WE News:
2025-11-03@02:03:30 GMT

زوال کے لمحے

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

ہم وہ نسل ہیں جسے تاریخ کی بڑی تبدیلیوں میں سے ایک کا مشاہدہ نصیب ہو رہا ہے۔ وہ تبدیلی جو صدیوں بعد رونما ہوتی ہے۔ اور اس کی رونمائی دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس تبدیلی کے دوران کرہ ارض پر حاکمیت ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتی ہے۔ 1400 برس قبل یہ تبدیلی رونما ہوئی تو اختیار رومن اور پرشین ایمپائر سے ہم مسلمانوں کو منتقل ہوا تھا۔ لگ بھگ 600 برس ہمارا راج رہا تھا۔ پھر ہم ڈوبے اور مغرب ابھرا۔

ہماری طرح مغرب میں بھی طاقت اندرونی طور ادھر ادھر منتقل ہوتی رہی مگر دنیا پر حاکمیت مغرب کی ہی رہی۔ مغرب کے حصے میں بھی حاکمیت لگ بھگ 600 برس کی رہی۔ اختیار کی منتقلی کے اس عمل میں علم کے بھی ادوار بدلتے رہے۔ گریک سویلائزیشن نے علم کو جس مقام پر چھوڑا تھا، وہاں سے آگے اسے ہم لے کر چلے۔ اور جہاں ہم نے چھوڑا تھا، اس سے آگے اسے مغرب نے بڑھایا۔ یوں علم اپنے 3 ادوار مکمل کرچکا۔ گریک، مسلم اور مغربی ادوار کے بعد اب علم چوتھے دور میں داخل ہو رہا ہے، اور اس چوتھے دور کا دیباچہ بیجنگ میں رقم ہوتا ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔ آہ! بلکہ ثم آہ کہ سرسید مرحوم نے ہمیں مغربی بن کر ترقی کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس کی منزل آنے سے قبل ہی مغرب کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ یوں ہم نیم مشرقی، نیم مغربی والی حالت میں آدھے تیتر، آدھے بٹیر بنے اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی تکمیل کے بعد ہمارے مغربی بننے کی کوئی تک رہے گی نہیں۔ نئے فریب کے لیے کوئی نیا سرسید درکار ہوگا۔

اختیار جب ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتا ہے تو یہ راتوں رات نہیں ہوتا۔ شروع میں بس کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اور ان علامات کا دائرہ دھیرے دھیرے پھیلتا ہے۔ یوں شروع میں یہ علامات صرف بڑے ماہرین کو ہی نظر آتی ہیں۔ جب وہ اس کا اظہار کرتے ہیں تو سننے والے ہنس بھی دیتے ہیں، اور حسب توفیق مذاق بھی اڑا لیتے ہیں۔ لیکن جب ان علامات کا دائرہ 8،10 سال میں وسیع ہوجاتا ہے تو پھر سب چونکنا شروع کردیتے ہیں۔ یوں آج کل ہم چونکنے والے مرحلے میں ہیں۔ انسان کی بے بسی دیکھئے کہ جو چند برس پیچھے خدا بنے دکھے، وہ چاہ کر بھی تبدیلی کا راستہ نہیں روک پاتے۔ سو الحاد کے تفاخر سے گزرتا مغرب الحاد کے باوجود بے بس ہے۔ ’الحاد کے باوجود بے بس‘ جملہ کچھ عجیب لگا ہوگا۔ الحاد خدا کا انکار کہاں ہے؟ یہ تو مغربی انسان کا اپنے خدا ہونے کا اعلان تھا۔ وہی نطشے والا سپر مین جو ان کے تصور کے مطابق اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹالن کے عوامی محل

صدیوں بعد رونما ہونے والی تبدیلی اختیار مغرب سے مشرق یعنی چین کی طرف منتقل کر رہی ہے۔ اور مغربی سپر مین کے پاس ٹیرف کی بے اثر دھمکی کے سوا کچھ نہیں۔ جن کی منشا کے مطابق دنیا کے فیصلے ہوتے تھے۔ وہ اب ایک انڈیا کو ہی روسی تیل خریدنے سے نہیں روک پارہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری کامیابی کے ساتھ انڈیا کو چین سے دوستی پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تنہا انتنا بڑا کارنامہ ہے کہ جج اگر منصف بھی ہوئے تو نوبیل پیس پرائز تو پکا ہے۔ ابھی کل پرسوں 7 سال میں پہلی بار نرندر مودی چائنا میں تھے۔ 7 برس کا یہ جمود کس نے توڑا؟ مغرب کے سپر مین نے۔ کیا ٹرمپ اور ان کی ٹیم تصور بھی کر پائی ہوگی کہ برکس سے کاٹنے کی بجائے وہ انڈیا کو اس چین کے ہی قریب کردیں گے، جس چین کے خلاف استعمال کرنا تھا ؟

2 ڈھائی ہفتے ہی گزرے ہوں گے جب وائٹ ہاؤس سے وہ تصویر وائرل ہوئی جسے سوشل میڈیا پر ’کلاس روم‘ کا ٹائٹل ملا۔ وہی تصویر میں جس میں 8 یورپین لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور شاگردانہ شان لیے بیٹھے تھے۔ اب کچھ تصاویر چائنیز شہر تیانجن سے بھی جاری ہوئی ہیں۔ ذرا فرق دیکھیے۔ وائٹ ہاؤس والی تصویر میں جو لوگ تھے ان کا ایجنڈا کیا تھا؟ روس کے پڑوس میں واقع یوکرین نامی ملک میں اپنی ناک کٹنے سے کیسے بچائیں؟ یہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکمرانوں کا ایجنڈا تھا۔ اور تیانجن والوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ چین کے صدر شی جن پنگ نے ’عالمی حکمرانی کا نیا آغاز‘ متعارف کروایا جو امریکا کے تسلط کے مقابلے میں ایک متوازن اور زیادہ شراکتی عالمی نظام کی علامت قرار پایا۔ عالمی لیڈر جمع ہوئے تو ایجنڈا محض ایک ملک نہیں عالمی تھا۔

صرف عالمی حکمرانی کے نئے آغاز پر ہی بات نہ رکی بلکہ صدر شی نے ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل مالیاتی سسٹمز کی بھی بات کی۔ عالمی سیاست کا شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ’انحصار کم‘ کرنے سے اصل مراد انحصار ختم کرنا ہی ہے۔ یہ ڈالر پر انحصار ہی تو ہے جس نے امریکا کو مالیاتی بلیک میلنگ کا موقع فراہم کر رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے درجہ دوم کے حکمرانوں کو یہ اعتماد بلکہ یقین کیوں ہے کہ چین اور روس انہیں ڈالر کی بلیک میلنگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟ سامنے کی بات ہے۔ چین نے امریکا کے ٹیرف کارڈ کے غبارے سے ہوا نکالی کہ نہیں؟ اور روس نے تاریخ کی سب سے شدید اقتصادی و مالیاتی پابندیوں کے دوران اپنی معیشت کو مزید ترقی دلوا کر دکھائی کہ نہیں؟ یہ 2 عملی مظاہرے گلوبل ساؤتھ کو یقین محکم فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

جب برا وقت آیا ہو تو وائٹ ہاؤس، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ اور الیزے محل میں بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ یورپین معیشتوں کی ترقی کا سارا انحصار سستی رشین گیس پر تھا۔ اس کے باوجود محض اس خوش فہمی میں یہ اسی روس سے بھڑ لیے کہ اسے 5 ٹکڑوں میں بانٹ کر وسائل قبضہ کرلیں گے اور مزید ترقی کریں گے۔ روس نے پابندیوں کا جواب گیس کی بندش سے دیا تو ان کی معیشتیں لرزنے لگیں۔ مگر ہوش کے ناخن پھر بھی نہ لیے گئے۔ الٹا روس کے خلاف مؤقف میں مزید شدت پیدا کرلی گئی۔ یقیناً یہ خیال کہیں نہ کہیں موجود رہا ہوگا کہ اگر حالات بہت ہی خراب ہوئے تو روس کو راضی کرکے گیس والا وال پھر سے کھلوا لیں گے۔

مزید پڑھیے: ’فارسی کوریڈور‘

مگر 2 روز قبل وہ چانس بھی دفن ہوگیا۔ چین اور روس نے سائبیریا 2 نامی اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تمام گیس اب چین خریدے گا جو یورپ کو ملا کرتی تھی۔ یورپ میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل تو پہلے ہی جاری تھا۔ اس معاہدے کے بعد اس میں بہت تیزی آجائے گی۔ کیونکہ کسی صلح صفائی کے نتیجے میں گیس پھر سے ملنے کی جو موہوم سی امید بھی کہیں تھی، وہ اب باقی نہ رہی۔ یورپین معیشتوں کی صورتحال پہلے ہی اتنی ابتر ہوچکی کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ اور فرانس دونوں سے متعلق امکان ظاہر کیا گیا کہ انہیں جلد آئی ایف ایف بیل آؤٹ پیک کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ اور ان حالات میں بھی ان ممالک کے حکمران اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ زلینسکی کو مزید اربوں ڈالرز کیسے فراہم کیے جائیں؟

دنیا پر مغربی راج کے آخری 80 سال امریکی قیادت کے رہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ زوال کے ان لمحوں میں امریکی صدر کی سب سے بڑی فکر کیا ہے؟ کسی طرح نوبیل پیس پرائز مل جائے۔ بیشک اس کے لیے 10 مرغوں کو لڑا کر ان کے بیچ سیز فائر کروانا پڑے۔ اگر زوال کے لمحوں میں بھی قائد مغرب کا ایجنڈا اس حد تک ذاتی ہے کہ حضور محض ایک ایوارڈ کے لیے مرے جا رہے ہیں تو ان کا زوال رکنے کا ایک فیصد بھی چانس ہے؟ مت تو اس شدت کی ماری گئی ہے کہ دنیا پر اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی واحد اسکیم ان کے پاس بس ٹیرف کارڈ کی رہ گئی ہے۔ انہیں لگتا ہے ہر چیز کا علاج ٹیرف ہے۔ ٹیرف نہ ہوا مسلمانوں کی کلونجی ہوگئی جو موت کے علاوہ ہر چیز کا علاج ہے۔

مزید پڑھیں: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

آپ اگر ٹیرف کارڈ کو بیچ سے ہٹا دیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کا پورا ایجنڈا محض ان کی ذات کے گرد گھومتا نظر آئے گا۔ مثلا نوبیل پیس پرائز کے بعد ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ باراک اوباما نے ان کے خلاف جو سازش رچی تھی اس میں شامل کرداروں کو سبق سکھانا ہے۔ تیسرے نمبر پر جیفری ایپسٹین فائلز کا ایشو ہے، وہ بھی ذاتی ہے۔ زوال کے عرصے میں کس قماش کے حکمران آتے ہیں، یہ ہم نے اس سے قبل صرف تاریخ کی کتب میں ہی پڑھ رکھا تھا۔ شکر ہے اب دیکھنا بھی نصیب ہوگئے۔ اب ہمیں محض رنگیلے شاہ کے حوالے تک نہیں رہنا پڑے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا امریکی ٹیرف ٹرمپ ٹیرف کارڈ چین گریک سویلائزیشن وائٹ ہاؤس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی ٹیرف ٹرمپ ٹیرف کارڈ چین وائٹ ہاؤس وائٹ ہاؤس کا ایجنڈا ٹیرف کارڈ میں بھی زوال کے رہے ہیں کے بعد کے لیے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مختلف ممالک پر عائد ٹیرف کو مسترد کردیا
  • امریکی سینیٹ نے مختلف ممالک پر لگایا گیا ٹرمپ ٹیرف مسترد کردیا