بھارت، ووٹر لسٹ میں پاکستانی خاتون کا نام شامل ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT
بھارتی ریاست بہار کے شہر بھاگلپور کی ووٹر لسٹ میں ایک پاکستانی خاتون کا نام شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پاکستانی خاتون مبینہ طور پر تقریباً سات دہائیاں قبل انڈیا میں داخل ہوئی تھیں اور اب بھاگلپور میں جاری خصوصی جامع نظرثانی کے دوران انتخابی فہرست کے مسودے میں ان کا نام پایا گیا ۔
اب اس معاملے میں سرکاری تحقیقات جاری ہیں اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے نکالنے کے اقدامات شروع کیے گئے ہیں۔
یہ معاملہ وزارت داخلہ کی جانب سے بھارت میں ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی مقیم غیرملکی شہریوں کی شناخت کے لیے شروع کی گئی تصدیقی مہم کے دوران سامنے آیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان خاتون کا نام ریاست کی ووٹر لسٹ میں شامل تھا بلکہ خصوصی نظرثانی کے عمل کے دوران اس کی تصدیق بھی کی گئی تھی۔
فہرست کی تصدیق کے معاملے سے منسلک بُوتھ لیول آفیسر (بی ایل او) نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے رسمی مراسلت کے نتیجے میں 11 اگست کو ان خاتون کا نام الیکشن ڈیپارٹمنٹ نے نوٹیفائی کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے الیکشن ڈیپارٹمنٹ سے ایک خط موصول ہوا جس میں ان خاتون کے پاسپورٹ اور ویزا کی تفصیلات تھیں جس سے ان کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق ہوئی۔ انہیں 1956 میں رنگ پور مں پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا اور ان کے ویزے پر 1958 درج ہے۔
بی ایل او نے مزید بتایا کہ ’تصدیقی عمل کے دوران پتا چلا کہ خاتون کی صحت کافی خراب ہے اور وہ اس عمل سے لیے ضروری بات چیت کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ ان کا نام فہرست سے نکالنے کے لیےباقاعدہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
بھاگلپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈاکٹر نوال کشور نے بھی تصدیق کی ہے کہ ’فارم 7 جمع کروا کے ان کا نام فہرست سے حذف کرنے کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس معاملے کا پس منظر جاننے کے لیے مزید تحقیقات بھی جاری ہیں۔
بہار اسمبلی کے انتخابات سے قبل جولائی میں ووٹر فہرستوں پر نظرثانی کا عمل شروع کیا گیا تھا جس کے تحت فارم تقسیم کیے گئے تھے۔
الیکشن کمشن آف انڈیا کے مطابق سات کروڑ 89 لاکھ میں سے سات کروڑ 24 لاکھ فارم ادارے کو واپس موصول ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔