Express News:
2025-09-18@00:22:32 GMT

ضمنی انتخاب

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

تحریک انصاف نے پہلے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ اب اس فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ تحریک انصاف کو سیاست کی سمجھ آرہی ہے۔ ایک وقت تھا تحریک انصاف کی سیاست ہی بائیکاٹ کی تھی۔ وہ بار بار اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیتی تھی۔ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرتی تھی، اسمبلیوں کی بے توقیری کرتی تھی، اسمبلیوں کو گالیاں نکالتی تھی۔ لیکن اب اسے احساس ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی عزت کرنی ہے، یہی جمہوریت ہے۔

آپ کو یاد ہے کہ 2014ء کے دھرنے میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔ اس نے اسمبلی کے باہر کنٹینر لگا دیا تھا۔ جہاںسے اسمبلیوں اور پارلیمان کو روزانہ گالیاں دی جاتی تھیں، اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جب بانی تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی تب بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دیے۔ بعدازاں اپنی ہی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی توڑ دیں۔

اس لیے اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونا تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کی ایک بڑی کامیاب پالیسی سمجھی جاتی تھی۔تحریک انصاف کے اندر یہ رائے تھی کہ استعفیٰ ایک کامیاب ہتھیار ہے اور اسے بار بار کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فخر سے کہتے تھے کہ ہم نے استعفے دیے ہیں، کوئی منظور کر کے دکھائے۔ وہ دراصل نظام کو چیلنج کر کے یہ ثابت کرتے تھے کہ تحریک انصاف نظام سے مضبوط ہے۔ نظام کو تحریک انصاف کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نظام کی محتاج نہیں، ہم ہیں تو نظام ہے، ہمارے بغیرنظام کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔

لیکن یہ سب تب تک تھا جب تحریک انصاف کو نظام میں اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ اسٹبلشمنٹ کی حمایت انھیں نظام سے طاقتور بنا دیتی تھی۔ اسی لیے ان کے استعفے قبول نہیں ہوتے تھے۔ ان کے کنٹینر کو کوئی ہاتھ لگانے کے لیے بھی تیار نہیں تھا، کوئی ان کو گرفتار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ نظام کو نقصان پہنچائیں یا گالیاں دیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے انھیں نظام میں ایک خاص مقدس حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت ختم ہونے سے تحریک انصاف آہستہ آہستہ نظام کے تابع ہوتی نظر آرہی ہے۔میری نظر میں یہ اچھی بات ہے۔

اگر دیکھا جائے تو فروری کے انتخابات کے بعد اگر تحریک انصاف اپنی پرانی پالیسی پر گامزن ہوتی تو انتخابی نتائج پر اعتراض کی وجہ سے پارلیمان کا بائیکاٹ کر دیتی۔ جیتی ہوئی سیٹوں سے بھی استعفیٰ دے دیتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تمام تر تحفظات کے باوجود تحریک انصاف کے ممبران نے اسمبلیوں کا حلف لیا۔ کے پی میں حکومت بنائی اور آج تک اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ورنہ اگر پہلے جیسے حالات ہوتے تو کب کا بائیکاٹ اور استعفیٰ دے دیے جاتے۔ ہم نہیں تو کوئی نہیں کی پالیسی اب نظر نہیں آرہی۔ اب تحریک انصاف کو پارلیمان کی اہمیت کا بھی احساس ہے۔

اسی طرح نو مئی کے مقدمات میں تحریک انصاف کے ممبران کی سزاؤں کے بعد ان کی نا اہلی سامنے آئی ہے۔تحریک انصاف کے بڑے بڑے نام اپنی سیٹوں سے ناا ہل ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد بانی تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ اعلان سامنے آئے کہ جہاں جہاں تحریک انصاف کے لوگ سزاؤں کی وجہ سے نا اہل ہوئے ہیں وہاں وہاں تحریک انصاف ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے گی۔ بلکہ ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف میں بہت مزاحمت سامنے آئی۔ تحریک انصاف کے لوگ بانی تحریک انصاف کے اس فیصلہ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔مزاحمت کو دیکھتے ہوئے بانی فیصلہ پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے۔ اور انھوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ سیاسی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ یہ تمہید لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف پہلے جب بائیکاٹ اور استعفوں کے فیصلے کرتے تھے توان پر نظر ثانی کی کسی کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی، ان کا فیصلہ اٹل حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اب وہ جیل میں ہیں۔ ان کے فیصلوں پر نظر ثانی ہوتی ہے۔ لوگ ان سے اختلاف کرنے کی جرات کر رہے ہیں۔

اب سیاسی کمیٹی نے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تمام ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ وزیر آباد اور میانوالی کے انتخاب کے لیے ٹکٹوں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے نا اہلیوں اور سزاؤں کے باوجود نظام کا حصہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ پارلیمان اور نظام دونوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ضمنی انتخاب کے ٹکٹ نااہل ہونے والے لوگوں کے خاندان کو دیے گئے ہیں۔ ویسے تو تحریک انصاف موروثی سیاست کے خلاف رہی ہے۔ لیکن اب خود ہی نا اہل لوگوں کے خاندانوں کو ٹکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے سنیٹر اعجاز چوہدری کی نا اہلی کے بعد سینیٹ کے لیے بھی ان کی بیوی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ سینیٹ کے اس انتخاب کا بھی بائیکاٹ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن نہیں کیا گیا۔

ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ضمنی انتخاب حکومت جیتتی ہے۔ اب تک کے ضمنی انتخابات حکومت نے ہی جیتے ہیں۔ حال ہی میں سمبڑیال کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے بھر پور حصہ لیا۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے یہ انتخاب آسانی سے جیت لیا۔ اسی لیے فواد چوہدری صاحب تو دوبارہ بھی تحریک انصاف کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو ضمنی انتخاب لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران بائیکاٹ کے حق میں نہیں ہیںَ کوئی بھی اپنا حلقہ خالی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

 پاکستان کی تاریخ میں پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ جسے آج تک پیپلزپارٹی ایک غلط فیصلہ قرار دیتی ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ جیت اور ہار سے قطع نظر انتخاب میں حصہ لینا چاہیے۔ ووٹ بینک بھی ساتھ رہتا ہے۔ اگر آپ بائیکاٹ کریں تو ووٹ بینک بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے شاید پیپلزپارٹی سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے لوگ بائیکاٹ کے حق میں نہیں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ آپ کو نظام سے جوڑتا ہے، اور آپ کو نظام سے طاقتور نہیں نظام کے ماتحت کر دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسٹبلشمنٹ کی حمایت بانی تحریک انصاف تحریک انصاف نے تحریک انصاف کو تحریک انصاف کی کہ تحریک انصاف تحریک انصاف کے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ بائیکاٹ کی بائیکاٹ کر تیار نہیں کا فیصلہ کیا گیا ا ہستہ کر دیا کے لیے کے بعد

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات24ستمبر کو ہوں گے
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • خیبرپختونخوا بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ کا اعلان
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور شہدا کے لیے 5 منٹ نہیں نکال سکے، بیرسٹر عقیل ملک
  • لاہور: تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں