سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے خاتمے کیلئے مذاکرات ضروری ہیں،چیئرمین سینیٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے خاتمے کیلئے مذاکرات ضروری ہیں،چیئرمین سینیٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 17 August, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز)چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا فروغ ضروری ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر نے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا۔انہوں نے کہا کہ دنیا امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کررہی ہے، امن کا قیام پائیدارترقی اورخوشحالی کے لیے ناگزیرہے، سیاسی جماعتوں کے درمیان گفت وشنید انتہائی ضروری ہے۔چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے خاتمے کے لیے ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہوگا
ملکی خود مختاری اور سلامتی کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے، مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ خطے میں امن اور استحکام چاہتے ہیں، بھارت ایک انتہا پسند ریاست ہے، بھارت خطے کا امن اوراستحکام خراب کرنا چاہتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی جارحیت کے دوران ہمارے میڈیا نے ذمہ دارانہ کردارادا کیا، بھارتی جارحیت کیخلاف دوست ملکوں نے پاکستانی موقف کی بھرپورحمایت کی، بھارتی جارحیت کیخلاف سفارتی محاذ پربھی کامیابی حاصل ہوئی، مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پرفخرہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکیش لیس و ڈیجیٹل معیشت کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں، وزیراعظم کیش لیس و ڈیجیٹل معیشت کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں، وزیراعظم مودی کی آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی تقریر، کانگریس رہنماوں کی سخت تنقید ٹرمپ سے اصلی کے بجائے ڈمی پیوٹن نے ملاقات کی، بھارتی میڈیا کا مضحکہ خیز پروپیگنڈا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صارفین کو مفت آن نیٹ وائس کالز فراہم کی جارہی ہیں،ترجمان پی ٹی اے ملک سے فرار کی کوشش ناکام، یوٹیوبر ڈکی بھائی کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا، جسمانی ریمانڈ منظور غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف، برطانیہ، سوئیڈن، فن لینڈ اور اسرائیل میں ہزاروں افراد کے احتجاجی مظاہرےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چیئرمین سینیٹ بھارتی جارحیت کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن کی پیشکش ہے مگر حقیقت میں یہ امن کو ایسی شرائط سے مشروط کرتا ہے جو اسرائیل کیلئے فائدہ مند اور فلسطینی و مسلم دنیا کیلئے خطرات لئے ہوئے ہیں، منصوبے کا خالصتاً تکنیکی اور اقتصادی روپ اگر سیاسی نمائندگی اور خودمختاری کے اصولوں کے خلاف نافذ کیا گیا تو یہ امن نہیں بلکہ ایک ایسے ڈھانچے کی بنیاد ہوگا جس میں جیت ہمیشہ طاقتور فریق کی ہوگی۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن، تعمیر نو اور فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کی باریکیاں کھول کر دیکھی جائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مزید سیاسی، عسکری اور اقتصادی فائدہ دیتا ہے اور فلسطینی عوام و مسلم دنیا کیلئے خطرات سے بھرا ہے، اس منصوبے کے اہم نکات ترتیب وار یہ ہیں، غزہ کو دہشت گردی سے پاک اور غیر عسکری خطہ بنایا جائے گا، غزہ کی تعمیر نو اور عوامی مفاد کا وعدہ کیا جائے گا، معاہدہ طے ہوتے ہی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی بتدریج واپسی ہوگی، تمام یرغمالی 48 گھنٹوں میں واپس کئے جائیں گے، اس کے بدلے اسرائیل سینکڑوں فلسطینی سکیورٹی قیدی اور لاشیں واپس کرے گا، معافی دینے اور محفوظ راستے فراہم کرنے کی شق شامل ہوگی، روزانہ امداد کا حجم بڑھایا جائے گا اور ملبہ ہٹانے کے آلات داخل ہوں گے، امداد بین الاقوامی اداروں کے ذریعے دی جائے گی، غزہ کی عبوری انتظامیہ فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی اور ایک بین الاقوامی ادارہ اس کی نگرانی کرے گا، تعمیر نو کیلئے ماہرین کے ساتھ جدید شہری پلان تیار ہوں گے۔
اقتصادی زون قائم کیا جائے گا اور کم ٹیرف شرائط طے ہوں گی، کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا مگر جو جانا چاہے واپس آ سکے گا، حماس کا کوئی حکومتی کردار نہیں ہوگا اور اس کے عسکری ڈھانچے ختم کئے جائیں گے، علاقائی شرکاء امن کی ضمانت فراہم کریں گے، امریکی اور بین الاقوامی پارٹنرز ایک عبوری استحکام فورس تعینات کریں گے اور فلسطینی پولیس کی تربیت کریں گے، اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور بتدریج علاقے واپس کرے گا، اگر حماس تاخیر کرے یا انکار کرے تو منصوبہ جزوی طور پر نافذ ہوگا، اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا اور دوحہ کے ثالثی کردار کو تسلیم کرے گا، ایک ڈیریڈیکلائزیشن عمل اور بین الاقوامی مکالمہ قائم کیا جائے گا، اور آخر میں فلسطینی ریاست کے قیام کا ممکنہ روڈ میپ اور سیاسی افق قائم کرنے کا وعدہ ہے۔
ان نکات کا گہرا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ منصوبے کے مرکزی ستون حماس کی مسلح حیثیت کا خاتمہ، غزہ کی ڈیریڈیکلائزیشن اور عبوری بین الاقوامی فورس کی تعیناتی ہیں، یہ شقیں بظاہر فلسطینی عوام کیلئے امداد اور بحالی کا وعدہ پیش کرتی ہیں لیکن ان کا نفاذ اس شرط پر ہے کہ فلسطینی یا حماس وہی کارڈ کھیلیں جو منصوبہ بنانے والوں نے مقرر کیا ہے، اس طرح فلسطینی نمائندگی اور خود ارادیت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور عبوری ٹیکنوکریٹ انتظامیہ کے ذریعے مقامی سیاسی قوتوں کے بجائے بیرونی کنٹرول کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسرائیل کیلئے اس منصوبے کے فوائد یہ ہیں کہ جنگی دباؤ کم ہونے پر عالمی دباؤ میں عارضی کمی آئے گی، حماس کی عسکری طاقت کو کمزور کر کے اندرونی خطرہ محدود کیا جا سکتا ہے، عبوری فورس اور ٹیکنوکریٹس کے ذریعے غزہ پر غیر براہِ راست کنٹرول ممکن بنایا جا سکتا ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو مستقبل کی شقوں کے حوالے کرکے وقتی طور پر جغرافیائی و سیاسی کنٹرول برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
فلسطینی عوام کیلئے خطرہ یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کی جگہ ٹیکنوکریٹس اور بین الاقوامی اداروں کی عبوری حکومت آ جائے گی، حماس کی سیاسی قوت ختم یا بائی پاس ہو جائے گی، امداد اور ترقیاتی منصوبے اگر بیرونی شرائط پر چلیں تو یہ معاشی انحصار اور سیاسی کنٹرول میں تبدیلی کی راہ ہموار کریں گے اور سب سے بڑھ کر اگر ریاستی قیام کو ’’شرائط پوری ہونے‘‘ تک مؤخر رکھا جائے تو فلسطینی قوم کے طویل المدتی سیاسی حقوق پس پشت رہ جائیں گے، امریکہ نہ صرف اس منصوبے کا ثالث بلکہ فعال سہولت کار بھی ہے، وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کی میزبانی، قطر حملے پر اسرائیلی معافی اور یہی وقت منصوبہ پیش کرنے کا انتخاب بتاتا ہے کہ واشنگٹن اس مرحلے پر اسرائیل کی کارروائیوں کا حامی و مددگار ہے۔
یہ سہولت کاری عملی ثبوت ہے کہ امریکہ نہ صرف اسرائیل کی جارحیت کو قانونی تحفظ فراہم کر رہا ہے بلکہ اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کیلئے عرب دنیا کی مارکیٹ کھول رہا ہے۔ عرب اور مسلم ریاستوں کے سامنے دو راستے ہیں، یا تو وہ وقتی مالی و سفارتی فوائد کے بدلے اپنے سیاسی اصول بیچ دیں یا مشترکہ، شفاف اور عملی حکمتِ عملی اپنائیں جس میں دفاعی خود مختاری، معاشی آزادی اور علاقائی یکجہتی شامل ہو، پاکستان سعودی دفاع معاہدہ اسی تناظر میں ایک اشارہ ہے کہ بعض مسلم ریاستیں اپنی سکیورٹی واحدت کو متبادل دھارے کی طرف منتقل کر رہی ہیں مگر اس معاہدے کی افادیت اسی وقت تک حقیقی ہوگی جب وہ محض بیانیہ نہ رہ کر عملی مشترکہ کمانڈ، شفاف قواعد اور بروقت تعاون میں ظاہر ہو۔
ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ بظاہر امن کی پیشکش ہے مگر حقیقت میں یہ امن کو ایسی شرائط سے مشروط کرتا ہے جو اسرائیل کیلئے فائدہ مند اور فلسطینی و مسلم دنیا کیلئے خطرات لئے ہوئے ہیں، منصوبے کا خالصتاً تکنیکی اور اقتصادی روپ اگر سیاسی نمائندگی اور خودمختاری کے اصولوں کے خلاف نافذ کیا گیا تو یہ امن نہیں بلکہ ایک ایسے ڈھانچے کی بنیاد ہوگا جس میں جیت ہمیشہ طاقتور فریق کی ہوگی، اس لئے عرب اور مسلم قیادت کو چاہیئے کہ وہ اس منصوبے کی ہر شق کا باریک بینی سے تعامل کریں، عمل درآمد کے میکانزم، اداراتی نگرانی، شفافیت اور فلسطینی نمائندگی کے سخت ضامن مانگیں ورنہ یہ ایجنڈا امن کے نقاب میں علاقائی توازن، انسانی حقوق اور حقیقی خود ارادیت کو قیمت پر لگانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔