Islam Times:
2025-08-16@01:18:32 GMT

غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں جانیکی اجازت دی جائے، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT

غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں جانیکی اجازت دی جائے، ٹرمپ

قابض و سفاک اسرائیلی رژیم کے اندھے حامی ملک امریکہ کے انتہاء پسند صدر نے غزہ کی پٹی کیخلاف عائد شدید صیہونی پابندیوں پر واضح تنقید کرتے ہوئے بظاہر اعلان کیا ہے کہ مَیں بین الاقوامی صحافیوں کو ترجیح دوں گا تاکہ وہ غزہ کی پٹی سے رپورٹنگ کر سکیں، ایک ایسا خطہ کہ جہاں اکتوبر 2023 سے لیکر اب تک 184 سے زائد صحافی کو قتل کیا جا چکا ہے اسلام ٹائمز۔ قابض و سفاک صیہونی رژیم کے اولین حامی ملک امریکہ کے انتہاء پسند صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بظاہر، غزہ کی پٹی پر عائد سخت ترین صیہونی پابندیوں پر واضح انداز میں تنقید کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مَیں صحافیوں کے (دوسرے ممالک سے وہاں) آنے کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں! ٹرمپ نے مزید کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو جائے! غزہ کے خلاف انسانیت سوز صیہونی جنگ میں اسرائیل کے لئے امریکہ کی "غیر متزلزل حمایت" کا اعلان کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے بظاہر عالمی دباؤ کے زیر اثر غزہ میں عالمی صحافیوں کی آمد کی اجازت دینے کا موقف اختیار کرتے ہوئے مزید کہا کہ مَیں صحافیوں کو غزہ میں جانے کی اجازت دینے کے ساتھ متفق ہوں.

. یہ خطرناک تو ہے لیکن میں اِسے ہوتا دیکھنا چاہوں گا!!

واضح رہے کہ انتہاء پسند امریکی صدر کا یہ بیان، غزہ کی پٹی میں 5 فلسطینی صحافیوں و کیمرہ مینوں؛ انس الشریف، محمد قریقع، ابراہیم ضاہر، محمد نوفل، مومن علیوہ اور محمد الخالدی پر اسرائیلی رژیم کے دیدہ دانستہ حملے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے، جبکہ اس حملے میں تمام کے تمام فلسطینی صحافی و کیمرہ مین موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے۔ ادھر غاصب و سفاک اسرائیلی رژیم نے فلسطینی صحافیوں کے گروہ پر اپنے اس حملے کے جواز میں کہا ہے کہ ان صحافیوں کا "حماس" کے ساتھ تعلق تھا اور یہ "دہشتگرد" تھے! اس بارے صحافیوں کے تحفظ کی عالمی کمیٹی کا کہنا ہے کہ جنگ غزہ کے آغاز سے لے کر اب تک کم از کم 184 فلسطینی صحافیوں کا قتل کیا جا چکا ہے، جبکہ یہ تعداد، گذشتہ 30 سالوں کے دوران دنیا بھر میں ہونے والے تمام تنازعات میں صحافیوں کی کل ہلاکتوں کا ایک تہائی ہے!

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یں صحافیوں صحافیوں کے غزہ کی پٹی کے ساتھ کہ م یں

پڑھیں:

ٹرمپ کی بڑی کامیابی: وفاقی اپیل کورٹ نے غیر ملکی امداد کی معطلی کے خلاف حکم امتناع ختم کر دیا

امریکا کی وفاقی اپیل کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی امداد روکنے کی پالیسی کے خلاف جاری حکم امتناع کو 2-1 کی اکثریت سے ختم کر دیا۔ 

اس عدالتی فیصلے کو ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سیاسی اور قانونی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے انہیں اپنی متنازع پالیسی پر عمل درآمد کا راستہ مل گیا ہے۔

ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو دوسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تمام غیر ملکی امداد پر 90 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔ 

ان کے اس اقدام کے بعد امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) میں بڑے پیمانے پر ردوبدل شروع ہوا، جس میں متعدد ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیجنا، امدادی پروگراموں کو روکنا اور اس خودمختار ادارے کو محکمہ خارجہ کے ماتحت کرنے پر غور شامل تھا۔ 

ناقدین کے مطابق یہ قدم امریکی خارجہ پالیسی اور انسانی ہمدردی کے منصوبوں کو کمزور کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی۔

دو غیر منافع بخش تنظیموں — ایڈز ویکسین ایڈووکیسی کولیشن اور جرنلزم ڈیولپمنٹ نیٹ ورک — نے عدالت سے رجوع کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ٹرمپ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے کیونکہ یہ کانگریس کی طرف سے پہلے سے منظور شدہ بجٹ اور امدادی منصوبوں میں غیر آئینی مداخلت ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج امیر علی، جو صدر جو بائیڈن کے نامزد کردہ ہیں، نے ابتدائی فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو تقریباً 2 ارب ڈالر کی بقایا امداد ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی اپیل کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جج امیر علی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔

اکثریتی رائے (ججز کیرن ہینڈرسن اور گریگوری کاٹساس): غیر منافع بخش تنظیمیں اپنے دعوے کو قانونی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہیں اور حکم امتناع کے لیے درکار شرائط پوری نہیں کر سکیں۔

ہینڈرسن، جو ریگن دور میں نامزد ہوئی تھیں، نے یہ واضح کیا کہ عدالت اس بات پر رائے نہیں دے رہی کہ آیا ٹرمپ کی پالیسی آئینی خلاف ورزی ہے یا نہیں، کیونکہ یہ معاملہ کانگریس کے اخراجات کے اختیار سے جڑا ہوا ہے۔

سرکٹ جج فلورنس پین، جو بائیڈن کی نامزد کردہ ہیں، نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ایگزیکٹو کی غیر قانونی حرکتوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، جو آئین میں دیے گئے اختیارات کی تقسیم اور توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ طرز عمل آمرانہ رجحانات کو فروغ دے سکتا ہے اور طاقت کے توازن کے نظام کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی سطح پر کئی ممالک امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر صحت، تعلیم اور انسانی ہمدردی کے شعبوں میں۔ ٹرمپ کی پالیسی کو بعض حلقے امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کے بہتر استعمال کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین اسے دنیا میں امریکی اثرورسوخ کو کم کرنے اور انسانی بحرانوں کو مزید بڑھانے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر اویس احمد لغاری اور وفاقی سیکرٹری محمد فخر عالم عرفان کو صدر مملکت کی جانب سے پاور سیکٹر میں بے مثال خدمات پرہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا جائے گا
  • پاکستان نے’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام سے متعلق صیہونی حکومت کے بیانات کو سختی سے مسترد کردیا
  • 23 مارچ کو کن صحافیوں اور کھلاڑیوں کو ایوارڈز ملیں گے؟
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دیئے جانے کی حمایت
  • صحافیوں پر حملوں کا مقصد غزہ کے حقائق پر پردہ ڈالنا ہے، سربراہ انصاراللہ یمن
  • ٹرمپ کی بڑی کامیابی،وفاقی اپیل کورٹ نے غیر ملکی امداد کی معطلی کے خلاف حکم امتناع ختم کر دیا
  • ٹرمپ کی بڑی کامیابی: وفاقی اپیل کورٹ نے غیر ملکی امداد کی معطلی کے خلاف حکم امتناع ختم کر دیا
  • اسرائیلی وزیراعظم کا اعلان: غزہ کے شہریوں کو باہر جانے کی اجازت دی جائے گی
  • صیہونی افواج کے وحشیانہ حملے میں امداد کے متلاشی مزید 31 افراد سمیت 89 فلسطینی شہید