صوبہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچاد ی ، مجموعی طور پر 250 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ امدادی کاموں میں مصروف خیبرپختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر مہمند میں گر کر تباہ ہو گیا جس میں سوار 2 پائلٹس سمیت عملے کے 5 افراد شہید ہوئے ، کے پی کے حکومت نے کل سوگ کا اعلان کر دیا ۔
پی ڈی ایم اے نے مختلف اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے جانی ومالی نقصانات کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مختلف حادثات میں 189 افراد جاں بحق جب کہ 21 زخمی ہوئے ہیں ۔جاں بحق افرادمیں 163 مرد،14خواتین اور 12 بچے شامل ہیں، اب تک مجموعی طور پر 38گھروں کو جزوی اور 7 گھرمکمل منہدم ہوئے، حادثات صوبے کے مختلف اضلاع سوات،بونیر،باجوڑ،تورغر،مانسہرہ،شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے، تیز بارشوں اور فلیش فلڈ سے باجوڑ اور بٹگرام سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 2ہیلی کاپٹرز ضلع باجوڑ اور بونیر روانہ کئے گئے جہاں ریسکیوآپریشن جاری ہے، شدید بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورکی ہدایت پر متاثرہ اضلاع كے لیے امدادی فنڈز جاری کر دیے گئے ،سیلاب سے زیادہ متاثرہ اضلاع کے لیے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے جاری کیئے گئے ہیں۔بونیر کو 15 کروڑ،باجوڑ،بٹگرام اور مانسہرہ کو 10، 10کروڑ اور سوات كو 5 كروڑ روپے جاری کیئے گئے ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکی تمام متعلقہ اداروں كو امدادی سرگرمیاں تیز كرنے كکی ہدایت کی گئی ہے ، پی ڈی ایم اے امدادی ٹیمیں اور ضلعی انتظامیہ مكمل رابطے میں ہیں صورتحال كی نگرانی كی جارہی ہے، پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سینٹر مکمل طور پر فعال ہے۔
سوات اور باجوڑ میں پاک فوج اور فرنٹیئر کور کا فلڈ ریلیف آپریشن جاری ہے ، پاک فوج کی ٹیمیں متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ، آئی جی ایف سی نارتھ کا ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔
آئی جی ایف سی کے ہیلی کاپٹر میں راشن اور دیگر سامان مہیا کیا جا رہا ہے، سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل بھی کیا جارہا ہے۔ تمام افراد کو ریسکیو اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے تک آپریشن جاری رہے گا۔
ضلع بونیر کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں، تباہ کن سیلاب اور شدید آندھی و طوفان کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور جاں بحق ا فراد کی تعداد 157 سے تجاوز کر گئی  ۔
تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ متاثر علاقوں میں تحصیل گدیزی کے بیشونی، ملک پور، بلوخان اور قریبی علاقے شامل ہیں ، تحصیل ڈگرکے گوکند، کوٹ سمیت متعدد مقامات شدید متاثر ہوئے ہیں ۔تحصیل چغرزئی کے گل باندی، درگہ چینہ سمیت دیگر مقامات بھی سیلاب کی زد میں ہیں ۔
تحصیل گدیزی میں 120 سے زائد لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔تحصیل ڈگر میں 15 لاشیں برآمد ہوئیں اور 100 سے زائد افراد کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔
تحصیل چغرزئی میں ایک ہی گھر کے 22 افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوئے، جبکہ متعدد افراد زخمی ہیں، جنہیں ٹی ایچ کیوں گل باندی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ریسکیو 1122 بونیر کے اہلکار متاثرہ علاقوں میں دن رات سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بارشوں اور میں مصروف

پڑھیں:

بجلی کمپنیوں کی غفلت سے 30 اموات، نیپرا کا 5 کروڑ 75 لاکھ جرمانہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے غفلت اور ناقص حفاظتی انتظامات ایک بار پھر سنگین سانحے کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جس نے نہ صرف اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے بلکہ ملک میں انسانی جانوں کے تحفظ کے حوالے سے موجود کمزور نظام کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔

مالی سال 2023-24 کے دوران مختلف شہروں میں ہونے والے بجلی سے متعلق حادثات میں 30 افراد کی جانیں چلی گئیں، جن کا ذمہ دار نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے براہِ راست تین بڑی تقسیم کار کمپنیوں لیسکو، فیسکو اور گیپکو کو قرار دیا ہے۔

اتھارٹی کی جانب سے اپنے الگ الگ فیصلوں میں ان کمپنیوں کی سنگین کوتاہی ثابت ہونے کے بعد مجموعی طور پر 5 کروڑ 75 لاکھ روپے کا بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

نیپرا کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق لیسکو پر 3 کروڑ روپے، گیپکو پر 1 کروڑ 75 لاکھ روپے جبکہ فیسکو پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ اس بنیاد پر عائد کیا گیا کہ تینوں کمپنیاں حادثات کے وقت بروقت اور مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں۔

تحقیقات کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ ان واقعات میں زیادہ تر ہلاکتیں اُن مقامات پر ہوئیں جہاں بجلی کے نظام کی مرمت یا دیکھ بھال کے کاموں کے دوران مناسب حفاظتی پروٹوکول موجود نہیں تھے۔ کئی مقامات پر لائن مین اور دیگر عملہ بغیر حفاظتی آلات کام کرتا پایا گیا، جبکہ بعض حادثات میں ٹوٹی ہوئی تاریں اور بے حفاظتی پولز عوام کے لیے براہِ راست خطرہ بنے رہے۔

نیپرا کی رپورٹ کے مطابق لیسکو کے زیرِ انتظام علاقوں میں سب سے زیادہ 13 اموات رپورٹ ہوئیں، جو کہ کمپنی کی کارکردگی پر سخت سوالیہ نشان ہے۔ گیپکو میں 9 جب کہ فیسکو میں 8 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ تینوں اداروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے تاہم وہ اتھارٹی کو قائل کرنے یا اپنی پالیسیوں اور ذمہ داریوں میں بہتری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

اس ناکامی نے یہ واضح کردیا کہ متعلقہ کمپنیاں نہ صرف حفاظتی اقدامات میں غفلت برت رہی تھیں بلکہ اندرونی نظام بھی اس قابل نہیں تھا کہ انسانی جانوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دے سکے۔

اتھارٹی نے اپنے حکم نامے میں مستقبل کے لیے نہایت سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ بجلی تقسیم کار ادارے انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لیے واضح، مضبوط اور قابلِ عمل حفاظتی حکمتِ عملی بنائیں۔

نیپرا کی جانب سے یہ بھی لازم قرار دیا گیا کہ لائن اسٹاف کے لیے حفاظتی تربیت اور آلات کو معیار کے مطابق یقینی بنایا جائے جب کہ فیلڈ انسپیکشنز کو مزید سخت اور مسلسل رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ غفلت کے باعث پیش آنے والے یہ حادثات دوبارہ جنم نہ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈبلیو ایم نصیر آباد کا ضلعی شوریٰ اجلاس، نو منتخب عہدیداران کا اعلان
  • محکمہ موسمیات نے دسمبر میں بارشوں کی پیشگوئی کردی
  • کراچی کو جان بوجھ کر تباہی کے راستے پر دھکیلا جا رہا ہے، ایڈووکیٹ حسنین علی
  • بجلی کمپنیوں کی غفلت سے 30 اموات، نیپرا کا 5 کروڑ 75 لاکھ جرمانہ
  • ڈیرہ اسمٰعیل خان: سیکورٹی فورسز کی کارروائی‘ 10 دہشت گرد ہلاک
  • بجلی کرنٹ سے 30 اموات، 3 کمپنیوں پر پونے 6 کروڑ کا جرمانہ عائد
  • ایم ڈبلیو ایم جعفرآباد کا اجلاس، صوبائی و ضلعی رہنماؤں کی شرکت
  • کانگو، کان کنوں کے وزن سے پل کان کے اوپر جا گرا، نیچے دب کر 43 افراد ہلاک
  • سرچ آپریشن، 76 غیر قانونی مقیم افغان باشندے گرفتار
  • راولپنڈی پولیس کا سرچ آپریشن، 76 افغان زیرِ حراست