پاکستان، اسلامی عرب اور یورپی ممالک نے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اسرائیل کے ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کو عالمی امن کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے فوری طور پر روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان علما کونسل کا اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کانفرنس کی تائید کا اعلان

یہ مطالبات پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ ’فلسطین امن کانفرنس‘ کے مشترکہ اعلامیے میں سامنے آئے جس میں فلسطینی قاضی القضاۃ ڈاکٹر محمود الہباش، امام مسجد اقصیٰ، مختلف اسلامی ممالک کے سفرا، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سمیت ملک بھر کے جید علمائے کرام، مشائخ اور اسکالرز نے شرکت کی۔

کانفرنس کی صدارت پاکستان علماء کونسل و سیکریٹری جنرل انٹرنیشنل تعظیم حرمین شریفین کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کی۔

گریٹر اسرائیل کا منصوبہ عالمی امن سے کھیلنے کی سازش قرار

اعلامیے میں کہا گیا کہ گریٹر اسرائیل کا تصور محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ دنیا کے امن و سلامتی سے کھیلنے کی خطرناک سازش ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ تمام اسلامی و عرب ممالک کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف کسی بھی سازش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔

فلسطین و کشمیر کا حل عالمی امن کے لیے ناگزیر

کانفرنس کے شرکا نے اس امر پر زور دیا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل کا پرامن اور فوری حل ہی دنیا میں دیرپا امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

22  ستمبر کی نیویارک کانفرنس میں فلسطینی شرکت پر امریکی پابندی کی مذمت

کانفرنس کے دوران جاری اعلامیے میں امریکا کی جانب سے 22 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والی فلسطین کانفرنس میں فلسطینی قیادت کی شرکت پر عائد پابندی کو افسوسناک اور قابلِ مذمت قرار دیا گیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی صدر کو شرکت سے روکنا ایک غیر منصفانہ اقدام ہے جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔

پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان کے مؤقف کی تحسین

شرکا نے فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی حکومت اور فوج کے مؤقف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم، صدر مملکت اور آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔ اعلامیہ میں اس مؤقف کو اہل فلسطین کی آواز قرار دیا گیا۔

سعودی ولی عہد کی کوششوں کو خراج تحسین

کانفرنس میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا گیا جبکہ فرانس، ناروے، جرمنی، بیلجیئم اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلوں کا خیرمقدم کیا گیا۔

قاضی القضاۃ فلسطین کا عزم

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قاضی القضاۃ فلسطین ڈاکٹر محمود الہباش نے کہا کہ غزہ زخمی ضرور ہے لیکن یہ اہل فلسطین کا ہے اور ہم کسی کو اس پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔

ڈاکٹر محمود الہباش نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیے: مذہبی اور مسلکی رواداری کے فروغ کے لیے علما کی جانب سے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے، علامہ طاہر اشرفی

انہوں نے پاکستان علما کونسل اور حافظ طاہر اشرفی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطینی قیادت کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔

کانفرنس کے دیگر شرکا کے خطابات

کانفرنس کی صدارت چیئرمین پاکستان علماء کونسل و سیکریٹری جنرل انٹرنیشنل تعظیم حرمین شریفین کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کی ۔ کانفرنس سے مولانا نعمان حاشر ، مولانا اسعد زکریا قاسمی ، مولانا محمد شفیع قاسمی ، مولانا اسد اللہ فاروق، مولانا محمد اشفاق پتافی ، مولانا ابو بکر حمید صابری ، مولانا طاہر عقیل اعوان، مولانا عزیز اکبر قاسمی ، مولانا حق نواز خالد، مولانا عبید اللہ گورمانی، علامہ طاہر الحسن ،مولانا حنیف عثمانی ، مولانا محمد اصغر کھوسہ ، مولانا انوار الحق مجاہد ،مولانا عبد المالک آصف ، مولانا اسلم صدیقی، مولانا عبد الحکیم اطہر، ،مولانا عبد اللہ حقانی، مولانا عبد الوحید فاروقی ، مولانا ابو بکر حمزہ ، مولانا حبیب الرحمان عابد،مولانا امین الحق اشرفی، مولانا اظہار الحق خالد، صاحبزادہ حمزہ طاہر الحسن ، مولانا سعد اللہ لدھیانوی ، مولانا انیس الرحمان بلوچ ، مولانا عبد الرشید ، مفتی محمد عمر فاروق ،مولانا عبد الغفار شاہ حجازی ،مولانا محمد احمد مکی،مولانا عزیز الرحمان معاویہ ،مفتی عمران معاویہ ، مولانا سعد اللہ شفیق، مولانا یاسر علوی ، قاری عبدالرؤف ، مولانا مطلوب مہار ،مولانا زبیر کھٹانہ، مولانا عقیل زبیری ،قاری عزیز الرحمان ،مولانا شبیر کھٹانہ، مولانا زبیر کھٹانہ، قاری عبد الماجد لاہوری ، مولانا فاروق خانپوری، مولانا قاسم سانگی، مولانا اشرف ملک ، مولانا اعجاز ملک، قاری عبد الوہاب معاویہ ، مولانا محمد بلال ثاقب، قاری ابراہیم، قاری ریاض ، مولاناامیر معاویہ، مولانا منیب الرحمن حیدری، قاری محبت علی قاسمی، قاری ذوالقرنین، مولانا طیب قریشی، قاری محمود الحسن، قاری عبد الماجد ملک اور دیگر نے خطاب کیا۔

مزید پڑھیں: خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنے والے لوگ جہلا ہیں، چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی

شرکا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان، اقصیٰ اور حرمین شریفین کی حرمت کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔ فلسطین کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور اسرائیل کو تسلیم نہ کیا ہے اور نہ ہی کبھی تعلقات قائم ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اسلام اباد پاکستان علما کونسل فلسطین فلسطین امن کانفرنس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسلام اباد پاکستان علما کونسل فلسطین فلسطین امن کانفرنس پاکستان علما کونسل گریٹر اسرائیل فلسطینی ریاست اعلامیے میں مولانا محمد میں فلسطینی مولانا عبد کی جانب سے کہ فلسطین ریاست کے شرکا نے کے لیے

پڑھیں:

سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-3

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔

قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔

آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔

آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی فوٹیج لیک کرنے پر اسرائیلی چیف ملٹری پراسیکیوٹر برطرف
  • حافظ طاہر مجید کی میئر حیدرآباد سے ملاقات، ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
  • بہار ریاست میں ایک مسلم نائب وزیراعلٰی ہونا چاہیئے، کانگریس لیڈر راشد علوی کا مطالبہ
  • مولانا عبدالخبیر آزاد کی پوپ لیو سے ملاقات، امن اور ہم آہنگی کے لیے مشترکہ اقدامات پر تبادلہ خیال
  • مولانا عبدالخبیر آزاد کی ویٹی کن سٹی میں پوپ لیو سے ملاقات