WE News:
2025-09-17@23:46:48 GMT

زوال کے لمحے

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

ہم وہ نسل ہیں جسے تاریخ کی بڑی تبدیلیوں میں سے ایک کا مشاہدہ نصیب ہو رہا ہے۔ وہ تبدیلی جو صدیوں بعد رونما ہوتی ہے۔ اور اس کی رونمائی دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس تبدیلی کے دوران کرہ ارض پر حاکمیت ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتی ہے۔ 1400 برس قبل یہ تبدیلی رونما ہوئی تو اختیار رومن اور پرشین ایمپائر سے ہم مسلمانوں کو منتقل ہوا تھا۔ لگ بھگ 600 برس ہمارا راج رہا تھا۔ پھر ہم ڈوبے اور مغرب ابھرا۔

ہماری طرح مغرب میں بھی طاقت اندرونی طور ادھر ادھر منتقل ہوتی رہی مگر دنیا پر حاکمیت مغرب کی ہی رہی۔ مغرب کے حصے میں بھی حاکمیت لگ بھگ 600 برس کی رہی۔ اختیار کی منتقلی کے اس عمل میں علم کے بھی ادوار بدلتے رہے۔ گریک سویلائزیشن نے علم کو جس مقام پر چھوڑا تھا، وہاں سے آگے اسے ہم لے کر چلے۔ اور جہاں ہم نے چھوڑا تھا، اس سے آگے اسے مغرب نے بڑھایا۔ یوں علم اپنے 3 ادوار مکمل کرچکا۔ گریک، مسلم اور مغربی ادوار کے بعد اب علم چوتھے دور میں داخل ہو رہا ہے، اور اس چوتھے دور کا دیباچہ بیجنگ میں رقم ہوتا ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔ آہ! بلکہ ثم آہ کہ سرسید مرحوم نے ہمیں مغربی بن کر ترقی کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس کی منزل آنے سے قبل ہی مغرب کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ یوں ہم نیم مشرقی، نیم مغربی والی حالت میں آدھے تیتر، آدھے بٹیر بنے اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی تکمیل کے بعد ہمارے مغربی بننے کی کوئی تک رہے گی نہیں۔ نئے فریب کے لیے کوئی نیا سرسید درکار ہوگا۔

اختیار جب ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتا ہے تو یہ راتوں رات نہیں ہوتا۔ شروع میں بس کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اور ان علامات کا دائرہ دھیرے دھیرے پھیلتا ہے۔ یوں شروع میں یہ علامات صرف بڑے ماہرین کو ہی نظر آتی ہیں۔ جب وہ اس کا اظہار کرتے ہیں تو سننے والے ہنس بھی دیتے ہیں، اور حسب توفیق مذاق بھی اڑا لیتے ہیں۔ لیکن جب ان علامات کا دائرہ 8،10 سال میں وسیع ہوجاتا ہے تو پھر سب چونکنا شروع کردیتے ہیں۔ یوں آج کل ہم چونکنے والے مرحلے میں ہیں۔ انسان کی بے بسی دیکھئے کہ جو چند برس پیچھے خدا بنے دکھے، وہ چاہ کر بھی تبدیلی کا راستہ نہیں روک پاتے۔ سو الحاد کے تفاخر سے گزرتا مغرب الحاد کے باوجود بے بس ہے۔ ’الحاد کے باوجود بے بس‘ جملہ کچھ عجیب لگا ہوگا۔ الحاد خدا کا انکار کہاں ہے؟ یہ تو مغربی انسان کا اپنے خدا ہونے کا اعلان تھا۔ وہی نطشے والا سپر مین جو ان کے تصور کے مطابق اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹالن کے عوامی محل

صدیوں بعد رونما ہونے والی تبدیلی اختیار مغرب سے مشرق یعنی چین کی طرف منتقل کر رہی ہے۔ اور مغربی سپر مین کے پاس ٹیرف کی بے اثر دھمکی کے سوا کچھ نہیں۔ جن کی منشا کے مطابق دنیا کے فیصلے ہوتے تھے۔ وہ اب ایک انڈیا کو ہی روسی تیل خریدنے سے نہیں روک پارہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری کامیابی کے ساتھ انڈیا کو چین سے دوستی پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تنہا انتنا بڑا کارنامہ ہے کہ جج اگر منصف بھی ہوئے تو نوبیل پیس پرائز تو پکا ہے۔ ابھی کل پرسوں 7 سال میں پہلی بار نرندر مودی چائنا میں تھے۔ 7 برس کا یہ جمود کس نے توڑا؟ مغرب کے سپر مین نے۔ کیا ٹرمپ اور ان کی ٹیم تصور بھی کر پائی ہوگی کہ برکس سے کاٹنے کی بجائے وہ انڈیا کو اس چین کے ہی قریب کردیں گے، جس چین کے خلاف استعمال کرنا تھا ؟

2 ڈھائی ہفتے ہی گزرے ہوں گے جب وائٹ ہاؤس سے وہ تصویر وائرل ہوئی جسے سوشل میڈیا پر ’کلاس روم‘ کا ٹائٹل ملا۔ وہی تصویر میں جس میں 8 یورپین لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور شاگردانہ شان لیے بیٹھے تھے۔ اب کچھ تصاویر چائنیز شہر تیانجن سے بھی جاری ہوئی ہیں۔ ذرا فرق دیکھیے۔ وائٹ ہاؤس والی تصویر میں جو لوگ تھے ان کا ایجنڈا کیا تھا؟ روس کے پڑوس میں واقع یوکرین نامی ملک میں اپنی ناک کٹنے سے کیسے بچائیں؟ یہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکمرانوں کا ایجنڈا تھا۔ اور تیانجن والوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ چین کے صدر شی جن پنگ نے ’عالمی حکمرانی کا نیا آغاز‘ متعارف کروایا جو امریکا کے تسلط کے مقابلے میں ایک متوازن اور زیادہ شراکتی عالمی نظام کی علامت قرار پایا۔ عالمی لیڈر جمع ہوئے تو ایجنڈا محض ایک ملک نہیں عالمی تھا۔

صرف عالمی حکمرانی کے نئے آغاز پر ہی بات نہ رکی بلکہ صدر شی نے ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل مالیاتی سسٹمز کی بھی بات کی۔ عالمی سیاست کا شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ’انحصار کم‘ کرنے سے اصل مراد انحصار ختم کرنا ہی ہے۔ یہ ڈالر پر انحصار ہی تو ہے جس نے امریکا کو مالیاتی بلیک میلنگ کا موقع فراہم کر رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے درجہ دوم کے حکمرانوں کو یہ اعتماد بلکہ یقین کیوں ہے کہ چین اور روس انہیں ڈالر کی بلیک میلنگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟ سامنے کی بات ہے۔ چین نے امریکا کے ٹیرف کارڈ کے غبارے سے ہوا نکالی کہ نہیں؟ اور روس نے تاریخ کی سب سے شدید اقتصادی و مالیاتی پابندیوں کے دوران اپنی معیشت کو مزید ترقی دلوا کر دکھائی کہ نہیں؟ یہ 2 عملی مظاہرے گلوبل ساؤتھ کو یقین محکم فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

جب برا وقت آیا ہو تو وائٹ ہاؤس، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ اور الیزے محل میں بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ یورپین معیشتوں کی ترقی کا سارا انحصار سستی رشین گیس پر تھا۔ اس کے باوجود محض اس خوش فہمی میں یہ اسی روس سے بھڑ لیے کہ اسے 5 ٹکڑوں میں بانٹ کر وسائل قبضہ کرلیں گے اور مزید ترقی کریں گے۔ روس نے پابندیوں کا جواب گیس کی بندش سے دیا تو ان کی معیشتیں لرزنے لگیں۔ مگر ہوش کے ناخن پھر بھی نہ لیے گئے۔ الٹا روس کے خلاف مؤقف میں مزید شدت پیدا کرلی گئی۔ یقیناً یہ خیال کہیں نہ کہیں موجود رہا ہوگا کہ اگر حالات بہت ہی خراب ہوئے تو روس کو راضی کرکے گیس والا وال پھر سے کھلوا لیں گے۔

مزید پڑھیے: ’فارسی کوریڈور‘

مگر 2 روز قبل وہ چانس بھی دفن ہوگیا۔ چین اور روس نے سائبیریا 2 نامی اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تمام گیس اب چین خریدے گا جو یورپ کو ملا کرتی تھی۔ یورپ میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل تو پہلے ہی جاری تھا۔ اس معاہدے کے بعد اس میں بہت تیزی آجائے گی۔ کیونکہ کسی صلح صفائی کے نتیجے میں گیس پھر سے ملنے کی جو موہوم سی امید بھی کہیں تھی، وہ اب باقی نہ رہی۔ یورپین معیشتوں کی صورتحال پہلے ہی اتنی ابتر ہوچکی کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ اور فرانس دونوں سے متعلق امکان ظاہر کیا گیا کہ انہیں جلد آئی ایف ایف بیل آؤٹ پیک کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ اور ان حالات میں بھی ان ممالک کے حکمران اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ زلینسکی کو مزید اربوں ڈالرز کیسے فراہم کیے جائیں؟

دنیا پر مغربی راج کے آخری 80 سال امریکی قیادت کے رہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ زوال کے ان لمحوں میں امریکی صدر کی سب سے بڑی فکر کیا ہے؟ کسی طرح نوبیل پیس پرائز مل جائے۔ بیشک اس کے لیے 10 مرغوں کو لڑا کر ان کے بیچ سیز فائر کروانا پڑے۔ اگر زوال کے لمحوں میں بھی قائد مغرب کا ایجنڈا اس حد تک ذاتی ہے کہ حضور محض ایک ایوارڈ کے لیے مرے جا رہے ہیں تو ان کا زوال رکنے کا ایک فیصد بھی چانس ہے؟ مت تو اس شدت کی ماری گئی ہے کہ دنیا پر اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی واحد اسکیم ان کے پاس بس ٹیرف کارڈ کی رہ گئی ہے۔ انہیں لگتا ہے ہر چیز کا علاج ٹیرف ہے۔ ٹیرف نہ ہوا مسلمانوں کی کلونجی ہوگئی جو موت کے علاوہ ہر چیز کا علاج ہے۔

مزید پڑھیں: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

آپ اگر ٹیرف کارڈ کو بیچ سے ہٹا دیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کا پورا ایجنڈا محض ان کی ذات کے گرد گھومتا نظر آئے گا۔ مثلا نوبیل پیس پرائز کے بعد ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ باراک اوباما نے ان کے خلاف جو سازش رچی تھی اس میں شامل کرداروں کو سبق سکھانا ہے۔ تیسرے نمبر پر جیفری ایپسٹین فائلز کا ایشو ہے، وہ بھی ذاتی ہے۔ زوال کے عرصے میں کس قماش کے حکمران آتے ہیں، یہ ہم نے اس سے قبل صرف تاریخ کی کتب میں ہی پڑھ رکھا تھا۔ شکر ہے اب دیکھنا بھی نصیب ہوگئے۔ اب ہمیں محض رنگیلے شاہ کے حوالے تک نہیں رہنا پڑے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا امریکی ٹیرف ٹرمپ ٹیرف کارڈ چین گریک سویلائزیشن وائٹ ہاؤس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی ٹیرف ٹرمپ ٹیرف کارڈ چین وائٹ ہاؤس وائٹ ہاؤس کا ایجنڈا ٹیرف کارڈ میں بھی زوال کے رہے ہیں کے بعد کے لیے

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • لازوال عشق
  • سینئر اداکار محمد احمد بھائی کے انتقال کے لمحے کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • 20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • پاکستان کا سب سے قیمتی نعرہ
  • یہ وہ لاہور نہیں