امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ویزے کیوں روک رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
وائٹ ہاؤس اس ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک ہونے والے ایرانی اور دیگر ممالک کے وفود پر سفری اور دیگر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کی ایک اندرونی یادداشت میں سامنے آئی ہے۔
یادداشت کے مطابق ایران، سوڈان، زمبابوے اور برازیل کے وفود پر ممکنہ پابندیاں اس فیصلے کے بعد متوقع ہیں جس میں وائٹ ہاؤس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور ان کے وفد کو ویزا دینے سے انکار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے بغیر فلسطین کا 2 ریاستی حل، اقوام متحدہ میں قرارداد منظور
محمود عباس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے، جہاں کئی مغربی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مجوزہ پابندیاں، جن پر ابھی غور جاری ہے اور جو کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہیں، ان وفود کی نیویارک شہر سے باہر جانے کی صلاحیت کو شدید حد تک محدود کردیں گی۔
ایرانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پہلے ہی نیویارک شہر کے اندر محدود ہے، تاہم ایک تجویز کے تحت انہیں بڑے ہول سیل اسٹورز جیسے ’کوسٹکو‘ اور ’سیمز کلب‘ پر امریکی محکمہ خارجہ سے پیشگی اجازت کے بغیر خریداری سے بھی روکا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز
یہ اسٹورز ایرانی سفارتکاروں میں اس لیے مقبول رہے ہیں کیونکہ وہاں وہ بڑی مقدار میں ایسی اشیا خرید لیتے ہیں جو ایران میں دستیاب نہیں اور نسبتاً سستی ہوتی ہیں، پھر انہیں وطن بھیج دیتے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ ایران کے لیے یہ شاپنگ پابندی کب نافذ ہوگی، تاہم یادداشت میں کہا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ تمام غیر ملکی سفارتکاروں کی ہول سیل کلبز کی ممبرشپ پر بھی شرائط عائد کرنے کے قواعد مرتب کرنے پر غور کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں 2 ریاستی کانفرنس بحال کرنے کی منظوری، امریکا و اسرائیل کی مخالفت
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں ہونے والی 12 روزہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دیا۔
اس جنگ کے نتیجے میں اپریل سے جاری امریکی ایران جوہری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے۔
برازیل کے معاملے میں یہ واضح نہیں کہ ممکنہ ویزا پابندیاں صدر لوئز اناسیو لولا ڈا سلوا پر بھی لاگو ہوں گی یا صرف نچلی سطح کے وفود پر۔
روایت کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سب سے پہلے خطاب برازیل کا صدر کرتا ہے جبکہ امریکی صدر دوسرا مقرر ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل بمقابلہ قطر: کیا خطہ بڑے تنازعے کی طرف بڑھ رہا ہے؟
صدر لولا حالیہ عرصے میں ٹرمپ کے نشانے پر ہیں، کیونکہ برازیلی حکومت سابق صدر جائر بولسونارو پر، جو ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں، بغاوت کی کوشش کے مقدمات چلا رہی ہے۔
صدر لولا کو گزشتہ سال اسرائیل نے اس وقت ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا جب انہوں نے غزہ کی جنگ کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل اور برازیل نے اپنے تعلقات کو تنزلی کی طرف لے جانے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: قطر پر حملہ: برطانوی وزیراعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ’جھڑپ‘ میں بدل گئی
یادداشت میں یہ واضح نہیں کہ سوڈان اور زمبابوے کے وفود پر کس نوعیت کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ البتہ ایک ملک جس کے لیے رعایت دی گئی ہے وہ شام ہے۔
شام کے وفد پر ایک دہائی سے سفری پابندیاں عائد تھیں لیکن گزشتہ ہفتے ان میں نرمی کردی گئی ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ بشار الاسد کی برطرفی کے بعد شام کے نئے دور میں تعلقات بہتر بنانے اور اسے خطے میں دوبارہ شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا ایران برازیل پابندیاں زمبابوے سفری سوڈان سیمز کلب شام فلسطینی اتھارٹی فلسطینی ریاست کوسٹکو محکمہ خارجہ محمود عباس نیویارک ہول سیل اسٹورز وائٹ ہاؤس ویزا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا ایران برازیل پابندیاں زمبابوے سوڈان سیمز کلب فلسطینی اتھارٹی فلسطینی ریاست نیویارک وائٹ ہاؤس ویزا اقوام متحدہ مزید پڑھیں کے وفود پر رہا ہے
پڑھیں:
یورپی یونین بڑا فیصلہ کرنے کو تیار: اسرائیل پر تجارتی پابندیاں متوقع
برسلز: یورپی کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
یورپی یونین نے غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام پہلے سے تباہ حال صورتحال کو مزید بگاڑ دے گا، جس سے مزید ہلاکتیں اور تباہی ہوگی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے کہا کہ اجلاس میں ایسے اقدامات پیش کیے جائیں گے جن کے ذریعے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ ان اقدامات میں تجارتی مراعات معطل کرنا، انتہاپسند اسرائیلی وزیروں اور پرتشدد آبادکاروں پر پابندیاں شامل ہیں۔
کایا کالاس کے مطابق یہ اقدامات واضح پیغام دیں گے کہ یورپی یونین غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔