برطانوی ولی عہد ولیم اور شہزادی کیٹ کا نیا گھر، ماہانہ کرایہ کتنا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ اپنے خاندان کے ساتھ ایک نئے محل نما گھر میں منتقل ہونے جا رہے ہیں جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 5.7 ارب پاکستانی روپے) بتائی گئی ہے اور اس کا ماہانہ کرایہ بھی ہوش اڑادینے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہزادہ ولیم و اہلخانہ کا ایڈیلیڈ کاٹیج چھوڑ کر فاریسٹ لاج منتقل ہونے کا اعلان، نئے پڑوسی پریشان
یہ 8 کمروں پر مشتمل عالیشان رہائش گاہ فاریسٹ لاج ان کے موجودہ 4 کمروں والے گھر ایڈیلیڈ کاٹیج سے صرف 4 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ گھر شاہی جوڑے کے 3 بچوں شہزادہ جارج، شہزادی شارلٹ اور شہزادہ لوئس کے لیے بھی انتہائی موزوں سمجھا جا رہا ہے۔
برطانوی اخبار دی مرر کے مطابق یہ جائیداد کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت ہے اور امکان ہے کہ شاہی جوڑا اسے کرایے پر حاصل کرے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جارجیئن طرز کا محل 1829 سے شاہی خاندان کی تحویل میں ہے۔ سنہ 2001 میں اس کا کرایہ 15 ہزار پاؤنڈ ماہانہ مقرر کیا گیا تھا۔ پراپرٹی ماہر رسل کوئرک کے مطابق موجودہ دور میں اس کا کرایہ تقریباً دگنا ہو کر 30 ہزار پاؤنڈ ماہانہ (تقریباً 1.
انہوں نے کہا کہ ونڈسر میں کرایوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور اس وجہ سے اس گھر کا کرایہ بھی بڑھ چکا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہی امور کی ماہر اور مجسٹی میگزین کی ایڈیٹر انچیف انگریڈ سیورڈ نے بتایا کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ اب کرینبورن ہال ریزیڈنشل پارک کے قریب عام شہریوں کے پڑوس میں رہیں گے۔
واضح رہے کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ یہ نیا گھر ’کراؤن اسٹیٹ‘ سے حاصل کر رہے ہیں جو ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اس لیے انہیں کرایہ ادا کرنا ہوگا۔
کراؤن اسٹیٹ کیا ہے؟کراؤن اسٹیٹ دراصل ایک بہت بڑی جائیداد ہے جو برطانوی بادشاہ یا ملکہ کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ ایک ریاستی ادارہ کے طور پر کام کرتی ہے۔
مزید پڑھیے: حقیقی زندگی میں طلسماتی کہانی جیسا سماں باندھتی مشہور شاہی شادیاں
اس کی آمدنی حکومت کو جاتی ہے جس کا کچھ حصہ شاہی خاندان کو بطور ’سوورین گرانٹ‘ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شاہی فرد اس اسٹیٹ کی کسی جائیداد میں رہنا چاہے تو اسے کرایہ دینا پڑتا ہے جیسے عام لوگ کسی سرکاری مکان کا کرایہ دیتے ہیں۔
ذاتی محل کون سے ہیں؟شاہی خاندان کے کچھ محلات ذاتی ملکیت ہوتے ہیں، جیسے کہ سنڈرنگھم ہاؤس (شاہ چارلس کی ذاتی ملکیت) اور بالمورل کیسل۔ لیکن بکنگھم پیلس، ونڈسر کیسل اور دیگر بڑے محلات کراؤن اسٹیٹ یا حکومت کے تحت ہوتے ہیں۔
شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ اس وقت بھی جس گھر یعنی ایڈیلیڈ کاٹیج میں رہ رہے ہیں وہ بھی کرائے پر ہی لیا گیا ہے اور وہ بھی کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت ہے اور اس میں کل 4 کمرے ہیں۔ یہ ونڈسر کاسل کے احاطے کے اندر واقع ہے اور اس کی تعمیر سنہ 1831 میں تعمیر کی گئی تھی۔ ملکہ الزبتھ دوم کی اجازت سے شہزادہ ولیم اور کیٹ سنہ 2022 میں یہاں منتقل ہوئے تھے تاہم اب وہ یہ گھر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ایڈیلیڈ کاٹیج سے پہلے یہ جوڑا کینسنگٹن پیلس میں مقیم تھا۔
اس کا کوئی بڑا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑ رہا تھا لیکن اب بھی یہ ذاتی ملکیت نہیں بلکہ کراؤن اسٹیٹ کی جائیداد ہے جسے وہ بطور رہائش استعمال کر رہے ہیں۔ کراؤن اسٹیٹ برطانیہ کی عوامی جائیداد ہے جو ریاست کی ملکیت ہے نہ کہ کسی فرد کی۔ شاہی خاندان اگر اس میں رہائش اختیار کرے تو وہ اسے بطور کرایہ دار استعمال کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: اپنی شادی پر بادشاہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے چپکے چپکے آنسو بہانے کا عقدہ کھل گیا
نئے 8 کمروں والے گھر کی بھی یہی نوعیت ہے۔ چونکہ ونڈسر گریٹ پارک کا حصہ یہ گھر بھی کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت ہے اس لیے شہزادہ ولیم کو اس کا کرایہ دینا ہوگا۔ اب رپورٹس کے مطابق یہ کرایہ ماہانہ 30 ہزار پاؤنڈ (تقریباً ایک کروڑ پاکستانی روپے) تک ہو سکتا ہے۔ البتہ اس رقم کی سرکاری تصدیق موجود نہیں۔
کیا شہزادہ ولیم یہ کرایہ اپنی جیب سے دیں گے؟شاہی خاندان کے افراد کو ذاتی ذرائع آمدن بھی حاصل ہوتے ہیں اس طرح شہزادہ ولیم کے پاس بھی ذریعہ آمدنی ہے جو ایک بہت بڑی زمین دارانہ جائیداد ہے۔
یہ اربوں پاؤنڈز مالیت کا ادارہ ہے جس سے شہزادہ ولیم کو بطور ولی عہد سالانہ کروڑوں پاؤنڈ کی آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اسی آمدن سے وہ اپنی ذاتی اور خاندانی اخراجات پورے کرتے ہیں جن میں رہائش، اسٹاف اور دیگر ذمے داریاں شامل ہیں۔ لہٰذا امکان یہی ہے کہ نئے گھر کا کرایہ بھی وہ ذاتی آمدن سے ہی ادا کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانوی شاہی خاندان برطانوی ولی عہد کی نئی رہاشگاہ برطانیہ شہزادہ ولیم شہزادے ولیم کے نئے گھر کا کرایہ شہزای کیٹذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی شاہی خاندان برطانیہ شہزادہ ولیم شہزای کیٹ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کراؤن اسٹیٹ کی شاہی خاندان جائیداد ہے ہے اور اس کا کرایہ رہے ہیں یہ بھی
پڑھیں:
جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔
یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔
حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔
علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔
معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔
یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔
کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔
شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔
اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔
یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ
شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا