یروشلم : نیتن یاہو کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، رہائشگاہ کے قریب گاڑی اور ٹینکر کو آگ لگا دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
اسرائیل کے متنازع دارالحکومت یروشلم میں وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف عوامی غصہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خصوصاً غزہ میں پھنسے اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی میں ناکامی اور حکومت کی جارحانہ حکمتِ عملی پر عوام سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق مظاہرین نے نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب شدید احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف نعرے بازی کی بلکہ ایک آئل ٹینکر کو آگ لگا دی، جو ساتھ کھڑی ایک اسرائیلی فوجی کی گاڑی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ دونوں گاڑیاں مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئیں۔
مظاہرے میں شریک بعض افراد کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج غزہ میں قید 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حکومتی غفلت کے خلاف ہے۔ ایک فوجی اہلکار، جس کی گاڑی جل گئی، نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا میں خود غزہ میں محاذ پر موجود رہا ہوں اور یرغمالیوں کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑا ہوں، لیکن یہ آگ اب عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کر رہی ہے۔
احتجاج کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، اور وزیراعظم کی رہائش گاہ کے آس پاس کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ مظاہرین نے جگہ جگہ کوڑے دانوں اور ٹائروں کو بھی آگ لگا دی، جس سے قریبی املاک کو نقصان پہنچا۔
یہ مظاہرہ یومِ خلل کے طور پر منایا گیا، جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
اسرائیلی پولیس نے مظاہرے کو جرم اور دہشت گردی” قرار دے دیا، جبکہ وزیرِانصاف یاریو لیوِن اور انتہاپسند وزیرِ قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مظاہرین کو آتش زن دہشت گرد” قرار دیتے ہوئے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب حکومت نے حسبِ روایت داخلی بحران کا ذمہ دار عدلیہ اور اٹارنی جنرل گالی بہاراو-میارا پر ڈالنا شروع کر دیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے گاڑیوں کو آگ لگانے کی مذمت تو کی، لیکن حکومت پر بھی کڑی تنقید کی۔ اپوزیشن رہنما یائیر لپیڈ اور بینی گینتز نے کہا:
پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی سنجیدہ معاہدہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔”
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اسرائیل شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ عوامی بے چینی، سیاسی کشمکش، اور غزہ میں مسلسل جنگی صورتِ حال نے اسرائیلی معاشرے کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے امکانات کو سبوتاژ کیا تاکہ اپنی انتہاپسند پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔
اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی بےچینی اور احتجاجی تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ نیتن یاہو کی پالیسیوں نے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ خود اسرائیلی عوام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
بین الاقوامی برادری کے لیے یہ ایک اور لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اسرائیل کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل پر محض خاموش تماشائی نہ بنے، بلکہ انسانی المیے کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کرے۔
اسی حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک حالیہ بیان بھی سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ اسرائیل کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور اس کے روایتی اتحادی بھی اب اس کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دے رہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی نیتن یاہو کے لیے
پڑھیں:
تنزانیہ، صدر سامیہ 98 فیصد ووٹوں سے کامیاب؛ ملک گیر پُرتشدد مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ کی صدر 65 سالہ سامیہ سُلوحُو حسن دوسری مدت کے لیے ملک کی صدر منتخب ہوگئیں تاہم ان نتائج کے خلاف پُرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق الیکشن کمیشن نے بدھ کو ہونے والے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کردیا جن کے تحت صدر سامیہ حسن نے 97.66 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق صدر سامیہ حسن نے ملک بھر کے تقریباً تمام حلقوں میں برتری حاصل کی۔ ان کی حلف برداری کی تقریب آج منعقد ہوگی۔
تاہم ان متوقع نتائج کے خلاف پہلے ہی اپوزیشن کی اپیل پر ملک گیر مظاہرے جاری ہیں جنھیں طاقت سے کچلنے کی کوشش میں 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم سیکیورٹی فورسز نے اپوزیشن جماعت چادمہ پارٹی کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد 5 سے زائد ہے۔
یہ انتخابات اس وقت تنازع کا شکار ہوگئے جب حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنماؤں کو صدارتی دوڑ سے باہر کر دیا گیا اور متعدد رہنما جیل میں قید ہیں۔
انتخاب کے روز (بدھ) کو دارالحکومت اور دیگر شہروں میں مظاہرین نے حکومت مخالف احتجاج کیا تھا اور صدر سامیہ حسن کی تصویروں والے پوسٹرز پھاڑ دیئے تھے۔
مظاہرین نے دارالحکومت میں متعدد سرکاری عمارتوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا جواب میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔
صدر سامیہ حسن نے اب تک انتخابی نتائج یا پرتشدد واقعات پر کوئی بیان نہیں دیا۔ وہ 2021 میں سابق صدر جان ماغوفولی کی اچانک موت کے بعد عہدہ سنبھالنے والی ملک کی پہلی خاتون صدر بن تھیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سامیہ حسن ملک کے نائب صدر کے عہدے پر فائز تھیں۔