بوشہر ایٹمی بجلی گھر میں ایندھن کی تبدیلی، آئی اے ای اے انسپکٹرز ایران پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے انسپکٹرز کی ایران واپسی کا مقصد صرف بوشہر ایٹمی بجلی گھر میں ایندھن کی تبدیلی کے عمل کی نگرانی ہے، اور یہ تعاون مکمل طور پر ملکی قوانین کے مطابق ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی
پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ارکان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں عباس عراقچی نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کی درخواست پہلے قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کو بھیجی جاتی ہے اور اسی کی منظوری کے بعد کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بوشہر ایٹمی ری ایکٹر کے لیے ایندھن کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ عمل آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کی نگرانی میں مکمل ہوگا، تاہم اس دوران ایران کا قانونی فریم ورک ہی حتمی رہنمائی فراہم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران ایٹمی معاہدہ: امریکا اور یورپ کا آئندہ ماہ کی آخری تاریخ پر اتفاق
عراقچی نے مزید کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ کسی نئے طریقہ کار (modality) کے معاہدے پر ابھی کوئی حتمی متن منظور نہیں ہوا۔
فریقین کے درمیان اب تک محض نقطہ نظر کا تبادلہ ہوا ہے، اور ایجنسی نے اپنی رائے تحریری طور پر کئی بار پیش کی ہے۔
ان کے مطابق یہ عمل مذاکرات کا معمول کا حصہ ہے جس میں فریقین تبادلہ خیال کرتے ہیں تاکہ آخرکار کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ پارلیمانی کمیشن کے اجلاس میں دیگر اہم امور بھی زیر بحث آئے جن میں آرمینیا-آذربائیجان راہداری، یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات، آئی اے ای اے سے تعلقات، اور اسنیپ بیک میکانزم کے نفاذ و توسیع کے معاملات شامل تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی اے ای اے ایران ایران جوہری پروگرام بوشہر عراقچی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئی اے ای اے ایران ایران جوہری پروگرام عراقچی آئی اے ای اے
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ سیکورٹی مذاکرات جلد کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے، ابو محمد الجولانی
اپنے ایک بیان میں شامی رژیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر سیکورٹی معاہدہ طے پا گیا تو دیگر معاہدوں کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے، لیکن تاحال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شام کی باغی و عبوری حکومت کے سربراہ "ابو محمد الجولانی" نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی معاملات پر بات چیت جاری ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی نتیجہ نکل آئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیکورٹی معاہدہ طے پا گیا تو دیگر معاہدوں کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے، لیکن تاحال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، دمشق پر اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا۔ دوسری جانب شام کی عبوری حکومت سے وابستہ ایک سورس نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سیکورٹی معاہدے کی بات، تب ہی ممکن ہے جب تل ابیب ان علاقوں سے پیچھے ہٹے جن پر اس نے 8 دسمبر 2024ء کو "بشار الاسد" کی حکومت کے خاتمے کے بعد قبضہ کیا تھا۔ اس سورس نے واضح کیا کہ
۱۔ ہر معاہدہ 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔
۲۔ شام کی خودمختاری اور سرحدوں کی حفاظت کرے۔
۳۔ نیز اسرائیل کے شام پر مسلسل حملوں کو بھی روکے۔
یہ باتیں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب شام، اردن و امریکہ نے صوبہ سویداء کے بحران کے حل اور جنوبی شام میں استحکام کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا، جس میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے پر زور دیا گیا۔ باغیوں کے زیر تسلط شام کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ سمجھوتے دمشق کی تشویش کو دور اور شام کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، ابو محمد الجولانی نے چند دن پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک، اسرائیل کے ساتھ ایک سیکورٹی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے تا کہ اسرائیل 8 دسمبر سے پہلے والی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔ یاد رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، اسرائیلی فوج نے گولان کے علاقے میں داخل ہو کر شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ملک بھر میں فوجی مراکز پر حملے کئے۔ شام نے اسرائیل کے حملوں کو قنیطرہ، درعاء اور دمشق کے نواحی علاقوں میں بین الاقوامی قانون اور 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔