ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ،چین کا امریکا اور روس کے ساتھ بیٹھنے سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
چین نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق امریکا اور روس کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں شریک ہونے کی تجویز کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی تھی کہ چین کو بھی ایٹمی تخفیفِ اسلحہ سے متعلق مذاکرات میں شامل کیا جائے، مگر بیجنگ نے اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکا اور روس کا حصہ سب سے زیادہ ہے، اور انہی پر عالمی سطح پر تخفیف اسلحہ کی اصل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چین اپنی ایٹمی صلاحیت کو محض قومی دفاع کے لیے ضروری حد تک محدود رکھتا ہے اور کسی قسم کی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں۔
ادھر شمالی کوریا نے بھی جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ کے امریکا میں دیے گئے بیان پر شدید ردِعمل دیا ہے۔ شمالی کوریا نے صدر کو “منافق” قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ کبھی بھی اپنے ایٹمی ہتھیار ترک نہیں کرے گا کیونکہ یہ ان کی ریاستی خودمختاری اور وقار کی علامت ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے دو ممالک امریکا اور روس ہیں۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق، امریکا کے پاس تقریباً 3,700 اور روس کے پاس 4,300 سے زائد ایٹمی وارہیڈز ہیں، جبکہ چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد تقریباً 500 کے قریب بتائی جاتی ہے۔
چین کا مؤقف عالمی سطح پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایٹمی تخفیفِ اسلحہ کی اصل ذمہ داری بڑی طاقتوں پر ہے، جو خود سب سے زیادہ ہتھیار رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایٹمی ہتھیاروں امریکا اور روس
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔