پنجاب میں سیلاب، چند اہم سوالات
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
صرف دو تین ہفتے پہلے تک پاکستان کے شمالی علاقوں میں تباہی مچی تو پنجاب سے مختلف امدادی تنظیموں کے لوگ اور رضاکار اپنے طور پر مدد لے کر وہاں پہنچے۔ تب کس کو اندازہ تھا کہ صرف چند دنوں میں پنجاب کے اندر بھی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
آج پنجاب کے تین اہم دریاؤں راوی، چناب اور ستلج میں شدید طغیانی ہے، مختلف مقامات پر شدید خطرات اور بحرانی صورتحال موجود ہے۔ اگلے دو تین دن بہت اہم ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ اس بحران میں ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر متضاد خبریں، پوسٹیں ، ولاگز وغیرہ چل رہے ہیں۔ ہم آج کے کالم میں بعض بنیادی نوعیت کے سوالات کا جائزہ لے کر حقیقت کھوجنے کی کوشش کریں گے تاکہ قارئین کے لیے اصل صورتحال واضح ہوسکے۔
پنجاب میں سیلاب اچانک کیوں اور کہاں سے آگیا؟
پنجاب میں سیلاب بنیادی طور پر چناب، راوی اور ستلج دریاوں کی وجہ سےآیا۔ ان تینوں میں یہ پانی انڈیا سے آیا ہے۔ یہ تینوں دریا بنیادی طور پر بھارت کے مشرقی ہمالیہ اور پنجاب، ہماچل پردیش کے علاقوں میں پھیلتے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں شدید بارشیں خاص طور پر انہی علاقوں (ہماچل پردیش، مشرقی پنجاب، ہریانہ) میں ہوئیں۔ بھارت نے اپنے ڈیمز (جیسے بھاکڑا، پونگ، رانجیت ساگر وغیرہ) سے پانی چھوڑا جس سے پاکستان کی طرف بڑے سیلابی ریلے آئے۔
ستلج اور راوی میں اس بار پانی کیسے آگیا؟
پنجاب سے پانچ دریا بہتے ہیں۔ سندھ، چناب، جہلم، راوی اور ستلج ، بیاس کو بھی شامل کر سکتے ہیں گو اس کا زیادہ حصہ انڈیا ہی میں ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان نے راوی، ستلج اور بیاس مکمل طور پر انڈیا کے حوالے کر دیے تھے، یعنی ان کے پانی پر پاکستان کا کوئی حق نہیں رہے گاجبکہ سندھ، جہلم اور چناب پر مکمل کنٹرول پاکستان کو مل گیا۔
سندھ طاس معاہدے کے بعد راوی اور ستلج قریباً خشک ہوگئے ،کیونکہ انڈیا نے ان کے پانیوں کو اپنے مکمل کنٹرول میں کر لیا اور کئی ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ ستلج پر تو بھارت نے اتنا بڑا ڈیم بنا رکھا ہے کہ وہ تین سال کے ستلج فلڈ کو بھی سٹور کر سکے۔ اسی وجہ سے عام حالات میں اور طویل عرصے سے راوی اور ستلج میں کبھی اتنا پانی آیا ہی نہیں، بھارت کو ضرورت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنا پانی پاکستان کی طرف بھیجتا۔ اس بار البتہ صورتحال یکسر بدل گئی اور ستلج، بیاس، راوی کے کیچمنٹ ایریا میں اتنی بارشیں ہوئیں اور اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ بھارتی ڈیمز خطرناک حد تک فل ہوگئے۔ انہیں پانی ریلیز کرنا پڑا اور یوں اچانک لاکھوں کیوسک پانی ستلج، راوی میں آگیا۔ جس نے بحران پیدا کر دیا۔
کیا اسے انڈیا کی آبی جارحیت کہیں گے ؟
کہنے کو تو جو مرضی کہہ دیں، اصولی طور پر اسے آفت ہی سمجھنا چاہیے۔ انڈیا میں باقاعدہ قیامت ٹوٹی ہے اور وہاں پاکستان سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ بعض شہروں، خاص کر ہماچل پردیش اور جموں وغیرہ میں تو دو تین دن مسلسل شدید بارش ہوتی رہی۔ اودھم پور میں چھ سو ملی میٹر بارش ہوئی۔
لاہور، کراچی میں ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش پر شہر دریا بن جاتے ہیں اور جب کسی شہر میں اس سے چار گنا زیادہ بارش پورا دن برستی رہے تو کیا حال ہوگا؟ اودھم پور میں تو بیراج بھی تباہ ہوا، کئی جانیں گئیں، گاڑیاں نیچے جا گریں۔ مقبوضہ جموں کے علاقہ میں بھی بارشوں سے بہت نقصان ہوئے۔ بھارتی ڈیم خطرناک حد تک بھر گئے۔
بھارت نے پاکستان کو بروقت پانی چھوڑنے کا بتا بھی دیا۔ سٹینڈرڈ پروسیجر کے مطابق دو دن پہلے بتایا گیا اور اسی وجہ سے پاکستان میں جانی نقصان کم ہوا، ہماری انتظامیہ نےبہت سے دیہات خالی کرا لیے تھے، ورنہ پہلے تو لوگ سوئے ہوتے اور اچانک سیلاب کا ریلا ان کے سر پر جا پہنچتا، لوگوں کو بچ نکلنے کا موقع بھی نہ ملتا۔
انڈیا نے پہلے بتایا، البتہ سندھ طاس کمشنر کے بجائے سفارت خانے کے ذریعے یہ اطلاع دی گئی جو غلط طریقہ کار ہے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اس پر پاکستان نے احتجاج کیا جو بنتا بھی ہے۔
دریائے سندھ میں صورتحال پرسکون کیوں؟
یہ سوال بہت لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہمیشہ سندھ میں سیلاب آتے ہیں، اس بار مختلف کیسے رہا؟ اس لیے کہ سندھ کا کیچمنٹ ایریا مختلف ہے۔ اس کا روٹ بھی خاصا مختلف ہے۔
دریائے سندھ کا کیچمنٹ ایریا زیادہ تر گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور مشرقی افغانستان میں ہے۔ اس حصے میں بارشیں اس بار اتنی شدید نہیں ہوئیں جتنی مشرقی پنجاب، ہماچل پردیش (انڈیا) میں ہوئیں۔ اس لیے دریائے سندھ میں اس وقت غیرمعمولی طغیانی نہیں۔
ایک اور فیکٹر بھی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا دریائے سندھ ہی پر قائم ہے جو سات ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کر سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے پانی کا بڑا حصہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے گلیشیئرز اور برف باری سے آتا ہے۔ یہ پانی سیدھا تربیلا کے ریزروائر میں جمع ہوتا ہے۔ یعنی جو بھی پانی دریائے سندھ میں اپ اسٹریم (گلگت، چلاس، دیامر وغیرہ) سے آتا ہے، وہ سب پہلے تربیلا میں پہنچتا ہے۔ یوں سندھ میں آنے والی طغیانی یا سیلاب کا بڑا حصہ تربیلا روک لیتا ہے۔
جہلم میں چناب جیسی طغیانی کیوں نہیں؟
جہلم اور چناب دونوں کا پانی انڈیا سے آتا ہے، مگر دونوں الگ الگ دریا ہیں اور ان کا کیچمنٹ ایریا بھی مختلف ہے۔ دریائے جہلم کا بڑا حصہ کشمیر (وادی کشمیر، پیر پنجال رینج، اور کچھ حصہ ہماچل) میں ہے۔اس خطے میں بارش ضرور ہوئیں، مگر اتنی تیز اور مسلسل نہیں جتنی چناب، ستلج بیسن میں۔ اسی وجہ سے جہلم میں آنے والا پانی نسبتاً کم رہا۔
جہلم کا زیادہ انحصار برف باری اور گلیشیرز کے پگھلنے پر ہے، جبکہ چناب، ستلج زیادہ تر بارشوں پر ری ایکٹ کرتے ہیں۔ اگست کے اس فلڈ ایونٹ میں بارش اصل وجہ تھی، اس لیے چناب،ستلج زیادہ متاثر ہوئے۔
ایک فیکٹر دریائے جہلم پر بنائے جانے والے ڈیمز بھی ہیں۔ جہلم پر بھارت نے ڈیم بنا رکھے ہیں جن میں سے بعض متنازع بھی ہیں، پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم منگلا بھی دریائے جہلم پر ہے۔ منگلا میں کئی ملین ایکڑ فٹ جمع ہوسکتا ہے۔ یہ ڈیمز بھی کم از کم کچھ دنوں کے لئے پانی روک کر سیلاب کی شدت کم کر دیتے ہیں۔
کیچمنٹ ایریا سے کیا مراد ہے؟
ممکن ہے کسی پڑھنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہو کہ کیچمنٹ ایریا سے کیا مراد ہے؟ کسی بھی دریا یا ندی کا کیچمنٹ ایریا وہ پورا جغرافیائی علاقہ ہے جہاں ہونے والی بارش یا برف باری کا پانی جمع ہو کر اس دریا میں آتا ہے۔ اسے ڈرینج بیسن بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پہاڑوں پر بارش ہو اور وہ پانی چھوٹی ندیوں سے ہو کر دریائے چناب میں جا گرے تو وہ سارا علاقہ چناب کا کیچمنٹ ایریا (catchment area) ہے۔
کیا کالا باغ ڈیم حالیہ سیلاب روک سکتا تھا؟
کالا باغ ڈیم دریائے سندھ کے پانی پر ایک تجویز کردہ ڈیم ہے جو کئی ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کے علاوہ تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ بوجوہ یہ منصوبہ متنازع ہوچکاہے، خاص کر سندھی عوام میں اس کے خلاف شدید ردعمل موجود ہے۔
عام طور سے ہمارے ہاں دریائے سندھ میں شدید طغیانی اور سیلابی ریلے آتے ہیں جو پنجاب کے کئی شہروں کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی تباہی پھیلاتے ہیں۔ دو ہزار دس کا سیلاب ذہن میں رکھیں۔ تب یہ سوال اٹھایا جاتا تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو وہ کئی ملین ایکڑ فٹ پانی روک کر سیلاب کی شدت بہت کم کر دیتا اور یوں اتنی تباہی نہ ہوتی۔
یہ سوال اور بحث سابق سیلابوں میں تو ٹھیک تھی، مگر حالیہ بحران میں دریائے سندھ کا کوئی کردار ہی نہیں۔ اس لیے کالاباغ ڈیم بنا ہوتا یا نہ ہوتا، اس سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ پنجاب میں جن دریاوں (چناب، راوی، ستلج)نے تباہی پھیلائی ہے یا مزید کا خطرہ ہے، کالاباغ ڈیم ان کے روٹ ہی میں نہیں۔ اس لیے کالاباغ ڈیم ہوتا تب بھی ہم اس تباہی سے نہ بچ سکتے۔
ایسے سیلاب روکنے کے لیے کیا بڑے ڈیم بن سکتے ہیں؟
بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ ڈیم کوئی کنواں نہیں کہ جہاں جی چاہا ہم نے کھود لیا۔ ڈیم کے لیے مخصوص جغرافیائی پوزیشن، خاص قسم کی زمین، مٹی اور جھیل کے لیے خاص انداز کی جگہ چاہیے ہوتی ہے۔ پانی سٹور کرنے کے لیے پہاڑ یا سخت چٹانیں ہوں اور پیچھے اتنی جگہ کہ جھیل بن سکے۔ یہ تینوں دریا جس روٹ سے گزرتے ہیں ، وہ سب میدانی علاقے ہیں اور وہاں پر بڑے ڈیم نہیں بن سکتے۔ چناب کے راستے میں ہم صرف چنیوٹ پر ایک ڈیم بنا سکتے ہیں جو مڈ لیول ہوگا یعنی اس کی سٹوریج کی حد کچھ زیادہ نہیں ہوگی، جبکہ باقی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں بڑا ڈیم بن سکے۔
ویسے ہم پنجاب میں دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم اور دریائے سواں پر سواں ڈیم بنا سکتے ہیں، مگر ان دونوں بڑے منصوبوں پر بعض اعتراضات ہیں اور کالاباغ ڈیم تو بہت ہی متنازع ہوچکا ہے۔
ان سیلابوں کے تدارک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پنجاب میں زیادہ مناسب حل چھوٹے اور درمیانے ڈیم، چیک ڈیم، فلڈ اسٹوریج بیسن اور بیراج اپ گریڈیشن ہے۔ پوٹھوہار میں چھوٹے ڈیم پچھلے چند برس میں بنے ہیں، وہاں دو اڑھائی سو مزید چھوٹے ڈیمز بن سکتے ہیں۔
بیراج انگریزوں نے پنجاب کے حساب سے بنائے تھے۔ ان میں اپ گریڈیشن بھی ہوتی رہی ہے، جیسے خانکی بیراج اور بعض دیگر میں پچھلے چند برسوں کے اندر اپ گریڈیشن نہ ہوئی ہوتی تو حالیہ سیلاب میں یہ اڑ جانے تھے۔ قادرآباد بیراج میں دو دن قبل تاریخی ریلا گزرا ہے جو ہمارے ماہرین کی محنت شاقہ اور مسلسل دیکھ بھال سے ممکن ہوپایا۔
پنجاب میں نئے بیراج بنانے کا بھی سوچا جا سکتا ہے اور موجودہ بیراجوں کی مزید اپ گریڈیشن پر بھی فوکس کرنا چاہیے ۔ بعض اوقات پچاس ہزار یا ایک لاکھ کیوسک کی گنجائش بڑھا لینے سے بیراج آنے والے کسی سیلابی ریلے سے محفوظ رہ جاتا ہے۔ دریائے چناب اور جہلم کے درمیانی علاقوں میں فلڈ اسٹوریج بیسن بن سکتے ہیں۔ ڈی جی خان میں رودکوہی سے بچنے کے لیے ان پر چیک ڈیم اور فلڈ پروٹیکشن ڈھانچے بنائے جا سکتے ہیں تاکہ رودکوہی کے ریلے سیلابی ریلے میدانی علاقوں کو تباہ نہ کریں۔
چیک ڈیم ایک چھوٹا سا بند (چھوٹی دیوار) ہوتا ہے جو کسی ندی، نالے یا برساتی پانی کے راستے پر بنایا جاتا ہے۔ مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بہت زیادہ پانی جمع کیا جائے (جیسے تربیلا یا منگلا میں)، بلکہ یہ کہ: پانی کے بہاؤ کی رفتار کم ہو، پانی زمین میں جذب ہو کر زیرِ زمین پانی (aquifer) کو ریچارج کرے، قریبی کھیتوں کو تھوڑا بہت آبپاشی کا پانی مل سکے، مٹی کا کٹاؤ (erosion) کم ہو۔ اس کی بلندی چند میٹر بھی ہوسکتی ہے اور یہ چند لاکھ میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ہمارے دوست اور آبی ماہر انجینئر ظفر اقبال وٹو مسلسل سوشل میڈیا پر ان ایشوز کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہروں میں واٹر ریچارج کرنے کی شدید ضرورت ہے جبکہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے فلڈ چینل بنانا ہوں گے، ستلج کا فلڈ واٹر چولستان اور سندھ کا فلڈ واٹر صحرائے تھل میں جا سکتا ہے تاکہ تباہی نہ ہو۔
اگلے چند دنوں میں خطرہ مزید بڑھے گا؟
اللہ خیر رکھےگا، مگر خدشات تو کئی ہیں۔ یہ تحریر لکھتے وقت تو ہیڈ تریموں کو بھی چیلنج درپیش ہے، آگے جنوبی پنجاب پر بھی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ دراصل ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ راوی، چناب، ستلج اکھٹے ہو کر جب ہیڈ پنجند پہنچیں گے تو کہیں ریلا پنجند کی کیپیسٹی سے بڑھ نہ جائے۔
خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سندھ کے کیچمنٹ ایریا میں شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے اور سندھ کا پانی بڑھ جائے۔ تربیلا ڈیم فل ہوچکا ہے تو اب وہاں سے پانی ریلیز ہی کرنا پڑے گا۔ یوں بحران کی شدت بڑھ سکتی ہے۔ چناب، ستلج یا راوی میں پہلے سے ہی فلڈ چل رہا ہو اور ساتھ ہی انڈس میں بھی فلڈ آ جائے تو یہ لہریں نیچے جا کے پنجند بیراج اور پھر کوٹری کے قریب آ کر کمبائنڈ فلڈ بنا سکتی ہیں۔
سندھ کے لیے براہِ راست خطرے کے پوائنٹس
گڈو بیراج : سب سے پہلے دباؤ یہاں پڑتا ہے۔
سکھر بیراج : اگر بہت زیادہ ریلا آئے تو یہاں کے پرانے اسٹرکچر پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
کوٹری بیراج : یہاں پہنچ کر فلڈ کا رخ براہِ راست حیدرآباد، ٹھٹھہ اور بدین کی طرف ہو جاتا ہے، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ سندھ کی اصل کمزوری یہ ہے کہ اس کے بند اور ڈیلٹا پہلے ہی کمزور ہیں، اس لیے بڑی فلڈ ویو زیادہ نقصان کر سکتی ہے۔ اس لیے ڈاون سٹریم پر کڑی نظر رکھنے اور ماہرین کو ہمہ وقت مستعد رہنے کی ضرورت ہوگی۔ اللہ خیر فرمائے، آمین۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
پنجاب میں سیلاب راوی۔ ستلج سندھ عامر خاکوانی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب میں سیلاب راوی ستلج پنجاب میں سیلاب دریائے سندھ میں راوی اور ستلج سیلابی ریلے ہماچل پردیش کالاباغ ڈیم اپ گریڈیشن سکتے ہیں پنجاب کے بھارت نے پانی جمع میں بھی بن سکتے یہ سوال کا پانی بڑا ڈیم جاتا ہے ہیں اور ڈیم بنا سندھ کے سکتا ہے سندھ کا کے پانی جمع ہو آتا ہے کے لیے ڈیم بن اس لیے ہے اور میں ہے
پڑھیں:
ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
اس وقت ایک اور خطرہ ڈنگی وائرس بھی پھیل چکا ہے۔ محکمہ صحت کی نااہلی، بلدیاتی اداروں کی غفلت اور عوامی بے حسی نے اس خطرے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ شہر کے گلی کوچے، اسکول، اسپتال، حتیٰ کہ گھروں کے صحن تک مچھروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
رواں سال صوبے بھر میں ملیریا کے 1 لاکھ 92 ہزار 571 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے صرف کراچی میں 2 ہزار 736 کیسز سامنے آئے۔ اسی دوران سندھ میں ڈنگی کے 698 تصدیق شدہ مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 524 کا تعلق کراچی سے ہے اور ایک مریض جان کی بازی ہار چکا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں کراچی میں ڈنگی کے 30، حیدرآباد میں 11 اور تھرپارکر میں 10 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ محض چند علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔
ڈنگی مریضوں کی تعداد میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کی حاضری کم ہو رہی ہے، کلاس رومز میں خوف کا ماحول ہے، والدین اپنے بچوں کو بھیجنے سے گریزاں ہیں۔
بارشوں کے بعد صفائی کے ناقص انتظامات، نالیوں کا بند ہونا،کچرے کے ڈھیر اور مچھروں کی افزائش نے حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ نجی و سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ایمرجنسی وارڈز بھرچکے ہیں اور ڈنگی کے مریضوں کے لیے بسترکم پڑگئے ہیں۔
مچھر مار اسپرے کی مہم محض کاغذوں تک محدود ہے، نہ کوئی مربوط حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی نگرانی۔ شہری علاقوں میں تو صورتحال ابتر ہے ہی دیہی علاقوں میں تو لوگ محض گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
ڈنگی بخار کی ابتدا ایک خاص قسم کے مچھر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti) کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر عام طور پر دن کے اوقات میں کاٹتا ہے اور صاف پانی میں افزائش پاتا ہے۔ یعنی وہ پانی جو گھروں کے گملوں، ٹینکیوں، ٹائروں،کولروں یا چھتوں پر جمع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں غفلت کی ابتدا ہوتی ہے۔
شہری انتظامیہ صفائی کے دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر نہ کوئی نکاسیِ آب کا نظام فعال ہے اور نہ ہی مچھر مار ادویات کا اسپرے باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ ڈنگی بخارکی علامات میں اچانک تیز بخار، شدید جسمانی درد، جوڑوں میں اکڑاؤ، آنکھوں کے پیچھے درد، جلد پر سرخ دھبے اورکمزوری شامل ہیں۔ بعض کیسز میں خون کے خلیے کم ہونے لگتے ہیں، جسے ڈنگی ہیمرجک فیورکہا جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
اسپتالوں میں ایسے درجنوں مریض زیرِ علاج ہیں جنھیں پلیٹ لیٹس کی فوری فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مگر خون کے عطیات کی کمی ایک الگ المیہ بن چکی ہے۔ ڈنگی سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں صفائی کو اولین ترجیح دی جائے۔
کسی بھی برتن،گملے یا ٹینکی میں پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے۔ بچوں کو پوری آستین کے کپڑے پہنائے جائیں، مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور جسم پر مچھر بھگانیوالا لوشن لگایا جائے۔ شہری حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کروانا چاہیے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بارش کا پانی اب تک جمع ہے۔ڈنگی کا علاج عام طور پر علامات کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔
مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام اور پانی کی وافر مقدار دی جاتی ہے تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ بخارکم کرنے کے لیے پیراسیٹامول کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اسپرین یا بروفن جیسی دوائیں ہرگز نہیں دینی چاہئیں،کیونکہ یہ خون پتلا کرتی ہیں اور خون بہنے کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں، اگر پلیٹ لیٹس بہت کم ہو جائیں تو ڈاکٹر کے مشورے سے اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے۔
ڈنگی کے مریض کی خوراک میں ہلکی، توانائی بخش اور وٹامن سی سے بھرپور غذائیں شامل ہونی چاہئیں جیسے کہ پھلوں کے جوس، ناریل پانی، سوپ، پپیتا، سیب اورکیلا۔ مریض کو کیفین والے مشروبات، چکنائی والی اشیاء اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیزکرنی چاہیے۔
پپیتے کے پتوں کا رس کچھ تحقیقات کے مطابق پلیٹ لیٹس بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا ہے، تاہم اس کا استعمال صرف ڈاکٹر کی مشاورت سے کرنا چاہیے۔ ڈنگی بخارکے پھیلاؤ کی اصل وجوہات میں شہری حکومت کی نااہلی، صفائی کے ناقص انتظامات، مچھرمار مہمات کا غیر سنجیدہ رویہ اور عوامی غفلت شامل ہیں۔
شہریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ ڈنگی محض ایک عام بخار ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وائرس جسم کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے اور وقت پر علاج نہ ہونے کی صورت میں موت کا باعث بن سکتا ہے۔
تشخیص کے لیے خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جیسے ڈنگی کی تشخیص کے لیے طبی ماہرین دو بنیادی ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ پہلا NS1 Antigen Test ہے، جو بخارکے آغاز کے ابتدائی پانچ دنوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ وائرس کے اینٹی جن کی موجودگی کو براہِ راست ظاہرکرتا ہے، لہٰذا اس سے ڈنگی کی فوری شناخت ممکن ہوتی ہے۔
دوسرا IgM Antibody Test ہے، جو عام طور پر بخار کے پانچ سے سات دن بعد مؤثر ہوتا ہے،کیونکہ اس وقت جسم وائرس کے خلاف مدافعتی ردِعمل میں IgM اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں ٹیسٹوں کے ذریعے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ مریض حالیہ انفیکشن میں مبتلا ہے یا بیماری کا عمل پرانا ہے۔
بعض اوقات IgG Antibody Test بھی کیا جاتا ہے جو سابقہ یا بار بار ہونیوالے ڈنگی انفیکشن کی نشاندہی کرتا ہے۔ درست تشخیص کے لیے مریض کو صرف مستند لیبارٹریز سے ہی ٹیسٹ کرانے چاہییں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے۔
مگر حیدرآباد کے کئی اسپتالوں میں یہ سہولت موجود نہیں، جس کے باعث مریض یا تو کراچی جانے پر مجبور ہیں یا نجی لیبارٹریوں میں مہنگے داموں ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اس صورتحال نے عام شہریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ سندھ اور محکمہ صحت محض اعداد و شمار جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ مچھر مار مہم کو مؤثر اور شفاف بنایا جائے، صفائی کا نظام فعال کیا جائے، نالیوں اورکچرے کے ڈھیروں کی فوری صفائی کی جائے۔
اسپتالوں میں ڈنگی کے لیے خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں، ٹیسٹوں کی قیمت کم کی جائے اور اسکولوں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ بچے، اساتذہ اور والدین حفاظتی تدابیر اختیارکریں۔
عوام کو بھی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ گھروں میں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے، مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جائیں اور اگرکسی کو بخار ہو تو فوراً ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ وائرس مزید نہ پھیلے۔
ڈنگی ایک خطرناک مگر قابلِ تدارک بیماری ہے، اگر بروقت صفائی،آگاہی اور علاج کی سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ وائرس چند ہفتوں میں قابو میں آسکتا ہے، لیکن اگر حکومت کی بے حسی اور عوام کی غفلت جاری رہی تو آنیوالے دنوں میں یہ وبا مزید شدت اختیارکرسکتی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ حیدرآباد کراچی سمیت پورے سندھ میں ہنگامی بنیادوں پر مچھر مار مہم، اسپتالوں میں معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنایا جائے اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس وبا کا راستہ روکا جائے تاکہ شہریوں کی قیمتی جانیں محفوظ رہ سکیں، اگر یہ مربوط اور عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو حیدرآباد کراچی اور سندھ کے دیگر شہر ایک طویل وبائی دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے، اسکولوں میں حاضری مزید کم ہو گی اور شہری خوف و بے بسی کے عالم میں روزمرہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ صفائی اور سیوریج کی خرابی سے صرف ڈنگی نہیں بلکہ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیضہ جیسی بیماریاں بھی جنم لیں گی۔
گلیوں میں گندے پانی کی بدبو، مچھروں کی بھرمار اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت ایک ایسے بحران کو جنم دے گی جس پر بعد میں قابو پانا ممکن نہیں رہے گا، محکمہ تعلیم نے طلبہ میں شعور بیدار نہیں کیا تو اسکولوں اورکالجوں میں ڈنگی وائرس میں مزید اضافہ ہوگا، اگر بلدیہ نے صفائی اور نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر نہ بنایا تو شہرکا ہر محلہ مچھروں کی افزائش گاہ بن جائے گا اور اگر عوام نے اپنے گھروں، چھتوں اور صحنوں میں احتیاط نہ کی تو یہ وائرس گھر گھر پہنچ جائے گا۔
ڈنگی وائرس کے متعلق خصوصی پروگرامز نشرکیے جائیں، فلاحی تنظیمیں شہر میں اہم شاہراہوں پر امدادی کیمپ قائم کریں اور عوام کو طبی سہولیات فراہم کریں۔ حکومتی نمایندے ہنگامی بنیادوں پر اس وباء پر قابو پانے ؐثٌٰٔ بھرپور اقدامات کریں، اگر اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو یہ وباء صرف جسموں کو نہیں بلکہ معیشت، تعلیم اور سماجی زندگی کو بھی مفلوج کر دے گی۔ شہری حکومت پر اعتماد کھو بیٹھیں گے، اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا اور خوف و بد اعتمادی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔