بی لنچ ٹانکہ، اسلم ٹانکہ ہو سکتا تھا
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
ابھی اسپتال کے راستے میں ہی تھے کہ کال آئی؛ ابھی ابھی ایمرجنسی میں مریضہ آئی ہے، ویجائنا سے خون کا اخراج بہت زیادہ ہے۔ سیزیرین 3 ہفتے پہلے ہوا تھا، جڑواں بچے تھے، ساتویں مہینے میں درد شروع ہوا تھا سو سیزیرین کرنا پڑا۔ دونوں بچے ابھی تک نرسری میں ہیں۔ وقت سے پہلے زچگی کے علاوہ سیزیرین میں کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی تھی۔
ہم خون روکنے کی کاک ٹیل استعمال کرچکے ہیں مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ ہمارے پوچھنے سے پہلے ہی سنیوں نے بتایا۔
کیا ویجائنا کا معائنہ کیا؟ کوئی زخم؟ بچے دانی کے منہ پہ کوئی زخم؟ ہمارا سوال۔
جی دیکھنے کی کوشش تو کی تھی مگر بلیڈنگ بہت زیادہ ہے، مریضہ کا بلڈ پریشر بھی گر رہا ہے۔
ہم پہنچتے ہیں، آپ فوراً خون لگا کر آپریشن تھیٹر منتقل کریں۔
اجازت پہ آپریشن کا کیا نام لکھیں؟
EUA, Laparotomy and proceed.
تیزی سے گاڑی دوڑائی اور ہانپتے کانپتے آپریشن تھیٹر میں جا گھسے۔ مریضہ میز پہ لیٹی تھی۔ دونوں ہاتھوں میں خون کی بوتلیں لگی تھیں پھر بھی مریضہ کی رنگت اس قدر پیلی نیلی تھی کہ مردے کا گماں ہوتا تھا۔
ہم نے مریضہ کے اوپر پڑی چادر اٹھا کر دیکھا، ویجائنا سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ پیٹ پہ ہاتھ رکھا تو ڈھیلی سی بچے دانی محسوس ہوئی۔
ہم پیٹ کھولنے جا رہے ہیں، بے ہوشی شروع کریں۔ ہم نے اعلان کیا۔
کیا آپ پہلے بچے دانی کی صفائی نہیں کریں گی جیسے پچھلی بار کیا تھا؟ ہماری کولیگ ڈاکٹر نے سوال کیا۔
اس سوال کا جواب آپریشن کے بعد دیاجائے گا، ہم نے کہا۔
پیٹ کھول کر جب بچے دانی کو ہم نے ہاتھ میں کیا تو ایسا لگا جیسے کوئی گلی سڑی باسی چیز ہو۔
ایک چھوٹاسا سوراخ بنا کر ہم نے بچے دانی کے اندرونی حصے کی صفائی کی اور پھر اس کے مختلف حصوں کو ٹانکے لگانے شروع کیے۔ یہ ٹانکے بچے دانی کی مدد کے لیے لگائے جاتے ہیں ۔
انیس سو ستانوے میں پروفیسر بی لنچ نے برٹش گائنی جرنل میں ان ٹانکوں کی تکنیک لکھی جن سے بیمار بچے دانی کو سکڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بچے پیدا ہونے کے کچھ دنوں بعد خارج ہونے والا خون سیکنڈری پی پی ایچ کہلاتا ہے اور یہ زیادہ تر انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بیمار بچے دانی نحیف و ضعیف ہو کر اپنے آپ کو سکیڑ نہیں سکتی اور یوں خون نہیں رکتا۔
میڈیکل سائنس نے ایسے دھاگے بنا لیے ہیں جنہیں اگر جسم کے اندر لگایا جائے تو کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پروفیسر حضرات مختلف بیماریوں کے متعلق تجربے کرتے رہتے ہیں اور جب کوئی تجربہ کافی مریضوں پہ کامیاب ہوتا نظر آئے تو اسے میڈیکل جرنل میں چھپوا دیتے ہیں۔
اپنی کسی بھی تحقیق کے متعلق لکھ کر سب سے پہلے چھپوانے کا انعام یہ ملتا ہے کہ وہ تحقیق یا دریافت ان پروفیسر کے نام ہو جاتی ہے۔ جیسے ان ٹانکوں کو اب دنیا بھر میں بی لنچ ٹانکہ پکارا جاتا ہے۔
ہمارے استاد پروفیسر اسلم کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اسی کی دہائی میں بہت سے مریضوں میں ان ٹانکوں کا تجربہ کیا مگر وطن عزیز میں ڈیٹا اکھٹا کرنا اور اسے بین الاقوامی طور پہ رپورٹ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایک اور پروفیسر صاحب نے بی لنچ ٹانکے میں معمولی تبدیلی کے بعد اسے اپنے نام سے متعارف کروایا۔ اس ٹانکے کو ہے مین ٹانکہ کہا جاتا ہے۔ بی لنچ اور ہے مین دونوں ہمارے پسندیدہ ہیں اور ہم انہیں لگانے میں کبھی تاخیر سے کام نہیں لیتے۔ پی پی ایچ کا بہترین علاج وہی ہے جو فوراً کیا جائے۔
آپریشن ختم ہو گیا تھا مگر ہمارے جونئیر ہم سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کچھ مہینے پہلے سیکنڈری ہی پی ایچ میں آنے والی مریضہ کی بچے دانی کی صفائی ہم نے ویجائنا کے راستے کی تھی اور پھر مین ٹانکہ لگایا تھا۔ لیکن اس مریضہ کی صفائی ہم نے بچے دانی میں ایک چھوٹا سا سوراخ بنا کر کیا تھا۔ کیوں؟ ایک جیسے مریض، ایک جیسی بیماری، پھر علاج مختلف کیوں؟
اب وقت تھا کہ ہم ان کے تجسس کی آگ بجھاتے ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو پچھلی مریضہ کی نارمل ڈلیوری ہوئی تھی اور اس مریضہ کا سیزیرین جس کا زخم ابھی کچا ہے، یعنی اچھی طرح نہیں بھرا۔ ویجائنا کے راستے صفائی کرنے پہ اوزار بچے دانی میں داخل ہو کر سیزیرین کے زخم کو نقصان پہنا سکتا تھا، اور یہ بھی یاد رکھو کہ بچے دانی پہلے ہی کمزور حالت میں تھی۔ اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
جس طرح درزی ہر کسی کا لباس اس کے جسم کے مطابق بناتا ہےگرچہ اس میں بنیادی کام ایک سا ہوتا ہے (تیرہ، کندھے، چاک، گلا)۔ بالکل اسی طرح ہر بیماری کے علاج کے بنیادی اصول یکساں ہیں مگر کس مریض میں کیا، کیسے؟ وہ مریض کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ جیسے بچے دانی کی صفائی بنیادی بات ہے مگر راستہ کونسا اختیار کیا جائے، اس کو مریضہ کی صحت کی صورتحال کے مطابق ہی چننا چاہیے۔
مریضہ کو 4 بوتلیں سرخ خون اور 4 ہی سفید خون کی چڑھائی گئی تھیں۔ مریضہ بہت بہتر تھی مگر ابھی کچھ اور کام تھا جو باقی تھا۔
وہ بتائیں گے ہم آپ کو آئندہ!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلیڈنگ بی لنچ ٹانکہ بچے دانی کی مریضہ کی کی صفائی
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)