پچیس کتابوں کی گرفتاری و ریاست بدری
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ کی چھٹی برسی (پانچ اگست) سے ایک ہفتہ قبل ریاستی حکومت نے کشمیری تاریخ و سیاست سے متعلق پچیس کتابوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔فرمان جاری ہوا کہ جس کے پاس بھی یہ کتابیں برآمد ہوئیں اسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جن مصنفین کی کتابوں کو معتوب قرار دیا گیا ان میں ارون دھتی رائے ، اے جی نورانی ، یوسف صراف ، وکٹوریہ سکوفیلڈ ، سمانترا بوس اور عائشہ جلال سمیت متعدد معروف مصنفین کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی السلام اور حسن البنا کی کتاب مجاہد کی اذان بھی شامل ہے۔
سرکار کا کہنا ہے کہ یہ پابندی کشمیری نوجوانوں کے اذہان کو ’’بے بنیاد اور مسخ شدہ علیحدگی پسند پروپیگنڈے ‘‘سے محفوظ رکھنے کے لیے عائد کی گئی۔ حالانکہ یہ سب کتابیں کئی کئی سال پہلے شایع ہو چکی ہیں اور پڑھنے والے انھیں پڑھ بھی چکے۔شاید سرکاری بابوؤں کو اب یہ کتابیں پڑھنے کی فرصت ملی۔اگر کسی کو پھر بھی پڑھنی ہوں تو کشمیر سے باہر کسی بھی بھارتی شہر میں جا کے خریدی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔اگر جموں یا سری نگر واپسی کے دوران سامان سے نکل آئیں تو مسافر سامان سمیت ضبط ہو سکتا ہے۔
انھی پابند کتابوں میں سے ایک جموں سے نکلنے والے پرانے اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کی انگریزی تصنیف ’’ آرٹیکل تین سو ستر کے بعد کی ان کہی کہانی ‘‘ بھی ہے۔
انورادھا کشمیر ٹائمز کے دبنگ مالک آنجہانی وید بھسین کی صاحبزادی ہیں۔انورادھا نے اپنی کتاب کی ضبطی کے بعد ایک مضمون میں کھل کے بات کی۔ ان میں سے کچھ باتیں شاید ہمارے کام کی بھی ہوں۔
’’ میری کتاب دو ہزار بائیس میں شایع ہوئی جو آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ کے بعد ٹھوس ثبوتوں اور تفصیلی انٹرویوز کے ذریعے ریاست کے روزمرہ حالات تصویر کرنے کی ایک سنجیدہ محققانہ کوشش تھی۔کیونکہ حکومت مسلسل دعوی کر رہی تھی کہ اس نے آرٹیکل تین سو ستر ختم کر کے کشمیر میں امن اور خوشحالی کا دروازہ کھول دیا ہے۔
مگر حکومت کے پاس کبھی بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر امن اور خوشحالی کا دروازہ کھل گیا تو پھر اگلے چھ ماہ تک عام شہریوں کی نقل و حرکت محدود کرنے ، فون اور انٹرنیٹ سمیت رابطے کے تمام ذرایع کاٹنے ، تین سابق بھارت نواز وزرائے اعلیٰ سمیت ہزاروں لوگوں بشمول صحافیوں ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمایندوں کو جیل میں ڈالنے ، قدم قدم پر خاردار تاریں بچھانے اور چیک پوسٹوں کی تعداد دوگنی کر کے پوری ریاست کو بلیک ہول میں بدلنے کی ضرورت آخر کیوں پڑی ؟
جب مواصلاتی شکنجہ ذرا ڈھیلا کیا گیا تو صحافیوں ، شہری و سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی۔اس کے لیے نوآبادیاتی دور کا پبلک سیفٹی ایکٹ ہتھیار بنایا گیا۔اس قانون کے تحت کسی کو بھی دو برس تک بنا فردِ جرم قید کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی سخت ترین سنسر لاگو ہو گیا۔جس اخبار یا رسالے نے ذرا سی ہمت دکھانے کی کوشش کی اس کا گلا مالیاتی رسے سے گھونٹ دیا گیا۔میڈیا مالکان کے خلاف ٹیکس چوری ، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں سے روابط کے پرچے کٹنے لگے۔ پوچھ گچھ کے لیے بار بار طلبی ہوئی اور لیپ ٹاپ اور فون چھان بین کے بہانے ضبط ہونے لگے۔
جنھوں نے تابعداری دکھائی ان کا دامن اشتہارات سے بھر دیا گیا۔اخبارات نے ڈر کے مارے اپنے پرانے ریکارڈ محققین کے لیے قفل بند کر دیے۔انٹرویو کے دوران لگے بندھے سوالات کے سوا کچھ پوچھنا مصیت کا دعوت نامہ بن گیا۔ جو کچھ بچے بچے کو معلوم تھا وہ میڈیا کے لیے نامعلوم بنا دیا گیا۔
میری کتاب میں نئی پالیسیوں کے نام پر لوگوں کو املاک اور وسائل سے محروم کرنے کی مثالیں تھیں۔یہ ایک ایسی خوفزدہ ریاست کی کہانی ہے جسے دنیا کو کشمیر کی پرامن فلم دکھانے کے لیے قدم قدم پر نگرانی کے ماحول میں اپنی مسلح عسکری موجودگی مسلسل ثابت کرنا پڑ رہی ہے۔
سرکار چھ برس تک حالات معمول پر آنے کا دعوی کرتے ہوئے بطور ثبوت سیاحوں کی بھیڑ اور اس بھیڑ کے سبب ریاست میں آنے والی خوشحالی اور اس خوشحالی کے نتیجے میں باہر سے آنے والی سرمایہ کاری کا ڈھول پیٹتی رہی اور پھر بائیس اپریل کو چھبیس بے گناہ سیاحوں کے قتلِ عام کی خبر سے یہ ڈھول ہی پھٹ گیا۔یہی وقت تھا کہ حکومت ایک قدم پیچھے ہٹ کے سکون کے ساتھ اپنی غلط پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیتی۔مگر حسبِ توقع الٹا اثر ہوا۔جھینپ مٹانے کے لیے کشمیریوں کی من حیث القوم کردار کشی اور زور پکڑ گئی۔
گرفتاریاں اور گھروں کی مسماری کی ایک اور لہر۔حالانکہ اس المئے سے خود کمشیری بھی غم زدہ تھے کیونکہ اس واردات نے ان کی معیشت پر بھی ایک اور ضرب لگائی تھی۔ انھوں نے نہ صرف مرنے والوں کے دکھ میں ریلیاں نکالیں بلکہ دیے بھی جلائے۔مگر آنکھوں پر پٹی باندھے گودی میڈیا نے کشمیر اور کمشیریوں میں بس وہی دیکھا جو وہ ہمیشہ سے دکھاتے آ رہے ہیں۔
اور اب تازہ کارنامہ پچیس کتابوں پر پابندی ہے۔یہ کتابیں صرف ضبط نہیں ہوں گی بلکہ جلا دی جائیں گی۔گویا لکھنا ہی نہیں پڑھنا بھی اب قومی سالمیت کو کمزور کرنا قرار پایا ہے۔اس پابندی کا مقصد متبادل بیانیے اور متبادل یادداشت کو عوام کے اجتماعی ذہن سے محو کرنا ہے۔جو بیانیہ بھی سرکاری موقف سے الگ ہونے کی کوشش کرے گا وہ غدار قرار پائے گا۔
ہم سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ تشدد کا استعمال کسی گروہ کا نہیں صرف ریاست کا حق ہے۔مگر اب تو یوں ہے کہ علم اور خبر کی ترسیل پر بھی صرف ریاست کی اجارہ داری ہے۔کیا لکھنا ہے کیا پڑھنا ہے۔اس حق کو بھی نیشنلائز کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے وادی میں ایک الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر طنز کیا کہ ’’ انھوں نے کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر دیے۔ہم نے ان نوجوانوں کو کتابیں اور لیپ ٹاپ تھمائے ہیں۔
آج آپ کسی بھی تفتیشی مرکز میں جا کر دیکھیں۔جو ’’ لیپ ٹاپ اور کتابیں ’’تھمائی گئی تھیں۔ان کا وہاں ڈھیر لگا ہوا ہے۔چنانچہ جو لوگ کہتے ہیں کہ دعوؤں کے کھوکھلے پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ان لوگوں سے بحث میں الجھنے کے بجائے اب ہمدردی کرنا چاہیے‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ریاست چلانے والو ! ہم نے تو برداشت کرلیا ہے، آپ نہیں کر پاؤ گے: گنڈاپور
سٹی42: خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ریاست نے عمران خان اور کئی لیڈروں کو جیل میں ڈالا ہوا ہے لیکن ریاست چلانے والو وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔
jجمعرات کو علی امین گنڈاپور نے پہاڑ پور میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ریلی نکالی۔
ریلی کے اختتام پر بعد میں پہاڑ پور سٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی امین نے کہا ہم قانون کی پاسداری کررہے ہیں لیکن میرے عوام کوحقوق کون دے گا؟
ایک ہفتے میں چینی کی قیمت میں 18 روپے فی کلو کا بڑا اضافہ؛ ادارہ شماریات کی رپورٹ
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن قائم کرنا اور دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے، ریاست نے بانی پی ٹی آئی اور کئی لیڈرز کو جیل میں ڈالا ہوا ہے، ریاست چلانے والو وقت ایک جیسا نہیں رہتا، ہم نے تو برداشت کرلیا ہے، آپ نہیں کر پاؤ گے۔
علی امین نے کہا کہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اگرکچھ لوگوں نےبندوق اٹھائی ہےتو اس میں ہمارا بھی قصور ہے، جہنوں نے بندوق اٹھائی ہے انہیں سمجھایا جائے، افغانستان سے مذاکرات ہورہے ہیں، یقین ہے وہ ہماری بات مانیں گے۔
پاکستانی ڈمپل کوئین اداکارہ 10 خوبصورت ترین اداکاروں کی فہرست میں شامل
وزیر اعلیٰ کے پی نے مزید کہا کہ عمران خان نےجب بھی کال دی، اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ علی امین نے یہ بھی کہا، ہم سیاست کرتے ہیں، ہمیں بغاوت پر مجبور نہ کیاجائے۔