بھارتی حکومت کا فیصلہ کرکٹ بورڈ پر بھاری پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
بھارتی حکومت کا فیصلہ کرکٹ بورڈ پربھاری پڑ گیا، آن لائن گیمنگ بل کے بعد 358 کروڑ روپے کا اسپانسرشپ معاہدہ ختم کرنا پڑا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت میں آن لائن گیمنگ بل 2025 کے بعد’ریئل منی گیمز ‘ پر پابندی عائد ہوگئی ہے، اسی وجہ سے بی سی سی آئی اور ڈریم 11 کا تعلق ختم کر دیا گیا۔
کرکٹ بورڈ مستقبل میں بھی ایسی کسی بھی کمپنی سے تعلق نہیں رکھے گا۔
اس سے قبل فینٹسی اسپورٹس کمپنی ڈریم 11نے بی سی سی آئی کو مطلع کیا تھا کہ وہ کرکٹ ٹیموں کی لیڈ اسپانسر شپ جاری نہیں رکھ سکے گی کیونکہ اس کی آمدنی کے بڑے ذرائع ختم ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ کمپنی نے حال ہی میں اپنے ریئل منی گیمز بند کردیے ہیں۔
ڈریم 11 کا بی سی سی آئی کے ساتھ 44 ملین امریکی ڈالر (تقریباً 358 کروڑ روپے بھارتی روپے) کا معاہدہ 2023 سے 2026 تک کا تھا۔
ڈریم 11 اور مائی 11 سرکل مل کر بی سی سی آئی کو سالانہ تقریباً 1000 کروڑ روپے اسپانسرشپ سے فراہم کرتے ہیں۔
نئے قانون کے مطابق بھارت میں اب کوئی بھی شخص آن لائن منی گیمنگ سروس فراہم، فروغ یا اس کی تشہیر نہیں کرسکتا۔
اگرچہ سوشل گیمنگ اورسبسکرپشن بیسڈ استعمال کی اجازت ہے لیکن ریئل منی گیمنگ پرپابندی سے ڈریم 11 کی زیادہ تر آمدنی ختم ہو گئی۔
بی سی سی آئی کے سیکرٹری دیواجیت سائکیا نے اس پر تبصرے کرنے سے انکار کردیا۔
معاہدے میں ایک شق کے مطابق سرکاری قانون کی وجہ سے ڈریم 11 کو بھاری جرمانہ نہیں دینا پڑے گا۔
دوسری جانب مذکورہ کمپنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ہمیشہ قانون کی پاسداری کرتے رہے ہیں، اگرچہ ہمیں لگتا ہے کہ ترقی پسند قانون بہتر راستہ ہوتا لیکن ہم اس بل کا مکمل احترام کرتے ہیں اور تعمیل بھی کریں گے۔
ادھر ایک فینٹسی گیمنگ ماہر کے مطابق بل میں ریئل منی گیمنگ پر پابندی پہلے ہی سب کے لیے واضح اشارہ تھا، یہ بڑی کمپنیز کی آمدنی کا 90 فیصد حصہ ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مائی 11 سرکل کیا قدم اٹھاتی ہے، یہ کمپنی بھی بی سی سی آئی کو آئی پی ایل کی اسپانسر شپ کے لیے سالانہ 125 کروڑ روپے دیتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کرکٹرز کے انفرادی اشتہارات پر بھی یہ پابندی سخت منفی اثر ڈالے گی۔ بھارتی ٹیم نیا جرسی اسپانسر نہ ملنے پر ایشیا کپ میں بغیر لوگو کے شریک ہوگی۔
نئے قانون کے بعد بینکوں نے بھی گیمنگ کمپنیز کے ساتھ لین دین روک دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔