا کے لیے محبت، فن اور عظمت کا ایک ایسا شاہکار چھوڑنا چاہتے تھے جو رہتی دنیا تک ممتاز محل سے ان کی لازوال محبت کی نشانی بن جائے۔
تاج محل نہ صرف فنِ تعمیر کا ایک بے مثال نمونہ ہے بلکہ دنیا کے سات عجائبات میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس خوبصورت مقام کی زیارت کے لیے بھارت کے شہر آگرہ کا رخ کرتے ہیں۔
تاج محل کی تعمیر اور محنت کی داستان
تاج محل کی تعمیر 1635ء میں شروع ہوئی اور یہ 20 سال کی محنت کے بعد 1653ء میں مکمل ہوا۔ اس عظیم منصوبے میں 20 ہزار سے زائد مزدور، کاریگر، فنکار اور معمار شامل تھے۔ ان کی مہارت اور محنت نے دنیا کے سامنے حسن، ہنر اور محبت کا ایسا امتزاج پیش کیا جو آج تک بے مثال ہے۔
آگرہ کا انتخاب — تین بنیادی وجوہات
شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر کے لیے آگرہ کا انتخاب تین اہم وجوہات کی بنیاد پر کیا۔
شاہجہاں کے دور میں دہلی کے بجائے آگرہ مغل سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ شاہی عدالت، دفاتر اور تمام اہم انتظامی معاملات آگرہ سے چلائے جاتے تھے، اس لیے اس شہر میں یہ عظیم یادگار تعمیر کرنا زیادہ موزوں سمجھا گیا۔
تاج محل کو دریائے جمنا کے کنارے تعمیر کیا گیا، کیونکہ یہاں کی فضا پرسکون تھی اور دریا کے بہاؤ نے عمارت کے حسن کو اور نکھار دیا۔ اس مقام پر نہ صرف منظر خوبصورت تھا بلکہ قدرتی طور پر سیلاب یا زمین کٹاؤ سے بھی عمارت محفوظ رہتی تھی۔
آگرہ کے آس پاس ماربل (سنگِ مرمر) آسانی سے دستیاب تھا، جو تاج محل کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ شہر میں پہلے سے موجود ماہر کاریگر اور فنکار بھی آگرہ کو اس منصوبے کے لیے بہترین انتخاب بناتے تھے۔
تاج محل کی تکمیل کے کچھ عرصے بعد شاہجہاں نے دارالحکومت دہلی منتقل کر دیا، جو آج بھی بھارت کا دارالحکومت ہے۔ تاہم، تاج محل آج بھی آگرہ میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور دنیا بھر میں محبت کی ایک علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تاج محل کی تعمیر شاہجہاں نے کے لیے
پڑھیں:
ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) اس سال کتابوں پر پابندی میں اضافے کو کچھ ناشرین، ماہرینِ تعلیم اور حقوق کی تنظیمیں ''خطرناک جبر‘‘ اور ''قدامت پسند اسلامی نظریات‘‘ کی جانب بڑھتی ہوئی راہ قرار دے رہی ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے اکتوبر 2025 تک 24 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جو گزشتہ چھ برسوں میں بین کی گئی تمام کتابوں سے زیادہ ہے اور 2017 کے بعد کسی ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اس سال پابندی عائد کی گئی کتابوں میں جاسوسی اور رومانی ناول، 'مشت زنی‘ کے عنوان سے شاعری کا مجموعہ، اسلام سے متعلق غیر افسانوی کتب، اور نو عمر بچوں کے لیے بلوغت کے حوالے سے رہنما کتابیں شامل ہیں۔
تقریباً نصف بلیک لسٹ کی گئی کتابیں ایل جی بی ٹی کیو پلس موضوعات پر ہیں، جن میں 'کال می بائی یور نیم‘ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول بھی شامل ہے، جس پر 2017 میں ایک آسکر ایوارڈ یافتہ فلم بنائی گئی تھی اور جس میں ٹیموتھی شالامیٹ نے اداکاری کی تھی۔
(جاری ہے)
ملائیشیا میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے، جہاں نسلی طور پر مالے باشندے قانوناً مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام ترک کرنے پر مذہبی عدالتوں کی جانب سے قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ کتابوں پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ ایسے ''عناصر، نظریات یا تحریکوں کی ترویج کو روکا جا سکے جو قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے لیے نقصان دہ ہوں۔
‘‘’پین ملائشیا‘، جو آزادی اظہار کی بین الاقوامی تنظیم کی مقامی شاخ ہے، نے کتابوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو ''چونکا دینے والی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ملائیشیائی عوام کے کھل کر لکھنے اور اہم مسائل پر ایمانداری سے بولنے کے حق پر قدغن ہے، خاص طور پر ان موضوعات پر جو نسل، مذہب اور جنسی رجحان سے جڑے ہیں۔
’پین ملائشیا‘، کی صدر ماہی رام کرشنن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس قدر پیچھے جا رہے ہیں اور ہماری جمہوری گنجائش کس طرح سکڑ رہی ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم مکالمہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں صرف بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے، اور کتابیں شیلف سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ ہم یا تو خاموشی سے دیکھتے ہیں یا احتجاج کرتے ہیں۔ اور اگر ہم احتجاج کریں تو مزید مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔‘‘
حکومت کا قدامت پسندی کی طرف جھکاؤکتابوں پر بڑھتی پابندیاں وزیرِاعظم انور ابراہیم کی حکومت کے تیسرے سال میں سامنے آئی ہیں۔
یہ تجربہ کار سیاستدان 2022 کے آخر میں، کئی دہائیوں تک ایک ایسے برانڈ کو تشکیل دینے کے بعد، برسراقتدار آئے تھے جو تمام ملائیشیائی عوام کے لیے زیادہ جمہوری، شفاف اور منصفانہ حکومت کے وعدے پر مبنی تھا، نہ کہ صرف ملک کی اکثریتی نسلی مالے مسلم آبادی کے لیے۔
انور کی اتحادی حکومت ایک پالیسی فریم ورک کے تحت کام کرتی ہے جسے، ''ملائیشیا مدنی‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں احترام اور ہمدردی جیسے چھ ''بنیادی اقدار‘‘ شامل ہیں۔تاہم، عملی طور پر یہ انتظامیہ کہیں زیادہ قدامت پسند اور مسلم نواز ثابت ہوئی ہے، ماہرِ سیاسیات اور ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی کے پروفیسر وونگ چِن ہُوَت نے کہا، ''کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ریاستی بیوروکریسی میں کئی برسوں سے بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کو ظاہر کر سکتا ہے، جو لازمی طور پر انور کے اقتدار میں آنے سے شروع نہیں ہوئی، جس میں منحرف یا مبینہ بدعتی خیالات کا فکری طور پر جواب دینے کے بجائے انہیں قانونی طور پر دبایا جاتا ہے۔
‘‘وونگ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انور کی حکومت ان قدامت پسند رویوں کو یا تو عقیدے کی بنیاد پر یا پھر سیاسی فائدے کے لیے بڑھاوا دے رہی ہو۔
انہوں نے کہا، ''جو بات یقین کے ساتھ کہ جاسکتی ہے وہ یہ کہ مدنی حکومت کے تحت ملائیشیا زیادہ کھلے ذہن والا ملک نہیں بنا۔‘‘
سلامک رینیساں فرنٹ کے ڈائریکٹر احمد فاروق موسیٰ، جو اسلام کی آزاد خیال تشریح کو فروغ دینے والا ایک مقامی گروپ ہے، نے کہا کہ حکومت کی کتابوں پر پابندی کی پالیسی دراصل مدنی کے برخلاف ہے۔
یہ گروپ خود بھی کتابیں شائع کرتا ہے، اور وزارتِ داخلہ نے ان کی تین کتابوں پر 2017 میں پابندی لگائی تھی۔ فی الحال وزارت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ مزید دو کتابوں پر بھی پابندی عائد کی جائے یا نہیں۔
فاروق موسیٰ نے کہا، ''وہ خود کو مدنی کہتے ہیں، یعنی انہیں زیادہ کشادہ ذہن ہونا چاہیے، مختلف خیالات کو قبول کرنے والا ہونا چاہیے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بالکل برعکس راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ انور کی حکومت کی یہ کریک ڈاؤن پالیسی دراصل مسلم ووٹ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔
ملائیشیائی سیاست میں اسلام کا کرداراگرچہ انور کی اتحادی جماعت نے 2022 کے انتخابات جیتے، لیکن یہ بڑی حد تک غیر مالے مسلم ووٹروں کی مدد سے ممکن ہوا۔
دوسری طرف اسلام پسند جماعت پارٹی 'اسلام سے ملیشیا‘ (پی اے ایس) نے سب سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل کیں، جو چار برس پہلے کے عام انتخابات کے مقابلے میں دوگنی تھیں۔فاروق موسیٰ نے کہا کہ کتابوں پر اچانک بڑھتی ہوئی پابندیاں انور کی اتحادی حکومت کے لیے زیادہ مسلم ووٹ حاصل کرنے یا کم از کم اپنے موجودہ مسلم ووٹروں کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہیں۔
ان کے مطابق، ''یہی اصل وجہ ہے، ورنہ وہ اپنی حمایت کھو دیں گے۔‘‘
آزاد کتب فروش اور ناشر عامر محمد نے کہا کہ کتابوں پر پابندیاں عائد کرنا ووٹروں کو خوش کرنے کا ایک حربہ ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت ''اخلاقیات کی حفاظت کر رہی ہے‘‘۔
جون میں وزارتِ داخلہ کے اہلکار نیون پیلی جیکٹیں پہنے اچانک کوالالمپور میں عامر محمد کی چھوٹی سی کتابوں کی دکان پر پہنچے اور تین کتابوں کی تلاش کی۔
عامر محمد کے مطابق، یہ کتابیں دو نفسیاتی ہارر ناول اور ایک رومانوی ناول تھیں، سب مقامی مصنفین کی لکھی ہوئی۔ اہلکار ہر کتاب کی ایک ایک کاپی لے گئے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ شک کے دائرے میں کیوں ہیں۔
عامر محمد نے بتایا کہ یہ کم از کم چوتھی بار تھا کہ وزارت کے اہلکار اس کی دکان پر چھاپہ مار چکے ہیں، اور انہوں نے اسے ملائیشیا میں کتب فروشی کے لیے ایک "پیشہ ورانہ خطرہ" قرار دیا۔
ان کے مطابق، ''یہ اس کاروبار میں آنے کے خطرات میں سے ایک ہے۔‘‘
وزارتِ داخلہ نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
دنیا بھر میں مزید کتابوں پر پابندیاںکچھ رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’پین انٹرنیشنل‘ نے گزشتہ اپریل کو عالمی یومِ کتاب کے موقع پر، کہا کہ اس نے دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں "ڈرامائی اضافہ" ریکارڈ کیا ہے۔
لیکن اس نے اس سال جن درجن بھر ممالک کو اجاگر کیا، ان میں خاص طور پر ملائیشیا کو نمایاں کیا، کیونکہ وہاں توجہ ان اشاعتوں کو روکنے پر ہے جن میں ایل بی جی ٹی کیو پلس کردار یا موضوعات شامل ہوں۔’پین ملائشیا‘ کی رام کرشنن کے مطابق، حالیہ برسوں میں لائیشیا نے اپنے زیادہ آزاد خیال پڑوسیوں جیسے انڈونیشیا اور فلپائن کے مقابلے میں زیادہ کتابوں پر پابندیاں لگائی ہیں، لیکن اب بھی یہاں کمبوڈیا، میانمار یا ویتنام جیسے ممالک جتنا سخت سنسر نہیں ہے، یہ وہ ممالک ہیں جو آمرانہ، کمیونسٹ یا فوجی حکومتوں کے تحت چل رہے ہیں۔
رام کرشنن نے کہا، ''ان تمام پابندیوں کا نتیجہ بالآخر اختلافی خیالات کے لیے جگہ کو تنگ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے، اور … لکھنے والوں، ناشرین، تقسیم کرنے والوں اور قارئین کے درمیان 'سیلف سنسرشپ‘ کو خطرناک حد تک مضبوط کرتا ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین