فیلڈ مارشل کی سوچ، ایک رہنمائی
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
گزشتہ دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے کالم ’فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات‘ نے قوم کے سامنے جنرل عاصم منیر کا وہ چہرہ نمایاں کیا ہے، جو روایتی طاقت کے تاثر سے ہٹ کر ایک مخلص، عاقل اور دردِ دل رکھنے والے سپہ سالار کا ہے۔ ان کی گفتگو اور طرزِ عمل نے یہ حقیقت کھول دی کہ وہ صرف ایک جنرل نہیں، بلکہ ایسے قائد ہیں جو اپنے منصب کو ذمہ داری اور امانت سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی عہدے کی تمنا۔
اللہ کے سپاہیجنرل عاصم منیر نے صاف الفاظ میں کہا: ’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے، مجھے اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں۔ میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے۔‘
یہ جملے اس بات کا اعلان ہیں کہ ان کی منزل اقتدار یا رتبہ نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور وطن کا تحفظ ہے۔ ان کا ہر لفظ جذبہ شہادت سے بھرا ہوا ہے۔
سیاسی قیادت کی قدردانییہ پہلو بھی غیر معمولی ہے کہ انہوں نے کھلے دل سے وزیراعظم شہباز شریف اور کابینہ کی محنت کو سراہا۔ جنگ کے دنوں میں سول قیادت کے حوصلے کو خراجِ تحسین دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اداروں کے ٹکراؤ کے بجائے تعاون اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی اعلیٰ ظرفی ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ملک کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
سیاست اور قرآن کی روشنیجب سیاسی مصالحت کا سوال اٹھا تو انہوں نے اسے محض ایک دنیاوی معاملہ نہیں سمجھا بلکہ قرآنِ مجید کی آیات کی روشنی میں سمجھایا۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق اور ابلیس کے انکار کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا:
’جو سچے دل سے معافی مانگ لے وہ فرشتہ بن جاتا ہے، اور جو ضد پر اَڑ جائے وہ شیطان کی راہ پر چل پڑتا ہے۔‘
یہ پیغام پاکستانی سیاست کے لیے بھی سبق ہے کہ ضد اور انا نہیں بلکہ عاجزی اور معافی ہی اصل راستہ ہے۔
معاشی ویژنفیلڈ مارشل نے پاکستان کے معاشی مستقبل کا جو خاکہ پیش کیا وہ عام دعووں سے کہیں آگے تھا۔ انہوں نے حساب کتاب کے ساتھ بتایا کہ ریکوڈک سے اگلے سال سے ہی اربوں ڈالر کا خالص منافع شروع ہوگا، جو ہر سال بڑھتا جائے گا۔
ان کا یقین تھا کہ زمین کے ان نایاب خزانوں سے نہ صرف پاکستان اپنے قرضے اتار دے گا، بلکہ دنیا کی خوشحال ترین ریاستوں میں شمار ہوگا۔ یہ بات ایک ایسے سپہ سالار کے ویژن کو ظاہر کرتی ہے جو صرف جنگی محاذ پر نہیں بلکہ معیشت کے محاذ پر بھی رہنمائی کر سکتا ہے۔
خارجہ پالیسی میں توازنانہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ چین اور امریکا کے درمیان توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
’ہم ایک دوست کے لیے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے۔‘
یہ جملہ پاکستان کی خودداری اور متوازن خارجہ پالیسی کا نچوڑ ہے۔ ان کا صدر ٹرمپ کو امن کا خواہاں کہنا اور نوبل انعام کی سفارش کا حوالہ دینا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔
دشمنوں کے عزائم بے نقابجنرل عاصم منیر ہر فورم پر بھارت اور اس کے ہندوتوا نظریے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ برسلز کی کانفرنس میں بھی انہوں نے مودی سرکار کو متنبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف پراکسی وار بند کرے۔
افغان حکومت کو بھی انہوں نے دو ٹوک پیغام دیا کہ اگر طالبان کو پاکستان میں دھکیلا گیا تو ہر قطرہ خون کا حساب چکایا جائے گا۔ یہ جرأت مندانہ موقف ان کی غیرتِ ایمانی اور حب الوطنی کا ثبوت ہے۔
عاجزی اور عوام سے تعلقاس ملاقات کا سب سے حسین پہلو ان کی عاجزی اور سادگی تھی۔ عام طور پر بڑے حکمران اور جرنیل ’ہٹو بچو‘ کے شور میں گِھرے رہتے ہیں، لیکن وہ گھنٹوں کھڑے رہے، سینکڑوں اوورسیز پاکستانیوں سے ہاتھ ملایا، تصویر بنوائی اور ہر سوال کا جواب دیا۔ نہ ان کے چہرے پر تھکن تھی نہ کوفت، بلکہ ایک ہلکی مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے کہا:
’یہ لوگ بہت دور سے آئے ہیں، ان کا دل کیسے توڑوں؟‘
یہ جملہ ایک فوجی نہیں، بلکہ ایک خادمِ قوم کی زبان سے نکلا ہوا لگتا ہے۔
اصل پیغامان کی باتوں کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ سویلین نظام کو چلنا چاہئے۔ اختلافات کو مصالحت اور مصلحت سے سلجھانا چاہیے تاکہ ایک مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ یہ سوچ ایک ایسے قائد کی نشانی ہے جو ملک کو صرف طاقت کے زور پر نہیں بلکہ جمہوریت، اخلاص اور قومی یکجہتی کے ذریعے مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔
نتیجہفیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی یہ گفتگو اور طرزِ عمل قوم کے سامنے ایک ایسے رہنما کی تصویر پیش کرتے ہیں جو اقتدار سے بے نیاز، شہادت کا متمنی، سیاست میں انصاف پسند، معیشت میں وژنری اور عوام کے لیے درویش صفت ہے۔
ان کی سوچ میں دین بھی ہے، دنیا بھی، طاقت بھی ہے اور عاجزی بھی، عزم بھی ہے اور امید بھی۔
یقیناً قوم کا یہ سپہ سالار آنے والے دنوں میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے وہ کردار ادا کر سکتا ہے جس کی تمنا ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل آئی نے تاریخ رقم کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) نے طبّی تاریخ میں شاندار سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔
ادارے نے جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے صفِ اول کے ٹرانسپلانٹ مراکز میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ یہ کامیابی پاکستان کے شعبۂ صحت کے لیے غیر معمولی پیش رفت اور عالمی سطح پر ملک کی ساکھ میں اضافہ ہے۔
پی کے ایل آئی کے قیام کا خواب 2017 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے دیکھا تھا۔ ان کا مقصد ایسا عالمی معیار کا اسپتال قائم کرنا تھا جہاں عام شہریوں کو گردے اور جگر کے امراض کا علاج جدید سہولتوں کے ساتھ مفت فراہم کیا جا سکے۔ آج وہ خواب عملی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچائی جا چکی ہیں۔
ترجمان کے مطابق ادارے نے اب تک جگر کے 1000، گردے کے 1100 اور بون میرو کے 14 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کیے ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ 40 لاکھ سے زائد مریض پی کے ایل آئی کی سہولتوں سے استفادہ کر چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد کو عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت تقریباً 60 لاکھ روپے ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔
ترجمان نے انکشاف کیا کہ سابق حکومت کے دور میں ادارے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، فنڈز منجمد کیے گئے اور غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا، جس کے باعث ٹرانسپلانٹس کا عمل تقریباً رک گیا تھا، تاہم 2022 میں شہباز شریف کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پی کے ایل آئی کو مکمل بحالی ملی۔
اس کے بعد ادارہ ایک بار پھر اپنے اصل مشن کی جانب لوٹا اور ریکارڈ رفتار سے ٹرانسپلانٹس انجام دیے۔ صرف 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد جگر کے کامیاب آپریشنز مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک جگر کا ٹرانسپلانٹ 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر میں ہوتا ہے، جب کہ پہلے ہر سال تقریباً 500 پاکستانی مریض بھارت کا رخ کرتے تھے۔ پی کے ایل آئی نے نہ صرف ان اخراجات کا بوجھ ختم کیا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی ملک میں محفوظ رکھا۔
یہ منفرد اور مثالی ادارہ اب صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجری جیسے جدید شعبوں میں بھی عالمی معیار پر خدمات انجام دے رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سرپرستی اور حکومت کے تعاون سے پی کے ایل آئی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اب یہ اسپتال محض ایک طبی ادارہ نہیں بلکہ قومی فخر، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔