ایران یورپ کی جانب سے پابندیاں ہٹانے کی شرط پر عالمی جوہری نگرانی تسلیم کرنے کے لیے تیار، ایرانی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایک ’حقیقی اور دیرپا معاہدے‘ کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اپنے یورینیم افزودگی پر سخت نگرانی اور واضح حدود تسلیم کرے گا بشرطیکہ اس کے بدلے میں عالمی پابندیاں اٹھائی جائیں۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے برطانوی اخبار گارڈین میں اپنے مضمون میں یورپی ممالک کو متنبہ کیا کہ وہ اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی وسیع تر پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے منصوبے سے باز آئیں، ورنہ اس کے ’ناقابلِ تلافی اور تباہ کن نتائج‘ برآمد ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
انہوں نے کہا کہ اگر یورپ اس موقع کو ضائع کرتا ہے تو اس کے نقصانات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی گہرے اثرات ڈالیں گے۔ ایران کی خواہش ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس اقدام کو مؤخر کریں کیونکہ پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا اصل فائدہ صرف امریکا کو ہوگا اور یورپ تنہا رہ جائے گا۔
عراقچی کے مطابق حالیہ دنوں میں ان کی اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں سے مثبت بات چیت ہوئی ہے تاکہ ایران کے ان جوہری مقامات کا دوبارہ معائنہ کیا جا سکے جو حالیہ بمباری میں متاثر ہوئے تھے۔ تاہم دوسری جانب ایران کی قدامت پسند پارلیمنٹ اس بل پر غور کر رہی ہے جس کے تحت اگر اقوام متحدہ نے پابندیاں بحال کیں تو ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے نکل سکتا ہے۔ اس صورت میں ایران پر معائنہ کاروں کی رسائی ختم ہو جائے گی۔
عراقچی نے یورپی طاقتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ثالثی کے بجائے امریکی پالیسیوں کے سہولت کار بننے کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ انہوں نے یورپی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ سخت رویہ اختیار کرنے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہیں عالمی اسٹیج پر کبھی مرکزی کردار نہیں دے گا بلکہ صرف ’ثانوی کردار‘ سمجھتا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے: ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا خواہاں نہیں ہے: ایرانی صدر کی روسی ہم منصب کو یقین دہانی
انہوں نے لکھا کہ اگر پابندیاں بحال ہوئیں تو اس سے یورپ کی ساکھ اور عالمی حیثیت بری طرح متاثر ہوگی جبکہ واشنگٹن کا پیغام واضح ہے کہ جگہ بنانے کے لیے یورپ کو غیر مشروط وفاداری دکھانی ہوگی۔
اسرائیل کے حوالے سے عراقچی نے کہا کہ اگر وہ جون میں ایران کے خلاف لڑی جانے والی 12 روزہ جنگ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے پھر امریکا سے مدد مانگنا پڑے گی کیونکہ ایران کی مسلح افواج اس قابل ہیں کہ اسرائیل کو شکست دے سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس؛ وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ملاقات ہوئی۔
اجلاس اسرائیل کے حالیہ قطر پر حملے کے بعد طلب کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم نے 9ستمبر کو قطر پر اسرائیلی جارحیت کی شدید ترین مذمت کی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر نے قطر کے ساتھ اپنی یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا جبکہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دوحہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس نے مسلم دنیا کی طرف سے ایک مضبوط اور یکجہتی پر مبنی پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے اپنی دلی عقیدت اور نیک خواہشات بھی پہنچائیں۔
صدر پزشکیان نے فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو سراہا اور وزیراعظم کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھنے اور پاکستان ایران تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ دونوں رہنماؤں نے تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے تناظر میں رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔