Express News:
2025-09-17@21:43:21 GMT

آبی جارحیت؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

سچ پوچھئے ‘ تو اب ذہن میں صرف سوالات ہی سوالات ہیں۔ ہر طرح بلکہ ہر نوعیت کے بد رنگے، کڑوے سوال۔ گزشتہ چند دہائیوں سے طاقتور طبقہ نے زبردستی ملک کو جو کچھ بنا ڈالا ہے‘ اس صورت حال میں‘ اب تو کسی لکھی‘ ان لکھی بات کا جواب بھی نہیں چاہیے، ضرورت ہی نہیں رہی۔

اگر صرف حقیقت جاننے کی معمولی سی خواہش‘ آپ کی زندگی ‘ شخصیت یا مستقبل پر سرخ نشان لگانے کا سبب بن جائے، تو پھر کون سا سچ اور کون سا جھوٹ؟ سب کچھ ٹھیک ہے بلکہ اتنا درست ہے کہ دم گھٹتا چلا جا رہا ہے ۔ کافی عرصہ پہلے گزارش کر چکا ہوں کہ ملکی ٹی وی چینل بالکل نہیں دیکھتا۔ اکثریت کے غیر معیاری ہونے پر دو رائے نہیں۔ سیاست اور لفظی جگالی اب میڈیا کی عادت بن چکی ہے۔ بے مقصد سی لا حاصل گفتگو‘ اب واقعی برداشت کرنا مشکل ہو چکاہے۔ ہاں! سوشل میڈیا پر بہرحال نظر ڈال لیتا ہوں۔

آج کل ہر طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کا ماتم ہو رہا ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے، کیا مون سون کی بارشیں اچانک ہو گئیں۔ نہیں صاحب بالکل نہیں، موسمیات کے تمام ماہرین‘ عرصے سے ہر ایک کو آگاہ کر رہے تھے، اس بار غیرمعمولی بارشیں ہوں گی۔ اس کا منطقی نتیجہ صرف اور صرف مہیب سیلاب ہوں گے۔

ہندوستان نے تو خیر کافی تیاری کر لی، لیکن کیا ہمارے ملک کے غیر سنجیدہ حکمرانوں اور ان کے طبلچیوں نے میڈیا پر آ کر‘ قوم کو اعتماد میں لیا‘ کہ قیامت صغریٰ برپا ہونے والی ہے؟ قطعاً نہیں۔ کیا ملک کی نوکر شاہی نے اپنے تئیں بھرپور تیاری کر لی کہ تباہ کن سیلاب کے دوران انسانی ہلاکتوں کو کیسے کم سے کم کیا جائے؟ دونوں جگہ‘ ایسا رویہ دیکھنے کو ملا‘ جسے کم سے کم منفی الفاظ میں ’’ادنیٰ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ ’’ وزیر اعظم کا حالیہ بیان کہ آبی ذخائر بنانے میں صوبوں میں مشاورت کا عمل اب ضروری ہے‘‘۔

شاید معاملات کی سنگینی کی ترجمانی نہیں کرتا۔ آپ تو اس ملک کے حکمران ہیں۔ سرکاری مشینری آپ کے ماتحت ہے، پھر اتنی تاخیر کیوں؟ کیا سیلابی علاقوں کا فضائی دورہ‘ زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر نہیں؟ مگر صاحب! کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ مگر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ حکومت اور سرکاری اداروں نے کمال حفاظتی انتظامات کیے ہیں اور آج بھی سیلاب میں ڈوبی ہوئی بدقسمت قوم کی خدمت جاری و ساری ہے؟ اس وجہ سے اب پوچھنا عجیب سا لگتا ہے۔ کہ اس مہیب صورت حال سے نپٹنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی؟ خیر دو چار لفظ لکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پڑھنے کی نوبت اور پھر عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عرض کرتا چلوں کیا اس قیامت خیز آفت کا ملک کے بالائی طبقے پر کوئی اثر پڑا ہے؟ بالکل نہیں۔ کچھ دن پہلے لندن سے ایک تاریخ دان آئے ہوئے تھے۔ ان کے اعزاز میں لاہور کے ایک بہترین سماجی کلب میں ایک مختصر سی دعوت تھی۔ ہال میں ہم فقط چار پانچ افراد تھے جو اس تقریب میں شامل تھے۔ مگر پورا ہال جس میں سو کے قریب افراد کے کھانے کا معمول کا اہتمام تھا۔ کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ میک اپ میں لتھڑی ہوئی خواتین ‘ ہر عمر کے بچے‘ مرد ‘ بوڑھے ۔ ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ بتاتا چلوں کہ ان کا ہماری تقریب سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

بوفے میں ستر کھانے لگے ہوئے تھے۔ پاکستانی‘ چائنز‘ اٹالین ‘ تھائی‘ کونٹی نینٹل‘ جنھیں شمار کرنا تک مشکل تھا۔ اکثر افراد حد درجے بدتہذیبی سے بوفے کی ٹیبل سے کھانے لے کر وہیں طعام شروع کر بیٹھے تھے۔ روایت کے مطابق‘ میوزک بینڈ بھی موجود تھا۔ جہاں چند گائیک‘ خاصے غیر مناسب طریقے سے اچھے گانوں کا اپنی آواز سے تیا پانچا کرنے میں مصروف تھے۔ ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس ملک میں کوئی قدرتی آفت صدیوں سے نازل ہی نہیں ہوئی۔ دل چاہتا تھا کہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بتاؤں کہ جناب‘ یہ رنگ رلیاں تو دہائیوں سے چل رہی ہیں۔

کلب سے صرف پندرہ میل دوری پر دریائے راوی قیامت برپا کر چکا ہے۔ لوگ دربدر ہو چکے ہیں۔ مگر شاید‘ میری آواز کو سننے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوتا۔ دو گھنٹے بعد غیر ملکی مہمانوں کے ہمراہ باہر آیا تو ان کا ایک ہی سوال تھا،کیا واقعی آپ کے ملک میں پانی بربادی برپا کر چکا ہے؟اگر یہ سچ ہے؟ تو پھر شہر کے یہ لوگ اتنے بے حس کیوں ہیں‘ کہ انھیں کھانے اور خوشی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا؟ میرے پاس اس مشکل سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے تو ایسے لگا کہ لوگ خوش ہو کر وارفتگی سے کہنا چاہ رہے ہیں۔ سیلاب مبارک؟ پانی مبارک؟

سامنے کی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی ایک بھیانک واردات کے بعد‘ ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ لفظوں کا ہیر پھر ہے۔ انھوں نے اسے مکمل طور پر غیر مؤثر کر ڈالا مگر اس شدید ناانصافی کے جواب میں ‘ پاکستان کی حکومت نے کیا اقدام اٹھائے؟ چند لکھے لکھائے بیانات اور محدود سا ناتواں احتجاج ‘ اس کے علاوہ کیا ہوا۔ کیا یہ لازم نہیں تھا کہ کسی بڑے طاقتور فریق کو شامل کر کے ہندوستان سے صرف اور صرف سندھ طاس معاہدے کی بحالی پر دلیل سے مذاکرات کیے جاتے ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اول تو کوئی بھی کامیاب ملک‘ ہمارے تنازعات کو گود لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اگر آج امریکا‘ اپنے فائدے کے لیے ہندوستان سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔ تو اس سے ہمارا کوئی مفاد حل نہیں ہو گا۔ امریکی قیادت ‘ صرف اور صرف اپنے ملکی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے جیسے ملک ان کے مفادات کی حفاظت کرتے کرتے اپنی سالمیت تک کھو دیتے ہیں۔ ہنری کسنجر کی یہ بات بالکل درست ہے۔ کہ ’’امریکا کی دشمنی خطرناک ہے۔ مگر اس کی دوستی اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے‘‘۔یہ بات ہمیں کبھی بھی سمجھ نہیں آتی۔ بات سندھ طاس معاہدے کی ہو رہی تھی۔ بامقصد مذاکرات کے بجائے‘ ہمارے چند فارغ العقل افراد نے یہاں تک فرمایا کہ اگر ہندوستان نے ہمارے حصے کا پانی روکا‘ تو ہم اس کے آبی ذخائر اڑا ڈالیں گے۔

ان کو ادراک ہی نہیں تھا کہ چانکیہ کے فلسفہ پر کاربند ہندوستانی حکومت‘ آبی جارحیت کو ایک نئے رخ سے پیش کرے گی۔ یہی ہوا۔ ہندوستان نے بارشوں کے پانی کو حد درجہ مہارت سے اپنے ڈیمز میں ذخیرہ کیا۔ جب انھیں ان اضافی پانی کی ضرورت نہیں رہی۔ تو سفاکی سے وہ پانی‘ پنجاب کے ان تین دریاؤں میں چھوڑ دیا جن کا کنٹرول عملی طور پر انھی کے پاس ہے۔پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں‘ کہ سیٹلائٹس کی موجودگی اور ان کی مفصل طریقے سے معلومات فراہم کیے جانے کے باوجود‘ ہماری حکومت اور ادارے کیوں بے خبر رہے؟ سب کے علم میں ہے کہ ہمارے پاس ایسے ذرایع موجود ہیں کہ ہم خلا سے ہندوستان کے آبی ذخائر پر کڑی نظر رکھ سکتے تھے۔ اسپارکو کا اور کیا کام ہے؟ مگر صاحبان‘ تباہی کا تندہی سے استقبال کیا گیا۔

انتظار کیا گیا کہ ہندوستان اپنے منفی مقصد میں کامیاب ہو۔ ایسا ہی ہوا۔ پنجاب کا زرخیز ترین علاقہ‘ پانی کی قدرتی گزر گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ راوی کے اردگرد ‘ جن بااثر لوگوں کے رہائشی علاقوں اور پروجیکٹس کو بچانے کے لیے عام دیہاتوں اور علاقوں کی طرف پانی کا رخ موڑ دیا گیا۔ مگر قدرت کا انصاف دیکھیے۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ مقتدر لوگ ‘ پانی کو نہیں روک پائے۔ مکمل طور پر بے بس نظر آئے۔ ان کا مالی نقصان تو ابھی شروع ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھیے۔ راوی اپنے علاقے کا قبضہ کیسے واپس لیتا ہے؟

صاحبان! ابھی تو پانی سندھ جا رہا ہے۔ جہاںکی حکومت پر سنجیدہ سوالات ہیں ۔ جو حکومت ‘ کراچی کا کچرہ نہیں اٹھا سکی۔ اس نے سیلاب کے منہ زور پانی سے کیا لڑنا ہے۔ وہاں تو یہ سب کچھ سیاسی کھیل کا حصہ بن جائے گا۔ اندرون سندھ کی تباہ کاریوں کو پیش کر کے‘ امداد وصول کرنے کی معصوم کوشش کی جائے گی۔ پھر تمام حکومتوں کی روایت کے مطابق ‘ امداد‘ تلاش گمشدہ کا شکار ہو جائے گی۔ تمام باخبر لوگوں کومون سون کی غیر معمولی بارشوں کا مکمل علم تھا۔

لوگوں اور ان کی املاک کی حفاظت کرنے کی مہلت بھی تھی مگر سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔بلکہ اب تو یہ گمان ہوتا ہے کہ اس تباہ کاری میں چاندی ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ نئے آبی ذخائر بنانا تو دور کی بات۔ نئے ڈیمز پر ایسی ایسی حماقت انگیز گفتگو کی گئی کہ سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو گیا۔ اگر نئی نہریں واقعی بن جاتیں تو کیا چولستان سرسبز نہ ہو جاتا؟ لیکن ہر معاملہ کو کمال عیاری سے متنازعہ بنایا گیا۔ جب سب کچھ برباد ہو گیا۔ تو فضائی دوروں سے اپنے آپ کو مستعد ظاہر کرنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔مگر اب عوام کا درد اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس پر عامی مرہم کام نہیں کر سکتا۔ ہوش کے ناخن لیجیے ۔ سندھ طاس معاہدے پر ہمسایہ ملک سے سنجیدہ مذاکرات کریں۔ ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان نے نہیں تھا نہیں ہو سب کچھ رہا ہے تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے نئے سلسلے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے، اسرائیلی فوج نے رات بھر اور صبح سویرے غزہ شہر اور اطراف میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں درجنوں مکانات، رہائشی عمارتیں اور پناہ گزین کیمپ ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں اپنی زمینی کارروائی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد پورے شہر پر قبضہ کرنا بتایا جا رہا ہے،  اس وقت تقریباً 10 لاکھ فلسطینی، جو پہلے ہی غزہ کے دیگر علاقوں سے بے گھر ہو کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، شہر کے اندر محصور ہیں اور ان پر اسرائیلی حملے مسلسل جاری ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تقریباً 65 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے،  اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ طبی سامان کی شدید کمی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے خوراک، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج بمباری روکنے کو تیار نہیں۔ ادھر عینی شاہدین کے مطابق کئی علاقوں میں درجنوں خاندان مکمل طور پر مٹ گئے ہیں اور سینکڑوں لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق غزہ شہر اس وقت مکمل انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ  عالمی برادری کی خاموشی پر فلسطینی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دراصل دہشت گردی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران مجرمانہ بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کے باعث غزہ کے مظلوم عوام مسلسل ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • سیلاب
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • اسرائیل کوکٹہرے میںلانااور صہیونی جارحیت روکنے کے اقدامات نہ کئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: وزیر اعظم شہبازشریف
  • جنگی جرائم پر اسرائیل کو کوئی رعایت نہں دی جائے؛ قطراجلاس میں مسلم ممالک کا مطالبہ
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مشرق وسطیٰ اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں، ترک صدر
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر
  • گھوٹکی؛ سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے متعدد کنویں متاثر، گیس کی سپلائی بند