ایس سی او مشترکہ اعلامیے کی عالمی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کی حمایت اور پرامن ایٹمی توانائی تک مساوی رسائی پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشنز پر مکمل عمل درآمد کی حمایت کرتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیے میں جعفر ایکسپریس اور خضدار حملوں کی سخت مذمت کی گئی جب کہ فلسطین میں فوری اور پائیدار جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا۔ رکن ممالک نے ریاستوں کی خود مختاری، علاقائی سالمیت اور عدم مداخلت بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے حالیہ مشترکہ اعلامیے نے عالمی منظر نامے میں ایک نیا رنگ بھر دیا ہے۔ اس اعلامیے میں، دہشت گردی کی مذمت سے لے کر دنیا کے مالیاتی ڈھانچے میں تبدیلی کی تلاش، معاشی تعاون سے لے کر علاقائی ہم آہنگی تک سب موضوعات پر واضح اور جامع موقف اپنایا گیا ہے اور اس کے اندر چند خاص نکات نہایت قابلِ توجہ ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف عزم، اقتصادی خود مختاری کا عہد، عالمی حکمرانی کی اصلاح کی خواہش، ترقیاتی اقدامات اور علاقائی استحکام کے لیے حکمت عملی واضح چارٹر فراہم کرتے ہیں۔ اعلامیے نے عالمی حکمرانی میں اصلاحات کی ضرورت کو بھی اجاگرکیا ہے۔ چینی صدر اور روسی صدر نے مل کر ایک ایسا عالمی نظم پیش کرنے کی بات کی جو یکطرفہ اخلاقیات یا سرد جنگی سوچ سے آزاد ہو اور جنوبی عالم (Global South) کے مفادات کو ترجیح دے۔ یہ موقف SCO کو ایک ایسے عہد نامے کے طور پر پیش کرتا ہے جو عالمی سطح پر منصفانہ، شراکتی اورکثیر الطرفہ حکمرانی کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔
چین اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کو استعمال کرتے ہوئے ایک ملٹی پولر ورلڈ آرڈر بنانے کے خواہاں ہیں۔ چین اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی رکن ہیں اور تنظیم کے محرک ارکان ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ روایتی گہرے تعلقات ہیں جب کہ ماضی قریب میں پاکستان اور روس نے بھی اپنے باہمی تعلقات کو وسعت دی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے شنگھائی تعاون تنظیم کے قواعد و ضوابط میں درج اصولوں پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔
ایس سی او کا اجلاس، عالمی کھلاڑیوں کا ایک اعلیٰ سطح اجتماع تھا، جس نے علاقائی رابطوں میں پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔ اجلاس میں کیے گئے فیصلے، عالمی تجارت اور مالیات میں مغربی غلبے کوکم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا کی زیر قیادت مغربی پابندیوں کے جوابی اقدام کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ روس اور ایران، شنگھائی تعاون تنظیم کے دو ایسے رکن ملک ہیں جو مغربی ملکوں کی طرف سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا براہِ راست شکار ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے انعقاد سے جہاں ایک طرف پاکستان کے سفارتی محاذ پر تنہا ہونے کے غلط تاثر اور پروپیگنڈہ کا خاتمہ ہوا ہے، دوسری طرف ایس سی او کے رکن ملکوں کی طرف سے تنظیم کے قیام کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم رہنے اور عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں باہمی تعاون اور شراکت داری کو مزید آگے بڑھانے کا واضح پیغام دیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 24 برس قبل عمل میں آیا تھا ، آج اس تنظیم کا شمار دنیا کے اہم فورمز میں ہوتا ہے۔ ایس سی او بظاہر اب محض ایک مکالماتی فورم سے ہٹ کر خود کو باہمی تعاون کے ایک ایسے جامع پلیٹ فارم میں بدل لینا چاہتی ہے، جو ٹھوس نتائج کا ضامن ہو اور جس سے رکن ممالک کے عام شہریوں کو بھی فائدہ پہنچے، لیکن سب سے بڑا سوال اب بھی یہی ہے کہ یہ تنظیم کس طرح کیا مقصد حاصل کر سکے گی؟ قریب ڈھائی عشرے قبل جب ایس سی او کا قیام عمل میں آیا تھا، تو اس کا مقصد زیادہ تر وسطی ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا راستہ روکنا تھا۔ اس میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جو واضح طور پر امریکا کے مسلمہ مخالف یا حریف ہیں، مثلا ایران، چین، روس اور ماسکو کا قریبی اتحادی ملک بیلا روس۔ 2017ء میں اس تنظیم میں مکمل رکن ممالک کے طور پر پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کر لیا گیا تھا، جس کے بعد 2023ء میں اس میں ایران اور پھر 2024ء میں بیلاروس بھی شامل ہو گئے تھے۔
پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والی بھارتی حکومت اس بار خود ہی بے نقاب ہو گئی۔ پاکستان دشمنی میں بھارت نے نہ صرف آذربائیجان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ اپنے قریبی اتحادی آرمینیا کو بھی مشکل صورتحال سے دوچارکردیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی حالیہ سرگرمیوں کے دوران بھارت نے آذربائیجان کی مکمل رکنیت کو ویٹو کیا، جس کے نتیجے میں آرمینیا کی رکنیت بھی رک گئی۔
قبل ازیں غیر رسمی اتفاق رائے یہ تھا کہ دونوں ممالک کو بیک وقت رکن بنایا جائے گا۔سفارتی ذرایع کے مطابق اصولی طور پر آذربائیجان اور آرمینیا کو ایک ساتھ تنظیم میں شامل کیا جانا تھا، تاہم بھارت کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے کے بعد دونوں ممالک کی رکنیت موخر ہوگئی۔
SCO نے RATS یعنی علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچے کو فعال انداز میں استعمال کرنے کا عزم دہرایا اور مشترکہ مشقوں اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے اتحاد کو مزید مستحکم بنانے کی بات کی گئی ۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اعلان ایک سفارتی توازن کو ظاہر کرتا ہے، یہاں دہشت گردی کی مذمت ہموار انداز میں کی گئی ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی ایک طرف داری سے گریزکیا گیا ہے، جو اس تنظیم کے اندر پیچیدہ علاقائی کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی محتاط اقدام ہے۔
سیکیورٹی سے آگے، اشتراکِ معاشی ترقی کے شعبوں نے بھی اصل رول ادا کیا۔ اعلامیے نے SCO کے اندر مشترکہ ترقیاتی بینک کے قیام کا عندیہ دیا، اور چین نے دلچسپی ظاہرکی کہ آیندہ تین برس میں ارکان کو آزاد امداد اور قرضہ فراہم کیا جائے دو ارب یوآن کا تعاون موجودہ سال اور دس ارب یوآن آیندہ تین سالوں میں یہ اقدام SCO کو مالیاتی خود مختاری کی طرف بڑھاتا ہے، ایک چیلنج جو عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی برتری کو محدود کرنے کی کوشش ہے اور عالمی مالیاتی ڈھانچے میں متبادل پیش کرتا ہے۔
ترقیاتی ممالک کو ٹیکنالوجی تک برابری کی رسائی دینے کا وعدہ کرتا ہے، جو عالمی ٹیکنالوجی تقسیم کے خلاف ایک مضبوط جواب ہے۔ SCO نے ’سال آف سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ‘ کے عنوان سے ماحولیات، بقا، نوجوانوں کی شرکت، ہنگامی ردعمل اور صحت عامہ کے شعبوں میں کام کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم صرف سیکیورٹی یا معاشی مسائل پر نہ رکی بلکہ معاشرتی فلاح اور ماحولیاتی استحکام کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
SCO نے تجارتی تعاون، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر کو فروغ دینے کا عہد بھی دہرایا، جس میں ڈیجیٹل اکانومی، ای کامرس، انفارمیشن سیکیورٹی، ڈیٹا ایکسچینج، الیکٹرانک پیمنٹس اور ڈیجیٹل سرحد پار کاروبار شامل ہیں۔ یہ داخلی تیز رفتاری پوسٹ COVID-19، گلوبل سپلائی چین اور تجارت میں رکاوٹوں کے جواب میں اہم حربہ ہے، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو ترقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفیل بننا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اور اسٹرٹیجک تناظر میں، SCO اعلامیے نے قابلِ غور اہمیت اور توازن کو برقرار رکھا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عزم میں پہلگام، جعفر ایکسپریس اور خضدار واقعات کو یکساں سطح پر لے کر پاکستان کے دفاع کو اجاگر کیا گیا۔
اقتصادی تعاون میں SCO بینک اور چین کی مالی مدد نے پاکستان کو انفرا اسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے نئے مالی وسائل فراہم کیے ہیں، مگر اس میں چیلنجز بھی پوشیدہ ہیں۔ ایک مشترکہ بینک کی تشکیل عملی مرحلے میں پیچیدگی اور ممبر ممالک کے مفادات کے تصادم سے دوچار ہو سکتی ہے۔ AI اور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کے تعاون میں تحفظِ ڈیٹا، قانونی ڈھانچے اور قومی تحفظ کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جانا ہوگا۔ سیکیورٹی کے شعبے میں دہشت گردی کے خلاف اتحاد بظاہر مضبوط ہے، مگر اس کے علاوہ خطے میں عسکری اور سیاسی توازن پر اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
یہ اعلامیہ، مجموعی طور پر، SCO کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر دوبارہ متحرک کرتا ہے جو کم از کم چار اہم جہتوں سیکیورٹی، اقتصادی، ٹیکنالوجی، عالمی حکمرانی میں کردار ادا کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر مغربی غلبہ کو چیلنج کرنے اور ایک متوازن، منصفانہ اور ہم آہنگ عالمی ڈھانچے کی تعمیر کے خواہاں ہے، جہاں پاکستان جیسے ممالک کو نہ صرف موقع بلکہ شراکت کا پلیٹ فارم بھی میسر ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیے پاکستان کے اعلامیے نے ایس سی او کے طور پر ممالک کے کے خلاف اور روس کرتا ہے کے لیے کو بھی کیا ہے
پڑھیں:
8 فروری الیکشن میں کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دیا گیا
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) 8 فروری الیکشن سے متعلق کامن ویلتھ رپورٹ میں وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلی، انسانی و سیاسی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کا انکشاف، رپورٹ کے مطابق 8 فروری الیکشن میں کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دیا گیا، پولنگ سٹیشنوں پر اصل نتائج کے فارم اور حتمی نتائج کے فارموں میں واضح تضاد موجود تھا۔ تفصیلات کے مطابق کامن ویلتھ کی جانب سے 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی چھپانے میں مدد کا انکشاف ہو اہے۔ برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کے مطابق اس حوالے سے لیک ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ رجیم نے 2024ء کا انتخاب عمران خان کی پی ٹی آئی پارٹی سے دھاندلی اور ووٹوں کی ہیرا پھیری کے ذریعے چُرایا، اس حوالے سے دولتِ مشترکہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے 2024ء کے عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر کی گئی دھاندلی کو چھپانے کی کوشش کی۔(جاری ہے)
بتایا گیا ہے کہ دولتِ مشترکہ کا سیکریٹریٹ عام طور پر اپنے رکن ممالک کے انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک آزاد مبصر کے طور پر کام کرتا ہے اور اسی مقصد کے لیے اس نے فروری 2024ء کے الیکشن میں پاکستان میں 13 رکنی مبصر وفد بھیجا تھا لیکن اپنی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار دولتِ مشترکہ نے مشاہداتی رپورٹ شائع کرنے سے گریز کیا اور اس کے برعکس انتخابات کی شفافیت اور پاکستان کے جمہوری عمل کی تعریف کی، تاہم اب سامنے آنے والی رپورٹ جو کہ پہلے دبا دی گئی تھی اس میں واضح طور پر وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلی اور انسانی و سیاسی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی، جن میں آزادی اظہار، اجتماع اور انجمن سازی پر پابندیاں شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی پشت پناہی رکھنے والی حکومت نے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو منصفانہ انتخابی مہم چلانے سے محروم رکھا، امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا اور پارٹی کو اس کا انتخابی نشان استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا، مبصر ٹیم نے بتایا کہ حکومتی فیصلے بار بار ایک جماعت کو غیر مساوی اور محدود انتخابی میدان میں دھکیلتے رہے، متعدد پولنگ سٹیشنوں پر اصل نتائج کے فارم اور حلقہ سطح پر جاری کیے گئے حتمی نتائج کے فارموں میں واضح تضاد موجود تھا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دے دیا گیا۔ برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ رپورٹ کو پہلے غیر رسمی طور پر حکومتِ پاکستان سے شیئر کیا گیا اور بعد ازاں مبینہ طور پر حکومت نے اسے شائع نہ کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر دولتِ مشترکہ سیکریٹریٹ نے عمل کیا اور رپورٹ کو دبا دیا، یہ رپورٹ جو اب مکمل طور پر لیک ہو چکی ہے، ڈراپ سائٹ نیوز نے حاصل کی، جس میں دولتِ مشترکہ پر دھاندلی کو چھپانے میں ملوث ہونے کا الزام لگ رہا ہے، رپورٹ میں انتخابات میں منظم دھاندلی اور ریاستی مشینری کے غلط استعمال کا ذکر ہے، جس کے ذریعے عمران خان کی غیر موجودگی میں ان کی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ دولتِ مشترکہ کے ترجمان نے اس معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان رپورٹس سے آگاہ ہیں جو آن لائن گردش کر رہی ہیں لیکن ان کا اصولی مؤقف ہے کہ وہ لیک شدہ دستاویزات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے، حکومتِ پاکستان اور الیکشن کمیشن کو رپورٹ پہلے ہی موصول ہو چکی ہے اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا یہ رپورٹ رواں ماہ کے آخر میں شائع کی جائے گی۔