آزاد جموں و کشمیر: حسن، استقامت اور خوشحالی کا سنگم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) اپنی قدرتی خوبصورتی اور عوام کی استقامت کے باعث امن اور ترقی کی ایک روشن مثال بن کر ابھرا ہے۔ ماضی میں تنازعات سے متاثرہ یہ خطہ آج ایک نمایاں سیاحتی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے سیاح وادیوں اور جھیلوں کا رخ کر رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بنیادی ڈھانچے، توانائی اور مہمان نوازی کے شعبوں میں سرمایہ کاری نے خطے میں استحکام پیدا کیا اور روزگار کے مواقع بڑھائے ہیں۔
مزید پڑھیں: آزاد جموں و کشمیر ہائیکورٹ کا تاریخی فیصلہ، ضلعی کوٹہ سسٹم ختم
تعلیم، صحت اور پائیدار سیاحت کے شعبوں میں مسلسل تعاون آزاد کشمیر کی حقیقی صلاحیت کو اجاگر کر رہا ہے، جس سے معاشی بحالی، ثقافتی تبادلے اور قومی یکجہتی کو فروغ مل رہا ہے۔
ترقی کے اس سفر نے آزاد کشمیر کو نہ صرف پاکستان کی سیاحت کا سنگ بنیاد بنایا ہے بلکہ قومی ہم آہنگی اور مشترکہ خوشحالی کی علامت بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں:بھارتی قیادت کے آزاد جموں و کشمیر سے متعلق اشتعال انگیز بیانات پر تشویش ہے، پاکستان
وادیوں کی مسحور کن خوبصورتی سے لے کر ترقی کی منڈیوں تک، آزاد کشمیر آج پاکستان کے مشترکہ تشخص اور اجتماعی ترقی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ خطہ وفاقی وژن کے تحت ایک ’اقتصادی نشاۃِ ثانیہ‘ کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں امن، خوشحالی اور ترقی پاکستان کے مستقبل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد جموں و کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔