ہم وہ نسل ہیں جسے تاریخ کی بڑی تبدیلیوں میں سے ایک کا مشاہدہ نصیب ہو رہا ہے۔ وہ تبدیلی جو صدیوں بعد رونما ہوتی ہے۔ اور اس کی رونمائی دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس تبدیلی کے دوران کرہ ارض پر حاکمیت ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتی ہے۔ 1400 برس قبل یہ تبدیلی رونما ہوئی تو اختیار رومن اور پرشین ایمپائر سے ہم مسلمانوں کو منتقل ہوا تھا۔ لگ بھگ 600 برس ہمارا راج رہا تھا۔ پھر ہم ڈوبے اور مغرب ابھرا۔
ہماری طرح مغرب میں بھی طاقت اندرونی طور ادھر ادھر منتقل ہوتی رہی مگر دنیا پر حاکمیت مغرب کی ہی رہی۔ مغرب کے حصے میں بھی حاکمیت لگ بھگ 600 برس کی رہی۔ اختیار کی منتقلی کے اس عمل میں علم کے بھی ادوار بدلتے رہے۔ گریک سویلائزیشن نے علم کو جس مقام پر چھوڑا تھا، وہاں سے آگے اسے ہم لے کر چلے۔ اور جہاں ہم نے چھوڑا تھا، اس سے آگے اسے مغرب نے بڑھایا۔ یوں علم اپنے 3 ادوار مکمل کرچکا۔ گریک، مسلم اور مغربی ادوار کے بعد اب علم چوتھے دور میں داخل ہو رہا ہے، اور اس چوتھے دور کا دیباچہ بیجنگ میں رقم ہوتا ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔ آہ! بلکہ ثم آہ کہ سرسید مرحوم نے ہمیں مغربی بن کر ترقی کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس کی منزل آنے سے قبل ہی مغرب کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ یوں ہم نیم مشرقی، نیم مغربی والی حالت میں آدھے تیتر، آدھے بٹیر بنے اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی تکمیل کے بعد ہمارے مغربی بننے کی کوئی تک رہے گی نہیں۔ نئے فریب کے لیے کوئی نیا سرسید درکار ہوگا۔
اختیار جب ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کو منتقل ہوتا ہے تو یہ راتوں رات نہیں ہوتا۔ شروع میں بس کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اور ان علامات کا دائرہ دھیرے دھیرے پھیلتا ہے۔ یوں شروع میں یہ علامات صرف بڑے ماہرین کو ہی نظر آتی ہیں۔ جب وہ اس کا اظہار کرتے ہیں تو سننے والے ہنس بھی دیتے ہیں، اور حسب توفیق مذاق بھی اڑا لیتے ہیں۔ لیکن جب ان علامات کا دائرہ 8،10 سال میں وسیع ہوجاتا ہے تو پھر سب چونکنا شروع کردیتے ہیں۔ یوں آج کل ہم چونکنے والے مرحلے میں ہیں۔ انسان کی بے بسی دیکھئے کہ جو چند برس پیچھے خدا بنے دکھے، وہ چاہ کر بھی تبدیلی کا راستہ نہیں روک پاتے۔ سو الحاد کے تفاخر سے گزرتا مغرب الحاد کے باوجود بے بس ہے۔ ’الحاد کے باوجود بے بس‘ جملہ کچھ عجیب لگا ہوگا۔ الحاد خدا کا انکار کہاں ہے؟ یہ تو مغربی انسان کا اپنے خدا ہونے کا اعلان تھا۔ وہی نطشے والا سپر مین جو ان کے تصور کے مطابق اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹالن کے عوامی محل
صدیوں بعد رونما ہونے والی تبدیلی اختیار مغرب سے مشرق یعنی چین کی طرف منتقل کر رہی ہے۔ اور مغربی سپر مین کے پاس ٹیرف کی بے اثر دھمکی کے سوا کچھ نہیں۔ جن کی منشا کے مطابق دنیا کے فیصلے ہوتے تھے۔ وہ اب ایک انڈیا کو ہی روسی تیل خریدنے سے نہیں روک پارہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری کامیابی کے ساتھ انڈیا کو چین سے دوستی پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تنہا انتنا بڑا کارنامہ ہے کہ جج اگر منصف بھی ہوئے تو نوبیل پیس پرائز تو پکا ہے۔ ابھی کل پرسوں 7 سال میں پہلی بار نرندر مودی چائنا میں تھے۔ 7 برس کا یہ جمود کس نے توڑا؟ مغرب کے سپر مین نے۔ کیا ٹرمپ اور ان کی ٹیم تصور بھی کر پائی ہوگی کہ برکس سے کاٹنے کی بجائے وہ انڈیا کو اس چین کے ہی قریب کردیں گے، جس چین کے خلاف استعمال کرنا تھا ؟
2 ڈھائی ہفتے ہی گزرے ہوں گے جب وائٹ ہاؤس سے وہ تصویر وائرل ہوئی جسے سوشل میڈیا پر ’کلاس روم‘ کا ٹائٹل ملا۔ وہی تصویر میں جس میں 8 یورپین لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور شاگردانہ شان لیے بیٹھے تھے۔ اب کچھ تصاویر چائنیز شہر تیانجن سے بھی جاری ہوئی ہیں۔ ذرا فرق دیکھیے۔ وائٹ ہاؤس والی تصویر میں جو لوگ تھے ان کا ایجنڈا کیا تھا؟ روس کے پڑوس میں واقع یوکرین نامی ملک میں اپنی ناک کٹنے سے کیسے بچائیں؟ یہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکمرانوں کا ایجنڈا تھا۔ اور تیانجن والوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ چین کے صدر شی جن پنگ نے ’عالمی حکمرانی کا نیا آغاز‘ متعارف کروایا جو امریکا کے تسلط کے مقابلے میں ایک متوازن اور زیادہ شراکتی عالمی نظام کی علامت قرار پایا۔ عالمی لیڈر جمع ہوئے تو ایجنڈا محض ایک ملک نہیں عالمی تھا۔
صرف عالمی حکمرانی کے نئے آغاز پر ہی بات نہ رکی بلکہ صدر شی نے ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل مالیاتی سسٹمز کی بھی بات کی۔ عالمی سیاست کا شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ’انحصار کم‘ کرنے سے اصل مراد انحصار ختم کرنا ہی ہے۔ یہ ڈالر پر انحصار ہی تو ہے جس نے امریکا کو مالیاتی بلیک میلنگ کا موقع فراہم کر رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے درجہ دوم کے حکمرانوں کو یہ اعتماد بلکہ یقین کیوں ہے کہ چین اور روس انہیں ڈالر کی بلیک میلنگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟ سامنے کی بات ہے۔ چین نے امریکا کے ٹیرف کارڈ کے غبارے سے ہوا نکالی کہ نہیں؟ اور روس نے تاریخ کی سب سے شدید اقتصادی و مالیاتی پابندیوں کے دوران اپنی معیشت کو مزید ترقی دلوا کر دکھائی کہ نہیں؟ یہ 2 عملی مظاہرے گلوبل ساؤتھ کو یقین محکم فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
جب برا وقت آیا ہو تو وائٹ ہاؤس، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ اور الیزے محل میں بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ یورپین معیشتوں کی ترقی کا سارا انحصار سستی رشین گیس پر تھا۔ اس کے باوجود محض اس خوش فہمی میں یہ اسی روس سے بھڑ لیے کہ اسے 5 ٹکڑوں میں بانٹ کر وسائل قبضہ کرلیں گے اور مزید ترقی کریں گے۔ روس نے پابندیوں کا جواب گیس کی بندش سے دیا تو ان کی معیشتیں لرزنے لگیں۔ مگر ہوش کے ناخن پھر بھی نہ لیے گئے۔ الٹا روس کے خلاف مؤقف میں مزید شدت پیدا کرلی گئی۔ یقیناً یہ خیال کہیں نہ کہیں موجود رہا ہوگا کہ اگر حالات بہت ہی خراب ہوئے تو روس کو راضی کرکے گیس والا وال پھر سے کھلوا لیں گے۔
مزید پڑھیے: ’فارسی کوریڈور‘
مگر 2 روز قبل وہ چانس بھی دفن ہوگیا۔ چین اور روس نے سائبیریا 2 نامی اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تمام گیس اب چین خریدے گا جو یورپ کو ملا کرتی تھی۔ یورپ میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل تو پہلے ہی جاری تھا۔ اس معاہدے کے بعد اس میں بہت تیزی آجائے گی۔ کیونکہ کسی صلح صفائی کے نتیجے میں گیس پھر سے ملنے کی جو موہوم سی امید بھی کہیں تھی، وہ اب باقی نہ رہی۔ یورپین معیشتوں کی صورتحال پہلے ہی اتنی ابتر ہوچکی کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ اور فرانس دونوں سے متعلق امکان ظاہر کیا گیا کہ انہیں جلد آئی ایف ایف بیل آؤٹ پیک کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ اور ان حالات میں بھی ان ممالک کے حکمران اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ زلینسکی کو مزید اربوں ڈالرز کیسے فراہم کیے جائیں؟
دنیا پر مغربی راج کے آخری 80 سال امریکی قیادت کے رہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ زوال کے ان لمحوں میں امریکی صدر کی سب سے بڑی فکر کیا ہے؟ کسی طرح نوبیل پیس پرائز مل جائے۔ بیشک اس کے لیے 10 مرغوں کو لڑا کر ان کے بیچ سیز فائر کروانا پڑے۔ اگر زوال کے لمحوں میں بھی قائد مغرب کا ایجنڈا اس حد تک ذاتی ہے کہ حضور محض ایک ایوارڈ کے لیے مرے جا رہے ہیں تو ان کا زوال رکنے کا ایک فیصد بھی چانس ہے؟ مت تو اس شدت کی ماری گئی ہے کہ دنیا پر اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی واحد اسکیم ان کے پاس بس ٹیرف کارڈ کی رہ گئی ہے۔ انہیں لگتا ہے ہر چیز کا علاج ٹیرف ہے۔ ٹیرف نہ ہوا مسلمانوں کی کلونجی ہوگئی جو موت کے علاوہ ہر چیز کا علاج ہے۔
مزید پڑھیں: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟
آپ اگر ٹیرف کارڈ کو بیچ سے ہٹا دیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کا پورا ایجنڈا محض ان کی ذات کے گرد گھومتا نظر آئے گا۔ مثلا نوبیل پیس پرائز کے بعد ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ باراک اوباما نے ان کے خلاف جو سازش رچی تھی اس میں شامل کرداروں کو سبق سکھانا ہے۔ تیسرے نمبر پر جیفری ایپسٹین فائلز کا ایشو ہے، وہ بھی ذاتی ہے۔ زوال کے عرصے میں کس قماش کے حکمران آتے ہیں، یہ ہم نے اس سے قبل صرف تاریخ کی کتب میں ہی پڑھ رکھا تھا۔ شکر ہے اب دیکھنا بھی نصیب ہوگئے۔ اب ہمیں محض رنگیلے شاہ کے حوالے تک نہیں رہنا پڑے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی ٹیرف ٹرمپ ٹیرف کارڈ چین وائٹ ہاؤس وائٹ ہاؤس کا ایجنڈا ٹیرف کارڈ میں بھی زوال کے رہے ہیں کے بعد کے لیے
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔