ایف بی آر نے کویتی سفارتکار کو ’نان فائلر‘ قرار دے کر ٹیکس کٹوتی کردی
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
پاکستان میں ٹیکس استثنیٰ کے باوجود ایک کویتی سفارتکار نے وفاقی ٹیکس محتسب سے شکایت کی ہے کہ انہیں نان فائلر قرار دے کر انکم ٹیکس کی کٹوتی کی گئی۔ جس پر وفاقی ٹیکس محتسب نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو حکم دیا کہ واجب الادا ٹیکس کی رقم 20 دن کے اندر واپس کی جائے اور 30 دن کے اندر اس کی تکمیل کی رپورٹ پیش کی جائے۔
وفاقی ٹیکس محتسب نے مشاہدہ کیا کہ اسی نوعیت کا ایک کیس برازیل کے سفیر کے حوالے سے بھی پہلے ہی حل ہو چکا ہے، جہاں آرڈیننس کی دفعہ 231A کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کی رقم ریجنل ٹیکس پیئر آفس اسلام آباد نے واپس کردی تھی کیونکہ سفیر کی پاکستان میں کوئی قابلِ ٹیکس آمدنی نہیں تھی۔ موجودہ کیس میں بھی ٹیکس کی کٹوتی قانون کے خلاف ہوئی، جو بدانتظامی کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملازمین کی تنخواہ سے کتنی ٹیکس کٹوتی کی جارہی ہے؟ تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش
شکایت کنندہ نے ایف ٹی او کو بتایا کہ وہ اسلام آباد میں کویت کے سفارت خانے میں بطور کونسلر برائے ریاست کویت تعینات ہیں اور ان کی آمدنی ان کے ملک سے ہے۔ پاکستان میں ان کی کوئی آمدنی نہیں ہے، لہذا نہ وہ ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی انکم ٹیکس کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قانون کے تحت سفارت خانہ پاکستان کی حدود سے مستثنیٰ ہے۔
ریجنل ٹیکس پیئر آفس اسلام آباد نے تحریری جواب میں کہاکہ شکایت کنندہ ایک کیریئر سفارتکار ہیں اور انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 42 کے تحت معافی حاصل ہے، اس لیے رجسٹریشن اور ریٹرن فائل کرنا ضروری نہیں۔
مزید کہا گیا کہ سفارتی کیٹیگری کو قانون سازوں نے جان بوجھ کر معاف شدہ فہرست سے خارج نہیں کیا اور جب تک معافی کا اعلان اور دستاویزی ثبوت نہ ہو، ٹیکس بذاتِ خود لاگو ہو سکتے ہیں۔
محکمہ نے مزید کہاکہ سفارتکار کو متعلقہ ود ہولڈنگ سیکشنز سے معافی کے لیے درخواست دینی چاہیے اور اس کے ساتھ وزارت خارجہ یا متعلقہ سفارت خانے کے خطوط فراہم کرنے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے ٹیکس کے نفاد کے بعدکوریئر کمپنیوں نے ڈیلیوری چارجز کتنے فیصد بڑھا دیے؟
ایف بی آر نے ہدایت دی کہ مستقبل میں تمام سفارتکاروں کے لیے ایسے ٹیکسز کی کٹوتی نہ کی جائے اور پہلے سے کٹی ہوئی رقم واپس کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایف بی آر رقم واپس کرنے کا حکم کویتی سفارتکار نان فائلر قرار وفاقی ٹیکس محتسب وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایف بی ا ر رقم واپس کرنے کا حکم نان فائلر قرار وفاقی ٹیکس محتسب وی نیوز وفاقی ٹیکس محتسب ایف بی ا ر ٹیکس کی کی جائے کے لیے
پڑھیں:
شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔